کالم

ایرانی سابق وزیر خارجہ کا دورہئ پاکستان اور باہمی تعلقات

Share

صدر پاکستان آصف علی زرداری کے گذشتہ دنوں مجوزہ ایرانی دورے کے پروگرام کے التوا کے پس منظر میں سابق ایرانی وزیرخارجہ اور ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے بین الاقوامی امور میں مشیرڈاکٹر علی اکبر ولایتی کا دورہئ پاکستان بہت اہمیت کا حامل ہے۔ایرانی نیوز ایجنسی ”ارنا“ (IRNA) کے مطابق علی اکبر ولایتی کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سرکاری وفد تین روزہ دورے پر ۹۲ جنوری بدھ کو اسلام آباد پہنچا۔ ہوائی اڈے پر پاکستانی وزارت خارجہ کے سینیئر حکام اور پاکستان میں اسلامی جمہوریہئ ایران کے سفیرعلی رضا حقیقیان نے اُن کا استقبال کیا۔اس دورہ کے دوران میں اُن کی اسلام آباد میں صدر پاکستان آصف علی زرداری اور چئیرمین سینٹ نیّر حسین بخاری سے میٹنگز ہوئیں،جن میں باہمی مفادات کے مختلف امور پر تبادلہئ خیال کے ساتھ ایرن۔پاکستان گیس پائپ لائن کے معاہدے پر دستخط کئے گئے. اس معاہدے کے تحت ایران سے پاکستان کو گیس سپلائی دسمبر ۴۱۰۲ء میں شروع ہو جائے گی۔علی اکبر ولایتی نے اس بات کااظہار بھی کیا کہ ایرانی انجینیئرایران۔ پاکستان گیس پائپ لائن بچھانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں دونوں برادر ملکوں کو کسی دوسرے ملک کی ٹیکنیکل مدد کی ضرورت نہیں پڑے گی نیز پاکستان کے علاقے میں پائپ لائن کے اخراجات میں ایرانی سرمایہ بھی شامل ہوگا۔ڈاکٹر ولایتی نے اسلام آباد میں ”اسلامی بیداری“ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار میں مختلف اسلامی مسالک میں اتحاد و یک جہتی کی تاکید کرتے ہوئے موجودہ تناظر میں خاص طور پر شیعہ سنی اتحاد کی ضرورت کو اجاگر کیا.
ڈاکٹر ولایتی نے اپنے دورے کے دوسرے روز لاہور میں جماعت اسلامی کے ہیڈ کوارٹر منصورہ میں جا کے جماعت کے امیر سیّد منور حسن،دیگر رہنماؤں اور جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد کے بیٹے آصف لقمان قاضی کے ساتھ مرحوم قاضی صاحب کی وفات پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کرتے ہوئے، ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا تعزیتی پیغام پہنچایا۔اس پیغام میں مختلف اسلامی فرقوں میں اتحاد و یگانگت پیدا کرنے اور باہمی روداری کے فروغ کے عظیم کاز کے لئے قاضی حسین احمد کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا.انہوں حکومت پنجاب کے نمائندوں کے ساتھ پاکستان اور ایران میں برادرانہ تعلقات کی مزید توسیع اور ان کے مضبوط کرنے کو بہت اہم قرار دیا.
ایک مقامی ہوٹل کے کانفرنس ہال میں ”اسلامی بیداری میں قاضی حسین احمد کا کردار اور علما کی ذمہ داری“ کے موضوع پر کانفرنس میں قاضی حسین احمد کے ساتھ اپنے پچیس سالہ تعلق کا ذکر کرتے ہوئے، قاضی صاحب کے امت مسلمہ کے اتحاد کو حوالے سے اقدامات اور کوششوں کو سراہا. ڈاکٹر ولایتی کے مطابق قاضی صاحب امت کا درد رکھتے تھے اور اسلام کی سربلندی و مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا احیا ان کی زندگی کا مشن تھا اور انہوں نے اپنی زندگی کی آخری سانس تک اس عظیم مشن کی تکمیل کے لئے کوششیں کیں، ہم سب کو چاہئے کہ ان کے مشن کو آگے بڑھائیں. کانفرنس کے اختتام پر ایک پر ہجوم پریس کانفرنس میں اخبار نویسوں کو سوالات کے جوابات دیتے ہوئے انہوں نے موجودہ حالات میں خاص طور پرتوانائی، زراعت، صنعت اور ثقافت وغیرہ کے شعبوں میں ایران و پاکستان کے باہمی تعاون کو نہایت ضروری قرار دیا.
علی اکبر ولایتی کا یہ دورہ اس پہلو سے خاص اہمیت کا حامل ہے کہ اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کی ایرانی مقتدرہ خاص طور پر ایرانی سپریم لیڈر اور عوام صرف پاکستانی حکومتوں سے تعلقات کو اہمیت نہیں دیتے بلکہ پاکستانی عوام سے بھی ان کا گہرا رشتہ استوار ہے اور وہ اہل پاکستان کے دُکھ سکھ کے سانجھی ہیں.اس حوالے سے قابل ذکر بات ہے کہ ڈاکٹر ولایتی نے اپنی پریس کانفرنس میں ایک صحافی کے اس سوال پر، کہ ”پاکستان نے اپنی گوادر کی بندرگاہ چین کو دینے کا معاہدہ کیا ہے، آپ کی بندرگاہ چابہار اس کے ساتھ واقع ہے اور گوادر کی کامیابی سے چابہار پر اثرات کو حوالے سے آپ کا رد عمل کیا ہوگا“جواب دیا کہ پاکستان کے ہر اُس اقدام پر جس سے اس کی ترقی اورخوشحالی ہو، ایران کو خوشی ہوگی اور ہم اس بندرگاہ کی کامیابی کے آرزو مند اور اس کے لئے دعا گوہیں.
بین الاقوامی صورت حال، خطے،خاص طور پر ایران اور پاکستان کے حالات نے دونوں برادر اسلامی ملکو ں کو ساتھ چلنے کے لئے اتفاقی طور پر کئی مواقع فراہم کردیے ہیں.اگرایک طرف پاکستان میں شدّت پسندی، دہشت گردی کا مسئلہ ہے اور سیاسی اور معاشی صورت حال غیر یقینی کا شکار ہے تودوسری طرف ایران دنیا بھر کی پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے، چنانچہ عالمی سرمایہ کار اور ادارے وغیرہ نہ تو پاکستان کا رُخ کر رہے ہیں اور نہ ایران کو در خورِاعتنا سمجھ رہے ہیں، پھر اتفاقاً دونوں ملک ہمسائے بھی ہیں اس لئے اس بحران کو قدرتی نعمت سمجھتے ہوئے تمام شعبوں میں باہمی تعاون سے فائدہ اٹھایا جائے. ایران،پاکستان کی بجلی، گیس اور تیل وغیرہ کی ضروریات پوری کر سکتاہے، تو پاکستان، چاول، چینی، گندم،کنوں، شوگر انڈسٹری،گوشت وغیرہ کی ضروریات میں ایران کامعاون ثابت ہو سکتاہے. رہا مغربی ممالک کا دباؤ تو ماہرانہ سفارت کاری، بصیرت اور چین، روس جیسی بڑی علاقائی طاقتوں کے تعاون سے اس پر قابو پایا جا سکتاہے۔ بجلی،گیس اور گندم، چاول جیسی اجناس تو بنیادی ضروتوں میں ہیں ان کی باہمی نقل و حرکت اور تجارت پر کس طرح بین الاقوامی پابندیوں کا اطلاق ہوتا ہے۔ اگر یہی چیزیں کسی مغربی ملک کو پابندیوں کے شکار کسی ملک سے منگانے کی ضروت ہوتی تو نہ صرف بین الاقوامی”ہیومن رائٹس آرگنائزیشنز“ اور”این جی اوز“ فوراً حرکت میں آجاتیں بلکہ پاکستان کی این جی اوز اور یہاں کے ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ آسمان سر پر اٹھا لیتے، چنانچہ متعلقہ مغربی مُلک کے خلاف آواز اٹھانے والا مُلک معافی بھی مانگتا اور مغرب کی منشا بھی پوری کرنی پڑتی۔ اس لئے ہماری مقتدر لیڈر شپ کو جرأت سے کام لیتے ہوئے ملکی مفادات میں فیصلے کرنے چاہیئں اور وقت اور حالات کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے ایران سے گیس پائپ لائن معاہدے پر کسی دباؤ اور خوف کا شکار نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ پاکستان کی ترقی کے لئے یہ نا گزیر ہے۔ مغرب نے تو ہم سے راضی نہیں ہونا، اپنی راہ تو مزید کھوٹی نہ کریں۔