پاکستان

ایف اے ٹی ایف: کیا نئی قانون سازی سیاسی مخالفین اور میڈیا کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال ہو گی؟

Share

بین الاقوامی تنظیم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے مطالبات کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستانی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں ہونے والی قانون سازی کے بعد حزب مخالف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون سازی صرف ایف اے ٹی ایف کی ضروریات کو پوری کرنے کے لیے نہیں بلکہ حکومت مخالف لوگوں کو نشانہ بنانے کے لیے بھی کی گئی ہے۔

اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ درحقیقت ایف اے ٹی ایف کے مطالبات کی آڑ میں منی لانڈرنگ کا بل منظور کیا گیا ہے جس سے عام آدمی کی زندگی مزید مشکل ہو جائے گی۔

اُنھوں نے کہا کہ اس بل کی بعض شقوں پر تو حکومت نے حزب مخالف کی جماعتوں سے کسی حد تک مشاورت کی لیکن زیادہ تر ترامیم کو تو پارلیمنٹ، بلخصوص سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں کے سپرد ہی نہیں کیا گیا۔

رضا ربانی کا کہنا تھا حکومت کا یہ اقدام پارلیمان پر عدم اعتماد کا مظہر ہے اور ایسے اقدامات سے پارلیمنٹ کمزور تر ہو رہی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں سینیٹ کے سابق چیئرمین کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کی آڑ میں ہونے والی قانون سازی کا معاملہ اگلے ہفتے ہونے والی حزب مخالف کی آل پارٹیز کانفرنس میں بھی اُٹھایا جائے گا۔

رضا ربانی
،تصویر کا کیپشنرضا ربانی: ایف اے ٹی ایف کے مطالبات کی آڑ میں منی لانڈرنگ کا بل منظور کیا گیا ہے

اُن سے یہ پوچھا گیا کہ مشترکہ اجلاس کی صورت میں حزبِ مخالف کی جماعتوں کو عددی برتری ہونی چاہیے تھی تو یہ بل کیسے منظور ہو گئے؟ سینیٹر ربانی کا کہنا تھا کہ حکومت کے علم میں تھا کہ وہ کس روز پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلائے گی تاہم حزب اختلاف کو اس اجلاس کے انعقاد کا سمن اجلاس سے چند گھنٹے پہلے جاری کیا گیا۔

اُنھوں نے کہا کہ اتنے کم عرصے میں بھی حزب مخالف کی جماعتوں کی قیادت نے اپنے ارکان کی حاضری یقنی بنانے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود کچھ لوگ نہیں آ سکے جس سے مشترکہ اجلاس میں حزب اختلاف کی عددی برتری متاثر ہوئی۔

یاد رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری بھی بدھ کے روز ہونے والے اجلاس میں شریک نہیں تھے۔

بلوچستان نیشل پارٹی (مینگل ) گروپ نے ایف اے ٹی ایف کے معاملے پر حکومت کا ساتھ نہیں بلکہ اپوزیشن کا ساتھ دیا۔ حکومت سے علیحدگی کے بعد بی این پی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پہلی مرتبہ حکومت کی مخالفت کی ہے۔

پارلیمنٹ میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینیٹر جاوید عباسی کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے حزبِ مخالف کی جماعتیں قانون سازی کرنے کے لیے تیار تھیں لیکن حکومت نے اس کی آڑ میں ایسی قانون سازی بھی کر دی ہے جو کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ حکومت نے ایف اے ٹی ایف کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے حزب مخالف کی جماعتوں سے تعاون مانگا تو ان جماعتوں نے ملکی مفاد کے پیش نظر یہ سب کیا لیکن وزیر اعظم کی طرف سے یہ الزام عائد کیا گیا کہ حزب مخالف کی جماعتیں ایف اے ٹی ایف کے معاملے پر حکومت کو بلیک میل کرنا چاہتی ہیں۔

ایف اے ٹی ایف
،تصویر کا کیپشنایف اے ٹی ایف

ایف اے ٹی ایف کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون سازی کے لیے حزب مخالف کی جماعتوں کی طرف سے جو ترامیم پیش کی گئیں ان سب کو مسترد کر دیا گیا۔

سینیٹر جاوید عباسی جو کہ وزارت قانون اور انصاف سے متعلق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں، کا کہنا ہے کہ منی لانڈرنگ سے متعلق جو قانون سازی کی گئی اس کا مسودہ تک متعقلہ قائمہ کمیٹی کو نہیں بھجوایا گیا جس سے حکومت کی سنجیدگی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ جس عجلت میں یہ قانون سازی کی جا رہی ہے اس کے نقصانات بھی سامنے آ سکتے ہیں جو کہ ملکی مفاد میں نہیں ہوں گے۔

صحافی اور تجزیہ نگار حامد میر کا کہنا ہے کہ اگرچہ ایف اے ٹی ایف کے مطالبات کو سامنے رکھتے ہوئے قوانین میں ترامیم کی گئی ہیں تاہم اب یہ قوانین شدت پسندوں کے علاوہ سیاسی جماعتوں اور میڈیا مالکان کے خلاف بھی استعمال ہوں گے۔

اُنھوں نے کہا کہ جس طرح سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے سنہ 1997 میں انسداد دہشت گردی ایکٹ بنایا تھا اور اس کا مقصد شدت پسندوں کے خلاف قانون کو سخت کرنا تھا لیکن آج بہت سی جماعتوں کے سربراہ اور کارکن اسی ایکٹ کا شکار بن چکے ہیں۔

حامد میر
،تصویر کا کیپشنحامد میر: مشترکہ اجلاس میں ہونے والی قانون سازی ویسے ہی مینیجڈ کی گئی جیسے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں سینیٹرز کو مینیج کیا گیا تھا

حامد میر کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کے قانون پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے بنائی گئی کمیٹی میں اگر نیب کے چیئرمین کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے تو یہ کسی طور بھی حزب مخالف کی جماعتوں کو پسند نہیں آنا تھا۔

اُنھوں نے کہا کہ عالمی دباؤ پر یہ قانون سازی تو ضرور کی گئی ہے تاہم اس مقصد کے لیے تمام ریاستی وسائل استمعال کیے گئے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس قانون سازی میں حکومت کو صرف دس ووٹوں کی سبقت حاصل تھی۔

حامد میر کا کہنا تھا کہ اس قانون سازی میں کچھ ارکان پارلیمنٹ اسی طرح ’مینیجڈ‘ ہوئے جس طرح سیینٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران سینیٹرز ’مینیجڈ‘ کیے گئے تھے۔

اُنھوں نے کہا کہ حزب مخالف کی جماعتوں کی کمزوریاں ہی وزیر اعظم عمران خان کی طاقت ہیں اور جس دن حزب مخالف کی جماتیں سنجیدگی کے ساتھ اکٹھی ہو گئیں تو اس کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت کو مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔

حامد میر کا کہنا تھا کہ20 ستمبر کو حزب مخالف کی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد اگر میاں شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمن اکھٹے چار پانچ عوامی اجتماعات کرتے ہیں تو اس کے بعد اس بات کے امکانات ہیں کہ حزب مخالف کی جماعتیں حکومت کو ٹف ٹائم دینے میں سنجیدہ ہیں۔