دنیابھرسے

پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال بدستور ’باعث تشویش‘ ہے، امریکا

Share

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے موجودہ حکومت کے دور میں پاکستان میں انسانی حقوق کے پہلے جائزے میں ملک کی صورت حال کو بدستور باعث تشویش ناک قرار دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی سالانہ رپورٹ میں سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت سے بے دخلی کے بعد احتجاجاً کیے گئے آزادی مارچ سمیت 2022 میں پیش آنے والے کئی واقعات کا ذکر کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے ان دعووں کا ذکر بھی کیا گیا کہ اسلام آباد کی طرف ان کے مارچ کو وفاقی حکومت کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کرکے روکا گیا اور شرکا پر آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی اور گرفتار کیا گیا۔

پی ٹی آئی کے مارچ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ’رپورٹس کے مطابق دو مظاہرین جاں بحق ہوئے اور سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا‘۔

رپورٹ میں نشان دہی کی گئی ہے کہ 2022 میں ’دہشت گردی سے منسلک ہونے کے باعث کالعدم ہونے والی تنظیموں کے علاوہ سیاسی جماعتوں پر انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کے حوالے سے کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی‘۔

امریکی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس دوران ججوں نے میڈیا ریگیولیٹری کے اداروں کو فوج یا عدلیہ پر تنقیدی مواد پر آئینی پابندیاں عائد کرنے کا حکم دیا، میڈیا کو سیاسی تقاریر سینسر کرنے پر مجبور کردیا گیا اور انتخاب سے متعلق میڈیا کوریج عدلیہ مخالف یا فوج مخالف سمجھا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پریس فریڈم کے اداروں نے رپورٹ کیا کہ سیاست دانوں کے خلاف اور اپوزیشن رہنماؤں کی مثبت رپورٹنگ کے لیے عدالت کی سماعتوں پر فوج کے ممکنہ دباؤ کے حوالے سے مواد روکنے کے لیے میڈیا پر براہ راست دباؤ ڈالا گیا۔

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے سالانہ رپورٹ میں تسلیم کیا ہے کہ 2022 میں منعقدہ انتخابات کے دوران ’اکثر علاقوں میں سیاسی جماعتوں یا امیدوار کو مہم چلانے، انتخاب لڑنے یا ووٹ کے حصول کے حق پر مداخلت نہیں کی گئی‘۔

انتخابی عمل کے حوالے سے مزید بتایا گیا کہ بلوچستان سے رپورٹس آئیں کہ سیکیورٹی اداروں اور علیحدگی پسند گروپوں نے مقامی سیاسی جماعتوں کو ہراساں کیا، جن میں بلوچستان نیشنل پارٹی اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن جیسی جماعتیں شامل ہیں۔

امریکی رپورٹ کے مطابق 2022 کے دوران حکومت یا ان کے ایجنٹس کی طرف سے ماورائے قانون قتل، حکومت یا ان کی ایجنٹس کی جانب سے جبری گم شدگیوں، تشدد، مظالم، وحشیانہ انداز اور حکومت یا اس کے ایجنٹس کی جانب سے توہین آمیز سلوک یا سزاؤں کی مصدقہ اطلاعات ملیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان بھر کے جیلوں میں حالات بدستور مشکل اور جان کے لیے خطرات کا باعث رہیں جہاں سیاسی اور دیگر افراد کو بلاوجہ قید کیا گیا۔

آزادی اظہار رائے کے حوالے سے کہا گیا کہ پاکستان میں آزادی اظہار رائے اور میڈیا پر بھی سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں، جس میں صحافیوں کے خلاف جرائم، مبہم گرفتاریاں، صحافیوں کو لاپتا کرنا، سینسر شپ اور توہین کے قوانین بھی شامل ہیں۔

رپورٹ میں توہین مذہب، انٹرنیٹ کی آزادی پر قدغنیں اور آزادانہ پرامن اجتماع میں مداخلت کے حوالے سے بھی بتایا گیا ہے۔

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں حکومتی سطح پر کرپشن، صنفی بنیاد جرائم کے لیے تفتیش اور احتساب کی عدم موجودگی، کشیدگی کے حوالے سے جرائم یا نسلی یا فرقے کی بنیاد پر شہریوں کو نشانہ بنانے کی رپورٹس ہیں اور ہم جنس پرستوں اور ٹرانس جینڈرز کو بھی نشانہ بنایا گیا۔