کالم

کورونا وائرس کی دہشت, میڈیا اور نفسیاتی اثرات

Share
“اقبال زرقاش”

 میرے ایک قریبی دوست نے گزشتہ دنوں کورونا وائرس سے خوف اور دہشت کا ایک عجیب واقعہ سنایا کہ وہ کسی مجبوری کے تحت نیشنل ہائی وے پر سفر کر رہے تھے کہ نماز کا وقت ہو گیا اور انہوں نے لب سڑک ایک مسجد کے پاس اپنی گاڑی روکی اور نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں داخل ہوئے۔مسجد کا بغور جائزہ لیا تو وہاں فرش سے قالین وغیرہ ہٹائی ہوئی تھیں اور ماربل کے فرش پر چند افراد نماز کی ادائیگی میں مصروف تھے اور ایک دوسرے سے کافی فاصلہ رکھ کر نماز پڑھ رہے تھے۔ وہ بھی وضو کرنے کے بعد نماز کی ادائیگی کے لیے کھڑے ہو گئے اور جب سجدے میں گئے تو اچانک ان کے ذہن میں خیال آگیا کہ جہاں وہ سجدہ دے رہے ہیں کہیں یہاں پر کورونا وائرس کے متاثرہ مریض نے بھی سجدہ نہ دیا ہو اور کورونا وائرس ان کے ناک اور منہ کے رستے داخل نہ ہو جائے۔انہوں نے بتایا کہ اس خیال کا آنا تھا کہ وہ نماز پڑھ کر جب اپنی گاڑی میں بیٹھے تو انھیں ہلکی ہلکی کھانسی شروع ہو گئی اور سفر کے دوران سارے راستے میں کورونا وائرس کا نفسیاتی خوف اور دہشت انھیں اپنے حصار میں لیے رہا ۔وہ اپنے گھر پہنچے تو تب جا کر ان کی کھانسی کا سلسلہ تھما۔ دوسرے روز انہوں نے گھر میں کسی کو بتائے بغیر ایک پرایﺅیٹ ہسپتال میں کورونا وائرس کا خفیہ طور پر ٹیسٹ کروایا جو منفی نکلا اور اس کے بعد ان کی حالت بہتر ہوئی۔
 ہمارا میڈیا جس طرح غیر ذمہ داری سے کورونا وائرس کا نفسیاتی خوف صبح شام خبریں اور دیگر ٹاک شو میں پھیلا رہا ہے اس کے اثرات ہر شخص پر کسی نہ کسی شکل میں ظاہر ہو رہے ہیں ،گو کہ اس میں میڈیا کی بدنیتی شامل حال نہیں لیکن ایسے پروگرامز کے منفی اثرات کو بھی دیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔کچھ ٹی وی چینلز نے اس سلسلے میں مثبت پیش رفت کی ہے کہ وہ ماہرین نفسیات کی خدمات حاصل کر رہے ہیں اور ان کو اپنے پروگراموں میں مدعو کرکے عوام میں شعور بیدار کر رہے ہیں کہ ہم نے کورونا وائرس سے ڈرنا نہیں بلکہ اس کے خلاف لڑنا ہے تاھم ایسے پروگراموں کی تعداد بہت کم ہے اس سلسلے میں بہتر ہے کہ ماہرین نفسیات کی گائیڈ لائن کو مدنظر رکھ کر کورونا وائرس کے حوالے سے مثبت پروگرام نشر کیے جائیں جس سے خوف و ہراس کی فضاءپیدا نہ ہو۔
 ایم جے ملک نے پرانے وقتوں کا ایک دلچسپ قصہ لکھا ہے کہ سانپ اور مینڈک کی آپس میں دوستی ہوگئی۔ سانپ نے مینڈک کو بتایا کہ جب میں انسان کو ڈستا ہوں اور اسے پتا چل جاتا ہے کہ میں نے ڈنگ مارا ہے تو وہ بیچارا خوف کے مارے پانی بھی نہیں مانگتا اور مر جاتا ہے ….مینڈک نے جواب دیا کہ زہر تو میرے پاس بھی بہت سخت ہے اور مارنے والا ہے لیکن افسوس کہ تمھاری خوفناک آنکھیں، بار بار زبان نکالنا اور تمھاری پانچ چھ فٹ کی لمبائی اور تمھارے عجیب و غریب ناموں چترا، دھاری دھار ،سنگ چور، کالا ناگ اور کوبرا جیسے القابات میری ٹر …ٹر …اور ٹراں ….ٹراں کوئی سنتا ہی نہیں ورنہ …..میں بھی ٹھیک ٹھاک ڈنگ مار کرانسانوں کو مار سکتا ہوں ….سانپ نے کہا کہ تمھارا انسانوں پر رعب اور دبدبہ ڈالنے کا ایک ہی طریقہ میرے پاس ہے ….مینڈک نے کہا وہ کیسے ؟سانپ نے کہا تم بندوں کو ڈسنا اور میں لوگوں کے سامنے آجایا کروں گا اور جب میں ڈسوں گا تو تم سامنے آنا ایک ایگریمنٹ کے تحت دونوں نے ڈسنا شروع کیا تو جہاں جہاں سانپ سامنے آیا تھا وہ لوگ خوف سے مر گئے اور جہاں جہاں مینڈک سامنے آیا تھا وہ لوگ بچ گئے اور اس طرح سانپ اور مینڈک کا شوق پورا ہوگیا ۔
 کہا جاتاہے کہ ماضی میں امریکہ میں ایک سزا یافتہ قیدی پر عجیب قسم کا تجربہ کیا گیا اسے بتایا گیا کہ نہ تو تمھیں پھانسی دی جائے گی اور نہ ہی زہر کا انجکشن لگایا جایا گا بلکہ سانپ سے ڈسوایا جائے گا آگے تمھاری قسمت …! پھر سانپ کو اس کے سامنے لایا گیا جس سے اس کو یقین ہو گیا کہ سانپ نے ہی مجھے ڈسنا ہے پھر اس کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی اور پھر اسے دو پنیں چبوئی گئیں تھوڑی دیر بعد اس کی موت واقع ہو گئی لیکن جب اس کے خون کے ٹیسٹ لیے گئے تو ناقابل یقین حد تک اس کے خون میں زہر کا اثر موجود تھا حالانکہ سانپ نے اسے چھوا تک نہیں تھا اور اس شخص کی موت ہوگئی اس سے معلوم ہوا کہ خوف ایک ایسی شے ہے جو جسم اور روح پر اپنے اثرت مرتب کردیتی ہے
نفسیاتی ماہرین کے مطابق آج دنیا بھر میں کورونا وائرس کے خوف سے جتنی اموات ہورہی ہیں اس میں زیادہ تر اس بیماری کے خوف کے اثرات شامل ہیں ۔
 ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں مچھر ایک دن میں 2740 انسانوں کو سانپ 137 انسانوں کو جبکہ خود حضرت انسان 1300 کے قریب انسانوں کی جان لے لیتا ہے مگر یہ کسی گنتی میں نہیں آتے۔واشنگٹن یونیورسٹی کے ادارے کے مطابق پوری دنیا میں گزشتہ سال کے آخری دو ماہ میں دیگر امراض سے جو اموات ہوئیں ہیں ان کا جائزہ لیں تو ایچ آئی وی سے 240950 زکام بخار 69602 شراب نوشی الکوھل 358471 ملیریا 140584 سیگریٹ نوشی 716498 روڈ ایکسڈنٹ 193479 خود کشی 153696 اموات کے باوجود خوف سے نہ کسی نے شراب ،سیگریٹ نوشی، ترک کی نہ سفر کرنا چھوڑا اور نہ ایڈز کی اموات کے خوف سے اپنے رویے بدلے وغیرہ وغیرہ ۔صرف کورونا کو ہی ایشو بنا کر ہر طرف خوف و ہراس پھیلایا جاریا ہے ….؟اس بات سے تو کوئی انکاری نہیں کے حفاظتی اقدامات نہایت ضروری ہیں آپ لاک ڈاون کریں دیگر حفاظتی تدابیر اپنائیںمگر خدارہ خوف و ہراس پھیلا کر مینڈک اور سانپ کی کہانی نہ دھرائیں ۔میرے خیال میں ہمارے میڈیا کے ارباب اختیار کو بھی مل بیٹھ کر ایسے صحت مندانہ پروگرام ترتیب دینے چاھیے جس سے خوف و ہراس کی بجائے عوام میں کورونا وائرس کے خلاف لڑنے کا حوصلہ پیدا ہو ،خاص طور پر اس وقت قوم جس نفیسیاتی خوف کا شکار ہے اس کو دور کرنے کے لیے ماہرین نفسیات سے مدد لی جائے ھمارا میڈیا سلسلے میں اہم رول ادا کر سکتا ہے ۔