منتخب تحریریں

ست رنگی جھیل اور پاکستان میں سیاحت

Share

وادیٔ نلتر میں پانچ جھیلیں ہیں، ان میں سے تین جھیلوں کو تو جیپ کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے لیکن بقیہ دو جھیلوں کا نظارہ کرنے کے لیے ہائیکنگ کرنا پڑتی ہے، اتنی بلندی پر جہاں آکسیجن کی مقدار پہلے ہی کم ہوتی ہے‘ پُرمشقت ہائیکنگ کرنا کم از کم میرے جیسے شخص کے لیے تو ممکن نہ تھا؛ لہٰذا شروع میں ہی فیصلہ کر لیا کہ صرف وہی تین جھیلیں دیکھی جائیں گی جو جیپ کے ذریعے ہماری پہنچ میں ہیں۔ فیصلہ ہوا کہ سب سے پہلے ”بلیو لیک‘‘ یعنی نیلی جھیل چلتے ہیں۔
گلیشئرز سے آنے والے پانی کی کم مقدار کے باعث نیلی جھیل میں گو کہ پانی کم ہو چکا تھا‘ اس کے باوجود اس جھیل کی خوبصورتی میں کمی نہیں آئی تھی۔ نیلا اور لاجوردی رنگ اپنے پورے جوبن پر تھا۔ بچوں کو لاجوردی رنگ کا بتایا تو وہ پوچھنے لگے کہ یہ لاجوردی رنگ کون سا ہوتا ہے؟ انعم کہنے لگی: شاید Turquoiseکلر کو لاجوردی کہتے ہیں۔ میں نے کہا: Turquoise فیروزی رنگ ہوتا ہے‘ لاجوردی رنگ مور کی گردن والا نیلا رنگ ہوتا ہے جس میں سبز رنگ کی آمیزش ہوتی ہے۔ رنگوں پر مجھے مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ”آبِ گم‘‘ میں دی گئی رنگوں کے ناموں والی فہرست یاد آ گئی جو کبھی ہم استعمال کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ ہم اردو میں بے شمار رنگوں کے تو نام ہی بھول گئے ہیں۔
درمیان میں پری جھیل آئی مگر نیلی جھیل کے بعد اس پر دل نہ ٹکا تو رکے بغیر ست رنگی جھیل کی طرف رواں ہوگئے۔ کچے راستے سے ہٹ کر جیپ نے ایک طرف موڑ مڑا تو سامنے ایک ایسا نظارہ تھا جس نے سفر کی ساری کلفت اڑن چھو کر دی۔ ست رنگی جھیل واقعتاً ست رنگی تھی بلکہ شاید اس سے بھی بڑھ کر۔ نیلا، پیلا، کیسری، سبز، نارنجی، لاجوردی اور سنہرا روپہلا۔ اوپر سے سورج کی کرنوں نے جھیل کی سطح پر نقرئی جھلمل کی بہار لگا رکھی تھی۔ یہ تو وہ رنگ ہیں جو میں بیان کر سکتا ہوں‘ اس کے علاوہ وہ رنگ تھے جن کا شاید نہ تو کوئی نام ہے اور نہ ہی ان کو الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ خزاں کے باعث اردگرد کے سبز سے زرد اور پیلے رنگوں میں تبدیل ہوتے ہوئے درختوں کے منعکس ہونے والے رنگوں نے ایک ایسا منظر تخلیق کر رکھا تھا کہ دیکھنے کے لائق تو تھا‘ بیان کے قابل نہیں۔ ایک پُرمشقت اور مشکل راستے کے بعد اگر رنگوں کی یہ بہار اپنا جلوہ نہ دکھاتی تو لگتا یہ سفر محض وقت کا ضیاع ہے مگر ایسا تھا کہ دل کے کینوس پر تادیر اس کی تصویر نقش رہے گی۔
میں تو خیر اس قسم کے سفر کا عادی تھا لیکن مجھے خوف تھا کہ اگر بچوں کو اس ہڈیاں ہلا دینے والے سفر کے بعد ان کی منشا کے مطابق منظر نہ ملا تو وہ آئندہ کے لیے اس قسم کے ایڈونچر میں میرا ساتھ دینے سے صاف انکاری ہو جائیں گے لیکن ادھر یہ حال تھا کہ ان کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ جھیل کو کس زاویے سے اپنے کیمرے میں قید کریں۔ اوپر بادل کے ٹکڑوں سے سجا ہوا نیلا آسمان، نیچے نیلے لاجوردی رنگ کی جھیل اور اس میں چاروں طرف لگے ہوئے اونچے درختوں کے منعکس ہوتے ہوئے رنگ۔ درختوں کے بھی کئی رنگ تھے اور خزاں نے سبز رنگ کے درختوں کو سات رنگوں میں بدل کر رکھ دیا تھا۔
موجودہ حکومت کے سیاحت کے فروغ کے سلسلے میں بڑے بلند بانگ دعوے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں سیاحت کے بے پناہ امکانات ہیں لیکن جتنے امکانات ہیں تقریباً اتنے ہی مسائل ہیں جو سیاحت کی بیل کو منڈھے نہیں چڑھنے دیتے۔ ہمارے چند روشن خیال دوستوں کا خیال ہے کہ یہاں سیاحت کے فروغ نہ پانے میں کچھ لوازمات پر پابندی کا بڑا عمل دخل ہے؛ تاہم یہ صرف ایک وجہ ہو سکتی ہے لیکن اس کا ہمارے ہاں سیاحت کی بربادی میں بہت ہی معمولی حصہ ہے، اصل وجوہات اس کے علاوہ ہیں اور ان کا حصہ بھی بہت زیادہ ہے۔ باقاعدہ اور بااعتبار ٹور آپریٹرز کی کمی، اچھے ماحول اور رہائشی سہولتوں سے آراستہ مناسب پیسوں میں دستیاب ہوٹلوں کا نہ ہونا۔ یوتھ ہاسٹل جیسی رہائشی سہولت کی عدم دستیابی۔ سیزن کے دوران ہوٹلوں کی چور بازاری اور ان پر کسی کا چیک اینڈ بیلنس نہ ہونا۔ ہوٹل انڈسٹری سے وابستہ افراد کا غیر پیشہ ورانہ رویہ اور سلوک۔ دنیا میں پاکستان کے سافٹ امیج کی تشہیر کی کمی۔ سیاحتی مقامات پر بین الاقوامی معیار کی دستاویزی فلموں کی انٹرنیٹ وغیرہ پر عدم دستیابی۔ حکومتی اداروں کی جانب سے فروغ سیاحت کے لیے کسی سنجیدہ کوشش کا نہ ہونا اور سیاحتی فروغ کے لیے قائم کیے گئے اداروں میں نان پروفیشنل، سفارشی اور نا اہل لوگوں کی موجودگی۔ سیاحتی فروغ کے لیے قائم سرکاری اداروں کے سربراہوں کے لیے افسر شاہی سے بابوئوں کا انتخاب اور سب سے بڑھ کر دنیا بھر میں ہمارے ہاں امن و امان کے بارے میں منفی سوچ اور دہشت گردی کے وقتاً فوقتاً ہونے والے واقعات۔ اس سلسلے میں سب سے ہولناک واقعہ بائیس جون 2013ء کو پیش آیا جب گلگت سکائوٹس کی وردی میں ملبوس سولہ دہشت گردوں نے نانگا پربت کے بیس کیمپ میں موجود غیر ملکی کوہ پیمائوں پر حملہ کر دیا تھا۔ اس حملے میں دس غیر ملکی کوہ پیما اور ان کا ایک مقامی گائیڈ ہلاک ہو گئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں یوکرائن، چین، سلواکیا، لتھوانیہ اور نیپال کے کوہ پیما شامل تھے۔ یہ ایک ایسا دلخراش اور دیرپا اثرات کا حامل واقعہ تھا کہ اس کے اثرات ابھی تک زائل نہیں ہو سکے۔
دنیا بھر میں آٹھ ہزار میٹر سے بلند کل چودہ عدد چوٹیاں ہیں‘ ان میں سے پانچ پاکستان میں ہیں۔ دنیا کی دوسرے نمبر کی بلند ترین چوٹی K-2 بھی پاکستان میں ہے اور نویں نمبر پر بلند ترین چوٹی نانگا پربت بھی پاکستان میں ہے۔ نانگا پربت اپنی بلندی میں نویں درجے پر ہونے کے باوجود دنیا بھر کے کوہ پیمائوں میں اپنی مشکل چڑھائی کے باعث بہت ہی مقبول ہے اور کوہ پیما اس چوٹی کو سر کرنے کو کے ٹو یا ایورسٹ سے بھی زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اپنی مشکل چڑھائی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کے باعث یہ پہاڑ ”کِلر مائونٹین‘‘ یعنی قاتل پہاڑ کہلاتا ہے۔ دنیا بھر کے کوہ پیما اس پہاڑ کو سر کرنا اپنے لیے فخر اور غرور کی بات سمجھتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ پاکستان میں سالانہ درجنوں سے زائد کوہ پیما ٹیمیں آتی تھیں لیکن مذکورہ واقعے کے بعد تو گویا سب کچھ ہل کر رہ گیا۔ ایک زمانہ تھا کہ گلگت کے بازاروں میں ان کوہ پیمائوں کا واپسی پر چھوڑا گیا کوہ پیمائی کا سامان سستے داموں مل جاتا تھا۔
ہمارے ہاں یوتھ ہاسٹل وغیرہ کا تصور زیادہ مقبول نہیں ہو پایا جبکہ دنیا بھر میں یہ بہت مقبول ہے۔ اسی طرح دنیا بھر میں ہوسٹل کا تصور بھی بہت پاپولر ہے۔ چار چھ سیاح ایک ہی کمرے میں رہتے ہیں، جہاں نہانے دھونے کی سہولت میسر ہوتی ہے اور صفائی کا انتظام بھی بہت ہی اچھا ہوتا ہے۔ ادھر حال یہ تھا کہ پورے نلتر میں ایک مناسب ہوٹل تھا۔ جہاں آپ کو صاف ستھرا ماحول میسر تھا۔ ایسے علاقوں میں یوتھ ہاسٹل ہوں اور انہیں مکمل پیشہ ورانہ انداز میں چلایا جائے تو سیاحت کے امکانات بہت بڑھ سکتے ہیں۔ ست رنگی جھیل سے واپسی پر ہم بشکری میں لیپرڈ ری ہیبلی ٹیشن سنٹر رک گئے۔ یہاں ایک عدد مادہ برفانی چیتا Lovely ہے۔ پاکستان میں کل دو عدد برفانی چیتے ہیں جو اس طرح قید میں ہیں۔ ان کی کہانی اگلے کالم میں!