نسل پرستی کا شکار برطانوی پولیس افسر شبنم چودھری
سال 2020کے شروع ہوتے ہی دنیا بھر میں ایک ایسی پریشانی کا دور شروع ہو اہے جس کو سوچ کر
سال 2020کے شروع ہوتے ہی دنیا بھر میں ایک ایسی پریشانی کا دور شروع ہو اہے جس کو سوچ کر
یہ بات1975کی ہے جب میں نو سال کا تھا۔ دسمبر کا مہینہ تھا اور ہلکی ہلکی سردی تھی۔ کلکتہ بھی
اعترافِ جرم ہو یا اعترافِ گناہ، ان دونوں باتوں میں ایک بات مشترک ہے اور وہ ہے سچائی کا سامنا۔
پتہ نہیں آپ کو کیسامحسوس ہوتا ہے لیکن سچ پوچھیے تو مجھے جب کوئی یہ خبر دیتا کہ آج ایک
نسل پرستی ایک ایسا زہر ہے جو ہمارے سماج میں اب بھی پھیلا ہوا ہے اورہزاروں لوگوں کی جان لے
ان دنوں ہر کوئی ایک بات اخلاقی طور پر یا شکایت کے طور پر ضرور کہتا ہے کہ آپ ’آن
ماہِ رمضان بھی گزر گیا اور عید بھی بحالتِ مجبوری لوگوں نے منائی۔ لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا
جانِ بہار! سامنے آؤ کہ عید ہےدیدار اپنا مجھکو کراؤ کہ عید ہے ان دورییوں نے حال عجب کر دیا
یہ کیسی عید ہے جس میں نہ خوشی ہے نہ گلے ملنا ہے۔ کمبخت کرونا نے ہم سب کی عید
انسان پیدائش سے لے کر مرتے دم تک کسی نہ کسی سے امید لگائے زندگی بسر کرتاہے۔خواہ وہ سائنسی ہو،