گو شہ خاصمنتخب تحریریں

” آخری نشانی اور ایک گم شدہ عدالتی پٹیشن”

Share

صدر محمد رفیق تارڑ کو ’’جمہوریت کی آخری نشانی‘‘ خود جنرل پرویز مشرف نے قرار دیا تھا۔ ابتدائے عشق کی ایک دو بےتکلف محفلوں میں جنرل صاحب نے صدر تارڑ سے کہا ’’سر صحافیوں کے شوشوں پر نہ جایا کریں۔ آپ ’جمہوریت کی آخری نشانی‘ ہیں۔

آپ کی وجہ سے ہمیں سفارتی محاذ پر بڑی مدد ملتی ہے۔ آپ کو ہم کہیں نہیں جانے دینگے‘‘۔ ایک دن اپنے دو رفقاء کی موجودگی میں جب جنرل مشرف نے تیسری بار صدر تارڑ کو ’’جمہوریت کی آخری نشانی‘‘ قرار دیا تو اُنکی رگِ ظرافت پھڑکی۔ بولے جنرل صاحب! بادشاہ فوت ہو گیا تو اسکا جواں سال شہزادہ تاج و تخت کا مالک ٹھہرا۔ ایک دن بادشاہ نے حکم دیا کہ مجھے جیل خانہ دکھائو۔ ایک پرانا وزیر، جیل کا داروغہ اور متعلقہ عملہ ساتھ ہو لیا۔

جیل کی کھولی کا دروازہ کھلتا، قیدی کا جرم اور سزا کا عرصہ بتایا جاتا۔ بادشاہ حکم دیتا ’’اسے رہا کر دو‘‘۔ یہاں تک کہ جیل خانہ خالی ہو گیا۔ آخری کھولی میں ایک بوڑھا قیدی زنجیروں میں جکڑا، نیم جاں پڑا تھا۔ بادشاہ نے اُسکے بارے میں پوچھا۔ سب ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ آخر بزرگ وزیر بولا۔ ’’جہاں پناہ اسکے جرم کا پتا ہے نہ سزا کا۔

ایک دن آپ کے والد گرامی نے حکم دیا کہ اسے جیل میں ڈال دو تو ڈال دیا‘‘۔ نوجوان بادشاہ نے کہا ’’اسکی زنجیریں کھول دو اور رہا کر دو‘‘ ایسا ہی ہوا۔ قیدی نے سلام کیا۔ وہ گرتا پڑتا آٹھ دس قدم ہی چلا ہوگا کہ بادشاہ نے مڑ کر قیدی کی طرف دیکھا اور بولا ’’اسے پکڑو اور کوٹھڑی میں ڈال دو‘‘ سب قیدی کی طرف لپکے پکڑ جکڑ کر کوٹھڑی کو لے چلے۔ بادشاہ نے آسمان کی طرف نگاہیں اٹھائیں۔ عقیدت و محبت سے سرشار لہجے میں بولا ’’یہ ہمارے والد گرامی خُلد آشیانی کی آخری نشانی ہے‘‘۔

جنرل مشرف اور رفقاء نے قہقہہ لگایا۔ صدر تارڑ بولے ’’آج تو میں آنجہانی ’جمہوریت کی آخری نشانی‘ ہوں کل خدا جانے کیا ہو؟‘‘۔ ’’خدا جانے والے کل‘‘ کو اب کئی سال ہو گئے۔ اب تو خلقِ خدا بھی جان چکی ہے کہ کیا ہوا، کیسے ہوا!

’’سقوطِ مشرف‘‘ (18اگست 2008) کے لگ بھگ ایک سال بعد، 31جولائی 2009ء کو جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے چودہ رُکنی بنچ نے ایک تاریخ ساز فیصلہ دیا۔ میں اس طویل فیصلے کے صرف ایک پیرا گراف نمبر 41کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس کا براہِ راست تعلق 20جون 2001ءسے ہے۔ عدالت نے کہا ’’جون 2001ء میں اُس (پرویز مشرف) نے صدارتی جانشینی کا فرمان جاری کیا جس کے تحت پاکستان کے صدر محمد رفیق تارڑ کو آئینی ضابطوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انتہائی بدسلیقگی کے ساتھ اپنے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور اس نے خود یہ عہدہ سنبھال لیا۔ یہ ایک باغیانہ اقدام تھا۔ جب صدر تارڑ کو اپنی میعاد عہدہ کی تکمیل سے پہلے ہی منصب چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا تو انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا۔

لہٰذا آئینی اور قانونی طور پر صدر کا عہدہ 20جون 2001ء کو خالی ہی نہیں ہوا تھا کہ کوئی اور شخص یہ عہدہ سنبھالتا‘‘۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی بنیاد آئین کا آرٹیکل 44ہے جو کہتا ہے کہ ’’پانچ سالہ معیادِ عہدہ سے قطع نظر، صدر اُس وقت تک اپنے منصب پر فائز رہیگا جب تک اسکا جانشین یہ منصب نہیں سنبھالتا‘‘۔

آئینی ماہرین نے اسکی تشریح یہ کی کہ صدر رفیق تارڑ، آصف علی زرداری کے حلف اٹھانے (9ستمبر 2008) تک دستوری صدر تھے۔ وسیع مشاورت کے بعد تارڑ صاحب نے معروف قانون دان عابد حسن منٹو کے ذریعے لاہور ہائیکورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی کہ مشرف کا نام آئینی صدور کی فہرست سے خارج کرکے اسکی تمام مراعات ختم کر دی جائیں۔ تب آصف زرداری صدر تھے۔

مشرف اور انکے ضامنوں سے عہدو پیماں کے باعث وفاقی حکومت لاتعلق رہی۔ رفیق تارڑ نامی مدعی اور جنرل مشرف نامی مدعا علیہ ہونے کے سبب ترازو کا پلڑا شروع سے ہی غیرمتوازن تھا سو عدلیہ کی فعالیت بھی اونگھتی رہی۔ کچھ تاریخیں پڑیں اور پھر طویل وقفے۔

اب تو ایک عشرہ ہو چلا ہے۔ نہ معلوم وہ کم نصیب پٹیشن لاہور ہائیکورٹ کے کس تہہ خانے کی کون سی دیمک زدہ الماری میں گل سڑ رہی ہے۔ ایک بار تارڑ صاحب سے پوچھا تو بولے۔ ’’کچھ نہیں بنا۔ بس اتنا یاد ہے کہ حلال کی کمائی کے چھ سات لاکھ روپے اس کی نذر ہو گئے تھے‘‘۔

یہ اس سلسلے کا آخری کالم ہے لیکن داستان نہ پہلی قسط سے شروع ہوئی تھی نہ آج کی آخری قسط پر ختم ہو رہی ہے۔ یہ جمہوریت کی صرف ایک ’’نشانی‘‘ کی کہانی تھی۔ جمہوریت کی ایسی کتنی ہی نشانیاں تقاضائے ضرورت کے تحت، آمریت کی کارنس پر سجتی اور پھر ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ کی بھٹی کا ایندھن ہوتی رہی ہیں۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے جیسے ’’جمہوریت‘‘ بھی آخری نشانی کی طرح کارنس پہ دھری مورتی ہے۔ خدا خیر کرے۔

یہ سطور لکھ چکا تھا کہ رفیق تارڑ صاحب کا فون آ گیا۔ کئی ماہ سے صاحبِ فراش ہیں۔ عمر نوے سال سے تجاوز کر چکی ہے۔ بجھتی ہوئی یادداشت میں اب بھی دیے سے روشن ہیں۔ دعا دی اور فارسی کا ایک شعر پڑھا ؎

تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را

گاہے گاہے باز خواں ایں قصۂ پارینہ را

(سینے کے داغ تازہ رکھنا چاہتے ہو تو کبھی کبھی یہ پرانی داستان دہراتے رہا کرو)

میں نے کہا ’’سر اسے وبا کے دنوں کا کارِ زیاں ہی جانیں۔ ورنہ نت نئے داغ ہائے سینہ فرصت ہی کہاں دیتے ہیں کہ پرانے داغوں کا قصۂ پارینہ چھیڑا جائے‘‘۔