کالم

اظہارِ آزادی کا استحصال

Share

زندگی میں بے عزتی کون برداشت کر سکتا ہے۔ چاہے بے عزتی، والدین کی ہو، خاندان کی ہو،اساتذہ کی ہو،رشتہ دارکے ہوں، دوستوں کی ہو، قوم کی ہو، یا مذہب کی ہو۔ بے عزتی برداشت کرنا ایک ذی شعور اور با شعور انسان کے لیے ایک ایسا پیچیدہ مسئلہ بن جاتا ہے اور وہ اپنے اپنے طور پر اس مسئلے کا حل نکالتا ہے۔

کوئی طاقت کے بل پر جنگ لڑ کر تو کوئی توں توں میں میں کر کے، تو کوئی حد کو پار کر کے اپنی بے عزتی کا بدلہ ضرور لیتا ہے۔ انسان فطرتی طور پر بدلہ لینے کے لیے مجبور ضرور ہوتا ہے۔اگر اس کے پاس طاقت ہے تو وہ اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ اپنی طاقت کی بنا پر اس شخص یا گروپ پر حملہ کر کے اس بات کا پیغام دیتا ہے کہ ہم نے مجبوراً تم پر ہاتھ اٹھائی یاغصے میں حملہ کیا۔خواہ اس کا نتیجہ چاہے کچھ بھی ہو۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ ایسی غلطیاں کر کے بعد میں پچھتاتے بھی ہیں لیکن بہت سے لوگ ان غلطیوں کو غلطیاں نہیں مانتے اور اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ ایسی بے عزتی برداشت کے قابل نہیں تھی۔

میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، ایک بات میرے علم میں ہمیشہ رہی جس کو میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔جیسے امریکہ یا چند اس کے حمایتی ممالک اکثر جب کسی ملک سے ناراض ہوتے ہیں تو وہ ُ معاشی ناکہ بندی‘ کا اعلان کر دیتے ہیں۔ یعنی کہ اب اس ملک کو معاشی طور پر اتنا کمزور اور ناکارہ بنا دیا جائے کہ وہاں کے لوگ حکومت کے خلاف بغاوت کر دیں اور پھر امریکہ اور اس کے اتحادی وہاں اپنے پیر جما کر اس ملک کی ثقافت، وقار کو تباہ و برباد کر کے اس کا ہر لحاظ سے خاتمہ کر یں۔ یہاں بھی ’بے عزتی‘ لوگوں کو جھنجھوڑنے لگتی ہے اور دھیرے دھیرے لوگ اپنے ملک کے کٹھ پتلی حکمراں کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیتے ہیں۔ جسے آسانی سے انتہا پسند کا نام دے کر امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے ہمدردیاں بٹوری جاتی ہیں تا کہ ان کٹھ پتلی حکمراں کا کاروبار اور عیاشی چلتی رہے۔تاہم پچھلے کئی برسوں سے جن ممالک پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے معاشی ناکہ بندی کی ہے وہاں معاملہ الٹا نظر آرہا ہے۔ یعنی کہ ان ممالک کا کا م و کاج چل رہا ہے لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ دشواریاں کافی بڑھ بھی گئی ہیں۔

ظاہر سی بات ہے امریکہ دنیا کا معاشی چمپئن کہلاتا اور کہلواتا ہے اور اپنے ڈالر کو دنیا کے کاروبار میں آن و شان سے استعمال کرتا ہے۔جس سے دنیا کے بیشتر کاروبار ڈالر میں ہی ہوتے ہیں اور تلوار اٹھا کر ناچنے والے عرب حکمراں امریکہ کی اس ناپاک چال سے بے بہرہ ہو کر اپنی عیاشی اور آرائش کی خاطر امریکہ کے ہاتھوں کھلونا بنے اپنی بے عزتی سے غافل رہتے ہیں۔کچھ تو مجبوریاں ہوں گی، جس کی وجہ سے عرب حکمراں جس تلوار سے جنگ لڑی جاتی تھی اسے ہاتھوں میں اٹھا کر امریکی حکمراں اور ان کے اتحادیوں کے ساتھ ناچتے ہیں۔ ایسا دیکھ کرآپ کے ساتھ مجھے بھی بہت افسوس ہوتا ہے۔خیر انہیں نہ تو عزت کی پراوہ ہے نہ بے عزتی کی فکر ہے۔

یہ خبر تو آپ سب جان ہی چکے ہوں گے کہ فرانس کی راجدھانی پیرس میں ایک استاد کا سر کاٹ دیا گیا۔ اس کے بعد فرانس کے صدر ایمونیل میکرون نے یہ بیان دیا کہ اسلامی انتہا پسند نے ایک استاد کا سر کاٹ دیا ہے۔بس صاحب مغربی ممالک سمیت امریکہ اور ہندوستان کے اخبارات میں یہ خبر دیکھی جانے لگی کہ پیرس میں ’اسلامی انتہا پسند‘ نے دن دھاڑے ایک استاد کا سر کاٹ دیا ہے۔بات تو بہت غلط ہے، جی میں بھی کہتا ہوں۔ کیونکہ میں بطور مسلمان اور انسان اس طرح کی کسی بھی حرکت کو غیر مذہبی اور غیر انسانی قرار دیتے ہوئے سخت مذمت کرتا ہوں۔میں اس بات کو درست نہیں مانتا کہ اس طرح کسی بھی انسان کا گلا کاٹ دینا یا گولی مار دینا جائز ہے، چاہے اُس انسان کا قصور کچھ بھی ہو۔کیونکہ اس سے مسائل کا صحیح حل نہیں نکلتا ہے بلکہ اس کا اثر الٹا پڑتا ہے۔

تاہم اس خبر کے ساتھ اس واقعہ کو یوں بیان کیا گیا کہ اس سے ٹیچر کے تئیں لوگوں کی ہمدردی پیدا ہو۔ تو آئیے یہ بھی جانے کہ آخر اس شخص نے کیوں ایک ٹیچر کا سر کاٹ دیا۔ دراصل واقعہ یہ ہے کہ پیرس کے ایک اسکول میں جمعہ 16 اکتوبر کوتاریخ پڑھانے والے ٹیچر سموئیل پیٹی، جس کا سر کاٹاگیا ہے، اس نے’اظہارِ آزادی کی تعلیم‘ کے کلاس میں اپنے طلبا ء کو حضرت محمد ﷺ کامتنازع خاکہ دکھایا جسے 2015 میں پیرس کے ایک اخبار ’چارلی ہیبڈو‘ نے شائع کیا تھا۔ اور جس پر اخبار کی دفتر میں کام کرنے والے کئی لوگوں کااُس وقت قتل کر دیا گیا تھا۔فرانسیسی پولیس نے نام نہاد ا سلامی انتہا پسند کا نام ’عبدالاکھ اے‘بتایا ہے جو ماسکو کے قریب چیچن کا رہنے والاتھا اور کچھ سال قبل فرانس میں اس نے پناہ لی تھی۔جمعہ کی دوپہر عبدالاکھ اسکول پہنچا اور طلباء کے ذریعہ تاریخ کے استاد سموئیل پیٹی کا شناخت کیا۔چشم دید گواہوں کے مطابق مارنے والے نے ’اللہ اکبر‘ اور ’اللہ عظیم ہے‘ کا نعرہ لگایا۔ اس کے بعد عبدالاکھ نے مرنے والے ٹیچر کی تصویر کو اپنے ٹوئیٹر اکاونٹ پر پوسٹ بھی کیا۔پھر پولیس نے عبدالاکھ کو موقع واردات پر پہنچ کر گولی ماریا۔ جس سے اس کی وہیں موت ہوگئی۔

جب مسلم طلباء نے اس سے قبل کچھ ہفتے پہلے اپنے والدین سے سمویل پیٹی کے خلاف اس بات کی شکایت کی تھی۔ اس نے دورانِ درس حضرت محمد ﷺ کی متنازع خاکہ طلباء کو دکھائی جس پر مسلم طلباء کے والدین نے اس واقعہ کے خلاف سخت رنج و غم کا اظہار کیا تھا۔اس کے بعد والدین نے ٹیچر سموئیل پیٹی کے خلاف شکایت بھی درج کرائی تھی۔لیکن اس پر کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔

دراصل فرانس میں اظہارِ آزادی اور اسلامی تعلیمات اور قدر کے نام سے کئی برسوں سے بحث چھڑی ہوئی ہے۔جس کا نتیجہ یہ ہورہا ہے کہ فرانس کے ملحد یا لا مذہب لوگ اور اسلام کے ماننے والوں لوگوں کے بیچ تناؤ دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔مثلاً نقاب پہننے پر پابندی اور جرمانہ، آئے دن اسلام کے خلاف بیانات اور حضرت محمد ﷺ کا کارٹون شائع کرنا،ایسی باتیں ہیں جس سے مسلمانوں میں بے چینی اور غصہّ روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ فرانسیسی حکومت کا اسلام کے خلاف اوٹ پٹانگ کے بیانات نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔

فرانس میں قومی اقدارکی آزادی، اظہارِ آزادی،مساوات، کو نظامِ تعلیم کا بنیادی حصہ مانا جاتا ہے۔جو کہ ایک نہایت اہم اور قابلِ تحسین بات ہے۔لیکن کیا اس بات کو بھی ہم اظہارِ آزادی مان لے کہ حضرت محمد ﷺ کا کارٹون بنایا یا دکھایا جائے۔نہیں میں اسے ہر گز اظہارِ آزادی نہیں مانتا ہوں۔بلکہ میں اسے ایک اشتعال انگیزی سمجھتا ہوں۔ کیونکہ مذہبی بحث ایک الگ بات ہے لیکن کسی بھی مذہب کے پیغمبر یا پیشوا کے کارٹون بنا کر مذاق اڑانا، میں اسے ایک سوچی سمجھی سازش سمجھتا ہوں جو کہ اظہارِ آزادی کا استحصال ہے۔

دراصل آج یورپ کے جو حالات ہیں جن میں معاشی اور سماجی مسائل بڑھ رہے ہیں اور سیاست ڈگمگا رہی ہے۔ اس قسم کے اشتعال انگیزی سے لوگوں کا دھیان ان کے اپنے معاشی اورسماجی مسائل سے ہٹانا مقصود ہے۔ لیکن ساتھ ہی ایسی حرکتوں سے اُن طاقتوں کے ہاتھ مضبوط ہوتے ہیں، جو ہمارے جمہوری اقدار کو مٹانا چاہتے ہیں اور جو اصلی اظہارِ خیال کی آزادی کو پامال کرنا چاہتے ہیں۔

ترکی صدر طیب اردگان نے دنیا بھر کے مسلمان اورعرب ممالک کے عوام سے اپیل کی ہے وہ فرانسیسی صدر ایمونیل میکرون کی حضرت محمد ﷺ کی توہین آمیز کارٹون کی دفاع کرنے کی وجہ سے وہ فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ اس سلسلے میں پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے بھی شدید رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے فرانسیسی صدر کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔عمران خان نے فیس بُک کے سربراہ مارک زکربرگ کو اسالاموفوبیا کے مواد پر پابندی عائد کرنے کی اپیل کی ہے۔

اظہارِ آزادی کی حد کیا ہونی چاہیے یہ بات فرانس اور دیگر ممالک میں زیر بحث ہے اوراس بارے میں لوگوں کی رائے منقسم ہے۔ اگر مغربی ممالک کی بات کو دیکھی جائے توحالیہ واقعہ کے تناظر میں ان کے حساب سے اظہارِ آزادی کا مطلب کسی کے متعلق کارٹون یا بے عزتی کی جائے تو وہ اظہارِ آزادی کا حصّہ ہے۔ جسے میں ہر گز نہیں مانتا بلکہ میں ایسی بات اور واقعات کو ایک سوچی سمجھی سازش سمجھتا ہوں۔ جس کے ذریعہ ایک خاص مذہب کے لوگوں کو ورغلایا جاتا ہے، تا کہ لوگ غصّے میں خون خرابہ کریں اور پھر ایسے واقعات کو مذہب سے جوڑ کر اسلام کے خلاف پروپگنڈہ ہوتا رہے جو کہ ایک شرمناک اور ناقابلِ قبول بات ہے۔