پاکستان

لاہور موٹروے ریپ کیس: پاکستان میں ریپ جیسے جرائم کے لیے کس قسم کی قانون سازی کی ضرورت ہے؟

Share

لاہور موٹروے ریپ کیس کے بعد اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات اور قانون سازی کے حوالے سے بحث عروج پر ہے۔ جہاں کئی لوگ اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو سرعام سزائے موت کا مطالبہ کر رہے ہیں وہیں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسے افراد کو جنسی صلاحیت سے محروم کر دینا چاہیے۔

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان خود بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ ملک میں ریپ اور بچوں سے جنسی زیادتی کے مجرموں کو جنسی صلاحیت سے محروم کرنے کے حامی ہیں اور اس سلسلے میں تازہ قانون سازی کی ضرورت ہے۔

ادھر دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے ہی رہنما فواد چودھری نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسئلے کا حل سرعام پھانسی نہیں بلکہ موجودہ قوانین کے، جن میں ریپ کہ سزا موت ہے، تحت فوری انصاف کی فراہمی ہے۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں فواد چودھری نے یہ بھی کہا کہ ہر سال پاکستان میں اوسطاً 5 ہزار ریپ کیسز رجسٹر ہوتے ہیں جن میں صرف 5 فیصد کیسز میں مجرم کو سزا ملتی ہے اور وہ بھی کئی برس کوششوں کے بعد جبکہ ہزاروں خواتین کیس رجسٹر ہی نہیں کرواتیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ وقت کی ضرورت ہے کہ نظام عدل یعنی کریمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات ہوں اور ان کے مطابق اس میں چار چیزیں شامل ہیں: پولیس، میڈیکل، عدالت اور جیل۔

اسی حوالے سے جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں تحریک انصاف کی رکن اسمبلی شاندانہ گلزار نے ریپ کے مجرموں کو سر عام پھانسی دینے کے مطالبے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آئین پاکستان اس قسم کی سزاؤں کی اجازت نہیں دیتا ہے۔

عدالت

ریپ کے کیسز کے لیے کیا مزید قانون سازی درکار ہے؟

وکیل اور سماجی کارکن حنا جیلانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر ریپ کے حوالے سے بات کی جائے تو سب سے پہلے ملک میں مختلف شعبوں سمیت قانون شہادت میں بہتری اور اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ریپ کیس میں کیا شواہد درکار ہونے چاہییں، ان شواہد کو محفوظ بنانے، اس جرم کی جانچ کے طریقہ کار کو عملی طور پر بہتر بنانے سمیت قانون شہادت میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے کسی نئی قانون سازی کی ضرورت نہیں بلکہ صرف نظام عدل میں سنجیدگی کے ساتھ اصلاحات اور بہتری لائی جائے۔

حنا جیلانی کا کہنا تھا کہ ریپ کے بعد متاثرہ خواتین کے طبی معائنے کے لیے ملک میں اس وقت جو ’ٹو فنگر‘ میڈیکل ٹیسٹ کیا جاتا ہے وہ ان کے لیے ’نہ صرف باعث تذلیل ہے بلکہ بے مقصد ہے‘۔ ’

ان کا کہنا تھا کہ یہ جانچنے کے لیے کہ کسی خاتون کے ساتھ ریپ ہوا یا نہیں اس طریقہ کار کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور اس کی جگہ فرانزک جانچ اور تفصیلی طبی معائنہ اور مشورے کے بعد شواہد کو تیار کیا جانا چاہیے کیونکہ موجودہ طبی معائنے کا طریقہ کار کچھ ثابت نہیں کرتا کہ کسی خاتون کے ساتھ ریپ ہوا یا نہیں۔

خاتون

حنا جیلانی کے مطابق دوسرا اہم اقدام نظام عدل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ ’ہمارے ملک میں نہ صرف ریپ کے مقدمات میں بلکہ کسی بھی جرم کے مقدمے میں پولیس تفتیش کی کوئی اہمیت اور وقت نہیں ہے، پولیس تفتیش میں موجود سقم دور کیا جائے، استغاثہ کی خامیوں کو ختم کیا جائے تاکہ عدالتوں میں جب کوئی مقدمہ جائے تو اس شکل میں ہو کہ اس پر مکمل اور جامع کارروائی کی جا سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی بھی مقدمے کی تفتیش اور استغاثہ کمزور ہوگا تو ایسے میں عدالت کیا کرے گی، ’وہ تو اسی پر فیصلہ دی گی جو مقدمہ اور شواہد اس کے سامنے رکھے جائیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا تیسرا اہم کام پولیس اور عدلیہ جیسے اہم اداروں میں موجود افراد کی جامع تربیت سازی کرنے کا ہے تاکہ ’ان میں ریپ جیسے جرم کی حساسیت پیدا کی جا سکے۔‘

حنا جیلانی کا کہنا تھا کہ ایک عوامی عزم پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ جنس کی بنیاد پر ہونے والے جرائم پر ہم حساسیت ظاہر کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایک عورت ریپ کا مقدمہ درج کروانے کیوں نہیں جاتی اس کی وجہ جہاں معاشرے میں بدنامی ہے وہیں وہ رویہ اور ماحول ہے جس کا اسے دوران استغاثہ عدالت میں سامنا کرنا پڑتا ہے‘۔

وہ کہتی ہیں کہ عدالت کا ماحول قائم رکھنا جج کا کام ہے لیکن اگر وہ ہی اس معاملے کی حساسیت کو نہیں سمجھے گا تو ’دوران سماعت فریقین کی جانب سے متاثرہ خاتون کو تذلیل کا نشانہ بنایا جاتا ہے‘۔

قانون فوجداری کے ماہر وکیل اعظم نذیر تارڑ کا اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’ہمارے نظام عدل 150 سال پرانے قانون پر چل رہا ہے، یہ انتہائی بوسیدہ اور کمزور نظام عدل ہے اور اس میں متعدد خامیاں اور سقم ہیں۔‘

اعظم تارڑ کا کہنا تھا کہ’ ہم نے وقت کے مطابق اس نظام عدل میں سائنسی حوالے سے تبدیلیاں نہیں کیں جیسی باقی دنیا کر رہی ہے مثلاً اگر موٹروے ریپ کیس کے ملزم کو پکڑنے کے لیے ایجنسیوں اور پولیس نے جیو فینسنگ سمیت متعدد اقدامات اٹھائے ہیں لیکن جو ہمارا نظام عدل یا قانون شہادت ہے اس میں ہر کیس میں ایسے اقدامات کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے قانون شہادت میں پولیس تفتیش قابل قبول نہیں ہے، اس لیے ہمیں ضرورت ہے کہ ضابطہ فوجداری اور قانون شہادت میں تبدیلیاں اور اصلاحات لائیں تاکہ ریپ یا قتل کا مجرم ہو یا چوری و راہزنی کا مجرم، وہ سزا سے نہ بچ سکے۔

وہ کہتے ہیں کہ ہمیں نظام عدل کی از سرنو تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق اگر پولیس کو علم ہو کہ ایک ضابطہ کار کے تحت انھوں نے کسی بھی جائے وقوعہ کو محفوظ نہ بنایا تو نوکری جانے کے ساتھ ساتھ ان پر مقدمات بنیں گے اور سزا ہو گی تو ’پولیس تفتیش سے لے کر استغاثہ تک سب بہتر ہو جائے گا‘۔

وہ کہتے ہیں کہ سائنسی بنیادوں پر تربیت اور اصلاحات نئے نظام عدل کے اہم جز بنانے ہوں گے۔

کیا سخت سزائیں اس سنگین مسئلے کا حل ہیں؟

زیادتی

حنا جیلانی کا کہنا تھا کہ کسی بھی جرم کی سزا کا خوف تب پیدا ہوتا ہے جب آپ مجرم کو وہ سزائیں دینے کے قابل ہوں، لیکن جب ہمارے ملک جیسا کمزور نظام عدل کسی بھی مجرم کو سزا نہیں دے پاتا تو اس کا کی روک تھام ممکن نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان نے بھی ملک میں ریپ اور بچوں سے جنسی زیادتی کے مجرموں کو جنسی صلاحیت سے محروم کرنے کی بات کی لیکن یہ عمل دنیا میں جہاں بھی رائج ہے وہاں یہ متنازعہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سزا یا عمل کو امریکہ میں بھی صرف ان افراد کو انتہائی سنگین نوعیت کی سزا کے طور پر کیا جاتا ہے جو بچوں کے ساتھ زیادتی کے مجرم ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا ’میری نظر میں یہ وہاں سزا نہیں بلکہ عمر قید سے رہائی کے بدلے مجرم کی رضا سے کیا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے ملک کا آئین کسی ایسی سزا کی اجازت نہیں دیتا جو اذیت ناک ہو یا بہت تکلیف دہ ہو۔ لہذا ملک میں اس سزا کو نافذ کرنا بہت مشکل ہوگا۔

’کیمکل یا دوائی کے ذریعے مجرم کی جنسی صلاحیت ختم کرنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے اور اس مجرم کو ہر دو ماہ بعد پولیس اور میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہو کر دوائی لینا ہوتی ہے۔ یہاں پولیس کس کو مہینوں اپنی نگرانی میں رکھ پائے گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جس طرح آجکل عوام ریپ کے مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کی بات کر رہے ہیں یہ بھی قانونی طور پر ممکن نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سزا سخت یا اذیت ناک ہونے سے بہتر ہے کہ یقینی سزا ہونے کے خوف کو قائم کیا جائے۔

انھوں نے سابق صدر جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں لاہور میں ’پپو‘ نامی بچے سے جنسی زیادتی کرنے والے مجرم کو سرعام پھانسی دینے کی واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ کتنوں کو آج پپو یا اس کے مجرم کی سرعام پھانسی یاد ہے۔

’سزائیں اذیت ناک نہیں بلکہ یقینی بنائی جائیں تو ریپ کی روک تھام ہو سکتی ہے۔‘

وکیل اعظم نذیر تارڑ بھی حنا جیلانی کی موقف سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’بطور قانون کے طالب علم کے میں یہ سمجھتا ہوں کہ سزاؤں کا سنگین یا اذیت ناک ہونا جرم کو نہیں روکتا بلکہ جرم کرنے کی صورت میں سزا کا یقینی ہونا جرم میں کمی لاتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’جب کسی کو یہ یقین ہو کہ اگر کسی جرم میں پکڑا گیا تو سزا یقینی ہو گی تو جرم نہیں ہو گا لیکن اگر کسی کو یہ علم ہو کہ اگر جرم میں پکڑا گیا تو نظام میں خرابیاں ہی اتنی زیادہ ہیں کہ میں چھوٹ جاؤں گا تو جرم نہیں رکتا۔‘

ریپ کی مجرموں کو کیا سزائیں ملنی چاہییں؟

چائلڈ

قانون فوجداری کے ماہر اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ ملک میں موجود قانون کے مطابق ریپ کو سنگین ترین جرم گردانا گیا ہے۔

’پاکستان میں قانون فوجداری کے تحت زنا باالجبر کی دو ہی سزائیں ہیں سزائے موت اور عمر قید، دنیا میں اس سے بڑی کوئی سزائیں نہیں ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں یہ دونوں سزائیں قانون کا حصہ ہیں، ’بس ان پر ٹھوس تفتیش اور جامع استغاثہ کے ذریعے عمل کروانا ہے‘۔

حنا جیلانی کا کہنا ہے کہ ’ریپ جیسے جرم کے لیے کڑی سے کڑی سزا ہونی چاہیے مثلاً اس سنگین جرم کا ارتکاب کرنے والے کو تاحیات قید کی سزا ہونی چاہیے اور اس کی کسی بھی صورت میں کوئی پیرول یا رہائی نہیں ہونی چاہیے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’انفرادی طور پر میں سزائے موت کے حق میں نہیں ہوں، ریپ کے مجرم کو تاحیات قید کی سزا ہونی چاہیے اور یہ یقینی بنایا جائے کہ اس کی رہائی یا ضمانت نہ ہو سکے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’قتل کے لیے ملک میں دہائیوں سے سزائے موت ہے لیکن ملک میں قتل ہونا بند نہیں ہوئے، ہمارے کمزور نظام عدل میں سزائے موت کے حق میں نہیں ہوں کیونکہ مثالیں موجود ہیں کہ چند بے گناہوں کو موت کی سزا دے دی گئی۔‘