کالم

احساس… اور احساسِ ذمہ داری!

Share

صاحبِ “نہج البلاغہ” حضرت علی کرم اللہ وجہہ لکریم کا ایک قولِ بلاغت نظر نواز ہوا، مفہوم جس کا یوں ہے کہ کسی شخص کی قدر و قیمت کا اندازہ اُس کے اندر اِحساسِ ذمہ داری سے لگایا جاتا ہے۔ اِس قولِ حکمت پر غور جہانِ معانی کے پرت کھولتا چلا جاتا ہے۔

یہ کائنات اور اس کائنات کے اندر انسان کی زندگی… معاشی ، معاشرتی اور طبعی زندگی… کا دار و مدار اُس کے ذمے فرائض کی خوش اسلوبی سے ادائیگی پر موقوف ہے۔ سچ ہے‘ جو ذرّہ جس جگہ ہے‘ آفتاب ہے۔ ایک ذرۂ بے مایہ بھی اگر اپنے فرائض کماحقہ ادا کر رہا ہے تو وہ گراں مایہ ہے …اُس ذرّے کو مثل ِ آفتاب روشن کر دیا جاتا ہے، اُس کا ذکر‘ خیر کی وادیوں میں روشن کر دیا جاتاہے۔

سرحدوں پر پہرہ دینے والا ایک عامی سپاہی اگر اپنے فرائض سے روگردانی کا مرتکب ہو تو نامی گرامی سپہ سالار کی صلاحیتیں اَکارت چلی جاتی ہیں۔ زندگی کی اِس پُرپیچ مشین میں ہرکَل اپنی اپنی جگہ فرائض کی بروقت ٹک ٹک کرتی رہے تو یہ دیو ہیکل مشین کار آمد ہوتی ہے‘ وگرنہ اپنے ہی بوجھ تلے زمیں بوس ہو جاتی ہے۔ ایسے معلوم ہوتا ہے‘ جیسے ہر ذرّہ اپنے اپنے دائرہ ٔکار میں ایک مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ جو مرکز سے روٹھ گیا ‘یا ٹوٹ گیا‘ اُس کی کار کردگی صفر ہو گئی۔ شعوری یا لاشعوری طور پر ہم سب اپنے اپنے مرکز سے جڑے ہوتے ہیں‘ بس اُجڑتے اُس وقت ہیں ‘جب شعوری طور پر خلع لیتے ہیں۔ اِنسانی شعور کی بیداری اپنے مرکز سے وابستگی میں مضمر ہے، اور اُس کے شعور کی ترقی اِس مرکز سے منسلک اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل سے وابستہ ہے۔

حیات اپنی اصل میں حیاتِ معنوی ہے۔ زندگی کا مادّی اور طبعی رُخ اخروٹ کے چھلکے کی طرح ہے، لیکن مغزِ حیات اِس کے اندر ہے … اسے باطن کہہ لیں ، ہر باطن کا پھر ایک باطن ہے…اسے باطن البطون کہہ لیں… مغز کے اندر ایک تیل ہے… جو نہ شرقی ہے‘ نہ غربی… اَرض و سمٰوات کی سب روشنی اِسی سے ہے۔ معانی کی تلاش کے سفر میں انسان کا رُخ باہر سے اندر کی طرف ہے۔

جبلتوں کا سفر خود غرضی کا سفر ہے، اور خود غرض انسان تنہا رہ جاتا ہے۔ جبلتوں کے سفر میں انسان سفرِ معکوس پر چل نکلتا ہے، تزکیۂ نفس جبلتوں کی تفریح نہیں بلکہ ترفیع ہے۔ تزکیہ کی طرف اٹھنے والا ہر قدم انسان کو ظاہر سے باطن کی طرف لے کر جاتا ہے… یعنی قافلۂ حیات‘حیاتِ معنوی کی طرف محوِ سفر ہو جاتا ہے۔ روح اور معانی کو ثبات حاصل ہے، لفظ اور جسم کو شکستگی کاعارضہ لاحق ہے۔

فرائض کی تکمیل احساسِ ذمہ داری کے بغیر ممکن نہیں۔ کوئی خود غرض اپنے فرائض ذمہ داری سے ادا نہیں کر سکتا۔ خود غرض اپنے تعلق میں چور دروازے ڈھونڈتا ہے، جس جگہ پہرہ کمزور ہوتا ہے‘ بھاگ نکلتا ہے، یعنی جس جگہ خود کو طاقتور پائے گا ٗ اپنے فرائض اپنے طے کردہ ضابطوں کے مطابق سر انجام دے گا… اور یہ خود ساختہ ضابطے اکثر بے ضابطہ ہوتے ہیں۔ خود غرض بے حس ہوتا ہے، احساس والا عام طور پر ایثار والا ہوتا ہے۔ خود غرض فرض شناس نہیں ہوتا۔ جو فرض شناس نہ ہو سکا‘ وہ خود شناس کیسے ہو سکتا ہے۔

ہم اپنے معاشرے کی معاشی و معاشرتی مشین پر نظر دوڑائیں تو یہ جاننے میں کچھ دقت پیش نہیں آتی کہ کس کے ذمے کیا فرائض ہیں۔ یاد رکھنے کیلئے‘ ترتیب میں‘اپنے فرائض اور دوسروں کے حقوق پہلے یاد ہونے چاہییں۔ ہمیں بالعموم دوسروں کے فرائض یاد رہتے ہیں اور اپنے حقوق …ایسے میں گلہ شکوہ اور احتجاج شعار بنتا ہے۔ ایک مہذب طرزِ فکر رکھنے والے انسان کو حقوق چھیننے والی بات ایک چھینا چھپٹی لگتی ہے۔

گھر سے بات شروع کرتے ہیں… کہ گھر گھر کی بات ہے… مثلاً ایک بیوی اگر اپنے فرائض سے غافل ہو تو گھر ‘گھر کی شکل نہیں بن پاتا۔ بچوں کی تربیت… یعنی شکلِ انسان کو حضرتِ انسان بنانے میں ماں اور باپ دونوں کا کردار اہم ہے۔ درست ہے‘ بچے جانور کے بھی پل جاتے ہیں… لیکن وہ جانور ہی رہتے ہیں۔ حیوانی حیات کو حیاتِ انسانی بنانا اصل کام ہے۔ مانا ‘ممتا ایک فطری جذبہ ہے، لیکن تربیت کے حوالے سے اِس جذبے سے بڑھ کر بھی بہت کچھ کرنا ہوتا ہے۔ تربیت کا مطلب یہ ہے کہ کیا “کرنا چاہیے” اور کیا “نہیں کرنا چاہیے” کے سانچے گھر میں بنا کر دیے جائیں۔ تربیت کے اِن سانچوں کی تشکیل اور ترتیب ماں اور باپ مل کر کرتے ہیں۔ ٹوٹے ہوئے گھروں سے نکلنے والے بچے تمام عمر ٹوٹ پھوٹ کا شکاررہتے ہیں۔ میاں اور بیوی اپنی اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کریں تو ایک گھر ہی نہیں بلکہ ایک نسل برباد ہو جاتی ہے۔ ماں اور باپ کی حیثیت سے فرائض کی یہی ریاضت آنے والی نسلوں کو معاشرے کیلئے کارآمد بناتی ہے۔اس طرح میاں بیوی کا ایک دوسرے سے وفادار ہونا‘ مذہبی ہی نہیں ‘ ایک معاشرتی ذمہ داری بھی ہے۔

بحیثیت اُستاد ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے شاگردوں کو اپنے مطالعے کے بہترین حصے کا گواہ بنائیں۔ انہیں کتاب میں موجود لفظ سے نکال کر مصنف کے ذہن میں موجود خیال تک لے جائیں۔ ہماری ذمہ داریوں میں ہے کہ اپنے شاگردوں کو سوچنے کا طریقہ اور سلیقہ سکھائیں۔ انہیں اختلاف کے آداب کی تعلیم بھی دیں، اپنی رائے سے مختلف رائے کا احترام کرنا بھی سکھائیں۔ ایک فرض شناس اُستاد تعلیم سے بھی زیادہ تربیت کا پہلو پیشِ نظر رکھتا ہے۔ آدابِ زندگی سکھانا ایک استاد کے فرائضِ منصبی میں شامل ہے۔ اِحساسِ ذمہ داری سے سرشار استاد اپنے شاگردوں کے ساتھ رشتے کے تقدس کو کسی اور جذبے کے ساتھ آلودہ نہیں کرتا۔

اسی طرح بطور معالج ہماری ذمہ داری ہے کہ مریض کے دکھ کے ساتھ ساتھ اُس کے درد کا درماں بھی کریں۔ طب کو تجارت نہ بنائیں۔ خدمت کو تجارت بنانے والا مسیحا نہیں ہو سکتا ہے‘ وہ ایک دکاندار ہوتا ہے۔ دستِ شفا پانے کیلئے ہاتھ سے بہت کچھ گنوانا پڑتا ہے۔

الغرض‘ ہر شعبۂ حیات کا قیام اُس شعبے سے منسلک افراد کے اندر پائی جانے والی ذمہ داری اور احساسِ ذمہ داری کے ساتھ ہے۔ ایک مال بردار گاڑی کا ڈرائیور، کانٹا بدلنے والا ورکر، کنٹرول روم میں بیٹھا ٹریفک کنٹرولر اگر لمحہ بھر کیلئے بھی اپنی ذمہ داری سے غافل ہو جائے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ زندگی کے سفر میں کتنے لوگ اپنی منزلِ مقصود پر پہنچنے سے ہمیشہ کیلئے رہ جاتے ہیں۔ مال گاڑی کے ڈبوں کی طرح ہم سب کے فرائض کی زنجیر بھی ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔ جب ہم اپنا وقت ضائع کرتے ہیں تو اپنے ساتھ منسلک بہت سے لوگوں کا وقت ضائع بھی کررہے ہوتے ہیں۔

بحیثیت اِنسان‘ ہماری یہ بھی ایک ذمہ داری ہے کہ ہم اِس کائنات میں اپنے نام ،کام اور مقام کی پہچان کریں۔ اِس کائنات کو ایک حادثہ نہ سمجھیں‘ بلکہ ایک قافلہ سمجھیں… اس قافلے کے ایک فرد کی حیثیت سے ہم پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اگر ہم اس قافلۂ حیات سے کچھ وصول کر رہے ہیں تو اِسے پہلے سے بہتر حالت میں واپس کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ اِس کائنات میں اپنا کام اور مقام تلاش کرنے کیلئے ہمیں وہ آسمان بھی تلاش کرنا ہے‘ جس کا ہم اِک ٹوٹا ہوا تارا ہیں۔ جب تک کائنات کا مرکز تلاش نہیں کر پاتے‘ خود کو ہی اِس کائنات کا مرکز قرار دے دیں۔ اپنے گھر سے کہانی شروع کریں، شاید اُلجھے ہوئے دھاگے کی ڈور سلجھ جائے…شاید اِس ناتمام کائنات کا نقشہ مکمل ہوجائے…اس کائنات کا نقشہ نہ سہی ٗ اپنا نین نقشہ ہی سہی! عجب راز ہے ‘ اندر سے باہر آئیں تو یہ کائنات بامعنی لگتی ہے، باہر کا تعلق اندر سے منقطع کر دیا جائے ٗ تو یہ کائنات بے ترتیب ہو جاتی ہے…یہی cosmos جب chaos بنتی ہے، یعنی اپنی اصل سے اُلٹ حالت میں آتی ہے‘ تو شعور کی بجائے شور سنائی دینے لگتا ہے۔ اِس کائنات کا حسن‘ حسنِ ترتیب ہے۔ انسان اِس کائنات کا باطن ہے۔ کائنات میں ترتیب اِنسان ہی کے آئینے میں منعکس ہوتی ہے۔ انسان کی آنکھ ہی عین اس ترتیب میں فاصلوں میں ایسا توازن پیدا کرتی کہ حسن دکھائی دینے لگتا ہے۔ انسان عین کائنات نہ سہی‘ عینِ کائنات ضرورہے۔ کائنات کا حسن دیکھنے کیلئے ابھی تک انسانی آنکھ سے بہتر کوئی آئینہ میسر نہیں۔ دُور بین یا خورد بین لاکھ منظر کو چھوٹا بڑا کر لے‘ جہاں بین انسانی آنکھ ہی ہوتی ہے۔ انسانی آنکھ ہی وہ آئینہ ہے‘جس میں حسنِ کائنات منعکس ہو کر قلم بند ہو رہا ہے۔ اِس آئینے کو دیکھنے کیلئے بھی ایک آئینہ درکار ہے… ہر آنکھ صرف اپنی بساط بھر کائنات ہی دیکھ سکتی ہے۔ کوئی آنکھ تو ایسی ہوگی جو کامل ہوگی، جو اِس کائنات کو کما حقہ اور ’’کَمَاھِیَ‘‘ دیکھتی ہوگی۔ ایک آنکھ ایسی بھی ہے ‘ جو ’’ما زاع البصر وما طغٰی‘‘ کی شان سے متصف ہے۔ اَپنی اُمت کو ’’اللھم اَرِنا الاشیاء کَمَاھِیَ‘‘( اے اللہ! مجھے اَشیا کو دکھا‘جیسا کہ وہ حقیقت میں ہیں) کی دُعا تعلیم کرنے والی ذاتؐ اِس کائنات کو ’’کَمَاھِیَ ‘‘دیکھ چکی ہے…یہ واقعہ معراج ہی کا نہیں‘ بعد اَز معراج تنزیل کا بھی ہے!! اپنی اور اپنی کائنات کی معنویت پانے کیلئے ہمیں اُس ذاتؐ سے تعلق اور پھر اُسؐ کی تعلیم کیے گئے فرائض و نواہی سے تمسک درکار ہے۔ دینی پیرائے میں اَوامر و نواہی کی اس پاسداری کے احساس اور احساسِ ذمہ داری کو تقویٰ کہا جائے گا۔ ’’اِنّ اَکرمکم عند اللہ اَتقٰکُم‘‘ … قولِ علیؑ کی تشریح اِس آیتِ جلی میں موجود ہے۔