کالم

ابنِ عربیؒ اورارطغرل

Share

ابن عربیؒ کی قبر پرفاتحہ خوانی کے بعدمیں کافی دیر کھڑاسوچتا رہاکہ اس صوفی درویش نے اپنی مختصرزندگی میں آٹھ سو سے زائد کتابیں کیسے لکھ ڈالیں؟جب اندلس میں ابن عربی ؒنے جنم لیاتووہاں پرعرب مسلمانوں کی حکومت اپنی طاقت اوراستحکام کے عروج پر تھی۔خداکے اس ولی نے جوکہ فلسفی،شاعر،محقق اور عالم دین بھی تھا،اپنی زندگی کسی کتب خانے میں نہیں گزاری بلکہ سفر کو وسیلہ ظفرسمجھا۔حجازسے لے کر مراکش،حلب اورایران عراق سے لے کرترکی،مصراور یروشلم تک سفردرسفرتلاش حق،ریاضت اور تبلیغ میں وقت گزارا۔اس دور میں ذرائع ابلاغ بہت محدودہوتے تھے اور سفردشوارگزار تھے،ان کٹھن مسافتوں میں بھی ان کا پڑھنے لکھنے کا سلسلہ جاری رہا۔آج ابنِ عربیؒ سے منسوب ہمارے پاس ساڑھے آٹھ سوکتابیں ہیں جن میں سے سات سو کتب تو مصدقہ ہیں۔ایسا بھی نہیں ہے کہ کتابوں کے نام پرچندصفحات پرمشتمل کتابچے یاپھررسالے تحریرکیے ہوں۔تصوف کے موضوع پران کی تحریرکردہ ایک کتاب ”الفتوح المکیہ“کی سینتیس (37)جلدیں ہیں،جن کے مجموعی صفحات کی تعدادپندرہ ہزار ہے۔ابن عربیؒجنہیں اہلِ تصوف ”شیخ الاکبر“کے نام سے پہچانتے ہیں۔ایک عہد سازشاعربھی تھے،ان کے پانچ شعری مجموعے اب تک محفوظ ہیں جنہیں ”دیوان“ کے عنوان سے شائع کیا گیا ہے۔
دمشق کے ایک مصروف بازار سے ملحقہ تنگ سی گلی مڑتے ہیں توتھوڑی چڑھائی کے بعد ایک روحانی سلسلے سے منسوب ایک مسجد ہے۔مسجدکے ایک حجرے میں داخل ہوں تودس پندرہ فٹ گہراکمرہ نظرآتاہے۔اس کمرے کے درمیان میں سبزرنگ کی چادروں میں لپٹی ابنِ عربیؒ کی قبرکاتعویزنظرآتاہے۔سنگ مرمرکا ایک کتبہ صاحب مزارکا تعارف کروانے کے لئے موجودہے مگراس حجرے کی معطرفضااورانوارکی بارش ہی یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ کسی بزرگ ہستی کی اقامت گاہ ہے۔جیسے جیسے سیڑھیاں اترتے ہیں اور مزارکے قریب پہنچتے ہیں۔رحمتوں کی رم جھم دل پر گرتی محسوس ہوتی ہے۔دروازے پر کھڑے درویش اپنی اپنی باری پرصوفیانہ کلام پیش کرتے ہیں۔ابنِ عربیؒ کے متعلق کہاجاتاہے کہ وہ صوفی سنیّ تھے۔مگردلچسپ بات یہ ہے کہ وہ سنی اور شیعہ مسلک کے پیروکاروں میں یکساں مقبولیت رکھتے ہیں۔اس امر کا اندازہ ”قاسیون کی پہاڑی“کہلانے والی جگہ پر واقع ابن عربیؒ کی تربت پر دیس دیس سے آنے والے زائرین کے حلیے سے باآسانی ہوجاتاہے۔اثناء عشری شیعہ حضرات کے نزدیک بارہ اماموں کے اوپرلکھی گئی ابنِ عربیؒ کی کتاب اس موضوع پرمعتبرترین تحریروں میں شامل ہے۔کتاب کا ذکرآیا ہے توبتاتاچلوں کہ ”مشکوۃ الانوار“کے نام سے (101)ایک سو ایک احادیث قدسی کو جمع کر کے شائع کرنا ابن عربیؒ کاایک منفرداعزازہے۔مشاہدالاسرارکے نام سے چودہ مکالمے خدائے بزرگ وبرترکے حضوراس ولی اللہ نے تحریرکئے ہیں اور”حلیات الابدال“روحانیت کے راستے پرچلنے والوں کے لئے وہی حیثیت رکھتی ہے جو کسی بھی مسافرکے لئے زادِراہ کی ہوتی ہے۔
ابنِ رشد سے ہونے والی ملاقاتوں نے ابنِ عربیؒ کی شخصیت پر بہت گہرے اور دوررس اثرات مرتب کئے۔ان ملاقاتوں کا احوال تاریخ کا اہم حصہ ہے۔گرچہ یہ ملاقات کروانے میں ابن عربی کے والد کا عمل دخل زیادہ تھا۔جوکہ خود بھی عالم اور حکومتی عہدیدارتھے۔ابن رشدمسلم ہسپانیہ میں قاضی کے منصب پر فائزتھے۔یہاں یہ تذکرہ بے جا نہ ہوگاکہ ابن رشدان چند مسلمان علماء،فلسفیوں اور ماہرین عمرانیات میں سے ہیں۔جن سے عالم مغرب بے حد متاثرہے۔سابق صدر جارج بش کے نزدیک ابن رشدان کا پسندیدہ مصنف اورماہرعمرانیات ہے،سابق امریکی صدرنے لکھا ہے کہ وہ ابن رشد کی تحریروں سے بے حد متاثرہے۔ابن عربیؒ کے بقول ابن رشد سے پہلی ملاقات میں ہی اس نے سیکھ لیا ہے کہ روایتی تعلیم اور اشیاء کی حقیقت کے درمیان کیا فرق ہے۔ابن عربیؒ نے اپنے لئے تصوف کا راستہ چن لیا تاکہ اشیاء کی حقیقت کو پاسکے۔
ترکی کے کچھ ٹی وی ڈرامے گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستانی ناظرین میں بے حدمقبول ہوئے ہیں۔”میراسلطان“ترک ڈراموں کی وطن عزیزمیں مقبولیت کا نقطہ آغاز تھا۔کامیابی کی کئی منزلیں طے کرتے ہوئے آج ہم ایک نئے عہد میں داخل ہوچکے ہیں۔یہ پاکستان میں ”ارطغرل غازی“نامی ترک ٹی وی ڈرامے کی مقبولیت کا عہد ہے۔گرچہ میرے خیال ترکی سے منگوا کراردومیں ڈھالے گئے ارطغرل کی کامیابی کی بڑی وجہ کرونا وائرس کے سبب لاک ڈاؤن اور بے پناہ عوامی فراغت بھی ہے۔اس کے باوجود یہ مانناپڑے گاکہ مذکورہ ڈرامے کا معیارانتہائی اعلیٰ ہے۔ان دنوں جب تمام اہل خانہ کے مل بیٹھنے کابہانہ بنا ہوا ہے تو فیملی میں بیٹھ کردیکھے جانے کے قابل ٹی وی ڈرامے اور فلمیں محدودسی ہیں۔امریکی ہالی ووڈکئی اعتبار سے تمام دنیاکی شوبز انڈسٹری میں بہت آگے ہے۔فلم اور ڈرامہ کے شعبہ میں اس کا معیاربالخصوص بہت اچھا ہے۔خرابی مگریہ ہے کہ مغرب کے رہنے والوں کااخلاقی معیارہم اہل مشرق سے ذرا مختلف ہے۔کب،کہاں کوئی عریاں یانیم عریاں سین آجائے،کوئی پتہ نہیں چلتا۔اس لئے اہلِ خانہ کے ہمراہ توکیااس کے بعض انٹرٹینمنٹ پروگرام اکیلے بیٹھ کربھی نہیں دیکھے جا سکتے ہیں۔رہی بات ہندوستانی بالی ووڈکی،طرفہ تماشا یہ ہے کہ وہ باقی تمام شعبہ جات میں ہالی ووڈسے چاہے جتنے بھی پیچھے اوربچھڑے ہوئے ہوں مگرفحاشی اورعریانی میں برابر کی چوٹ دیتے ہیں۔بعض اوقات تو بھارتی تفریحی پروگرام ہالی ووڈکو بہت پیچھے چھوڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ایسے کثیف ثقافتی ماحول میں ”ارطغرل“ایک تازہ ہوا کا جھونکاثابت ہورہا ہے۔
بعض قارئین یہاں جزبزہوں گے کہ ابن عربیؒ سے یکدم بات شوبزانڈسٹری کی طرف کیسے آن پہنچی؟کہاں تصوف میں ڈوبے سالک وصوفی اورکہاں فلم،ٹی وی سکرین کی چکاچوندکے مارے لوگ؟بات کچھ ایسی بے جوڑ اوران مل بھی نہیں ہے۔مختصرسا قصہ یہ ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے بانی فاتح کی زندگی اور جدوجہد پر مبنی ڈرامہ”ارطغرل“جوان دنوں مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کررہا ہے،اس ڈرامے میں ابن عربیؒ کا بہت اہم کرداردکھایا گیا ہے۔ترک قوم سے اوغوزنسل کے لوگوں کے قائی قبیلے میں جنم لینے والے ہیروارطغرل کی زندگی کے ہراہم موڑ پرابن عربیؒ کی رہنمائی اور مددشامل رہی ہے۔متذکرہ ڈرامہ میں ابن عربیؒ کو سب شیخ کہہ کر پکارتے ہیں۔جس کا سبب ابن عربیؒ کا لقب ”شیخ الاکبر“ہے۔جن ناقدین کے نزدیک ارطغرل اور ابن عربیؒ کا تعلق فرضی یا افسانوی ہے۔ان کی خدمت میں عرض کردوں کہ دونوں کا تاریخی اعتبار سے ایک ہی عہد ہے۔ابن عربیؒ سن 1165میں پیدا ہوکر75برس کی عمر میں سن 1240میں خالق حقیقی سے جا ملے اورشام کے شہر دمشق میں مدفون ہیں۔ارطغرل کی تاریخ وفات 1280ہے اور اس کی قائم کردہ سلطنت تقریباًآٹھ صدیاں قائم رہی۔اس طویل حکمرانی کی نوید ابن عربیؒ نے اپنی زندگی میں ہی ارطغرل کو سنا دی تھی۔مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ معیاری تفریح کے ساتھ ساتھ پاکستان کے عوام کو اسلامی تاریخ سے شناسائی ہورہی ہے،علاوہ ازیں اسی بہانے ایک ولی کامل ابن عربیؒ سے نوجوان نسل متعارف ہورہی ہے۔اس خوبصورت ترک ڈرامے کواردومیں ڈھالنے اورپیش کرنے پرپی ٹی وی مبارکبادکا مستحق ہے۔