کالم

ایران۔امریکہ نیوکلیائی سمجھوتے میں پاکستان کے لئے فائدے

Share

پاکستان کی مغربی سرحد پر واقع برادر اِسلامی ملک ایران کا رقبہ سولہ لاکھ اڑتالیس ہزار ایک سو پچانوے مربع کلومیٹر،آبادی سات کروڑ بارہ لاکھ آٹھ ہزار اور صوبے اکتیس ہیں۔ رقبے کے لحاظ سے دنیا کے اٹھارویں ا ور آبادی کے اعتبار سے سترہویں نمبر پر آنے والا یہ ملک گیس کے ذخائر کے اعتبار سے دنیا میں 15.08 فیصد حصّے کے ساتھ، روس کے بعد، دوسرے جب کہ تیل کے ذخائر کے اعتبار سے 10فیصد حصّے کے ساتھ، وینزویلا، سعودی عرب اور کینیڈا کے بعد، چوتھے نمبرپرآتا ہے۔اِس کی خام ملکی پیداوار2014ء کے اعداد و شمار کے مطابق 1.284کھرب ڈالرجب کہ فی کس سالانہ آمدنی 5183ڈالر ہے۔
ایران کا ایٹمی پرگرام’ایٹم برائے امن‘ منصوبے کے تحت 1957ء میں امریکہ اور یورپی ممالک کی مدد سے شروع ہوا۔لیکن فروری 1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب پرامریکہ اور یورپی ملکوں نے یہ تعاون یک طرفہ طور پر ختم کر دیا گیا۔چنانچہ اُس نے روس کی مددسے جنوبی ایران کے شہر ’بو شہر‘ میں 12 ستمبر 2011ء کو ایٹمی ری ایکٹر مکمل کر لیا۔اِس کے علاوہ اراک، نطنز، فردو اور اصفہان میں اُس کے ایٹمی ری ایکٹر قائم ہیں۔ 22فروری1979 ء کے ایرانی اسلامی انقلاب کے بعد ایران کے مغربی ملکوں، خاص طور پر امریکہ، کے ساتھ تعلقات خراب ہوتے گئے، جس کے نتیجے میں ایران مغرب کی طرف سے پابندیوں کی زد میں آتا چلا گیا۔اِن پابندیوں کا آغازامریکہ کی طرف سے پیش کردہ 31 جولائی 2006ء کو پاس کی گئی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 1696سے ہوا۔ پھرمختلف حیلوں بہانوں، بالخصوص ایٹمی پروگرام پر ایرانی پیشرفت،کو جواز بناکر امریکہ اور اُس کے اتحادیوں نے اپنے بینکوں میں ایرانی اثاثے منجمد کر دیے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ پابندیاں زیادہ سخت ہوتی گئیں۔ ایران کی دیگر ملکوں سے تجارت، لین دین، امپورٹ ایکسپورٹ اور گیس اور تیل کی سپلائی پر قدغنیں لگتی گئیں، لیکن دلچسپ بات ہے کہ جب اور جن ملکوں کے ساتھ امریکہ چاہتا ایران کے ساتھ اُن کے لین دین میں پابندیاں از خود یا اقوامِ متحدہ کی قرار داودوں کے ذریعے نرم کر دیتا۔ 11 جون اور 7 دسمبر 2011ء کواُس وقت کی امریکن سیکریٹری آف سٹیٹ ہیلیری کلنٹن نے ایران پر پابندیاں مزید سخت کرتے ہوئے انڈیا،چین، ملائیشیا، جنوبی کوریا، جنوبی افریقا، سری لنکا، سنگا پور، ترکی اور تائیوان کو اِن سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔ چنانچہ مذکورہ ملکوں سے ایران کا لین دین اور کاروبار جاری رہا۔چنانچہ دیگر تجارتی سرگرمیوں کے علاوہ آج بھی انڈیا کو ایرانی تیل اور ترکی کو گیس کی سپلائی جاری ہے۔
9/11 واقعے پر 7 اکتوبر 2001ء میں افغانستان پر یلغار، 20 مارچ 2003ء کو عراق میں وسیع تباہی کے ہتھیاروں کی موجودگی کے بہانے اُس پر چڑھائی اور خطے میں چین کی ترقی اور اُس کی طرف سے ساری دنیا کو اپنی ترقی کے فوائد میں شریک کرنے کی دُھن کے پیش ِنظر امریکہ نے 5+1 کے نام سے معروف چین، روس، برطانیہ، فرانس، سلامتی کونسل کے مستقل ارکان اورجرمنی کو ساتھ ملا کے ایران سے اُس کے ایٹمی پروگرام کی بندش کے لئے انٹر نیشنل ایٹمی توانائی ایجنسی کے تحت مذاکرات شروع کئے۔اِن مذاکرات کی ابتدا 21 اکتوبر 2009ء کو امریکہ کی طرف سے روس اور فرانس کے ذریعے طبی مقاصد کے لئے ایران کو ایندھن کے لئے 1200 کلو گرام کم افزودہ شدہ یورینیم کی سپلائی سے ہوئی۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلا اور مذاکرات کے کئی دور ہوئے، کئی ڈیڈ لائینز دی گئیں اور اُن کے خاتمے پر نئی ڈیڈ لائن کے اعلان کے باوجود ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے، البتہ ڈیڈ لائینز محدود ہوتے ہوتے مہینوں سے، ہفتوں، ہفتوں سے دنوں اور اب کہ دنوں سے گھنٹوں تک آ پہنچی ہیں۔ 30 جون کے بعد 10 جولائی کی حتمی ڈیڈ لائن بھی آ کے گذر گئی، مگر تنازع وہیں کا وہیں ہے۔ ایران کا مؤقف ہے کہ اُس کی طرف سے امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کی شرائط قبول، عمل درآمد کی ضمانت بھی دی جا سکتی ہے، بس اُس پر عائد ساری پابندیاں بیک وقت ختم کر کے اُس کے مغربی ملکوں میں سو ارب ڈالر سے زیادہ کے منجمد اثاثے وا گذار کر دیے جائیں۔ امریکہ اور اُس کے اتحادی بضد ہیں کہ ایران ساری شرطیں مان لے، اُن پر عملدرآمد شروع کر دے، تب بتدریج پابندیاں اُٹھائی جاتی رہیں گی۔ یعنی جو ہمیں مطلوب ہے، وہ فوراً ہو جائے، ہم بے شک ترسا ترسا کے دیں گے، وہ بھی جس حد تک، جب جی چاہا۔
ایران۔پاکستان کی طویل سرحد ملتی ہے اور دونوں ملکوں کے تعلقات برادرانہ اور دوستانہ ہیں۔ دونوں میں سڑک، سمندر اور ریل کے ذرائع سے ٹرانسپورٹیشن کی سہولت موجود ہے۔ پھر پاکستان انرجی کے بحران سے دوچار ہے، جب کہ ایران گیس اور تیل کے ذخائر سے مالا مال ہے۔ ایران کو چاول، چینی، کپاس، گندم، آم، کینو، سلے سلائے کپڑوں اور چمڑے کی مصنوعات کی ضرورت ہے جن میں پاکستان مالا مال ہے اور کوالٹی بھی اعلیٰ معیار کی ہے۔ پاکستان میں چین کے ساتھ بڑے پیمانے پر شروع کئے گئے اقتصادی راہداری کے منصوبوں کے لئے کول تار اور دوسرے تعمیراتی سامان کی ضرورت ہے نیز سڑکیں بنانے کے لئے مشینری بھی۔ ایران اِن ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان ا ور ایران میں گیس سپلائی کا معاہدہ پہلے ہی ہو چکا ہے جس کی تکمیل میں بین الاقوامی پابندیاں حائل ہیں۔ امریکہ سے معاہدے کی صورت میں گیس پائپ لائن پر نہ صرف کام شروع ہو سکتا ہے،بلکہ پاکستان کے ذریعے چین، انڈیا اور دیگر ایشیائی ملکوں تک ایرانی گیس ایکسپورٹ کی جا سکتی ہے۔ معاشی ترقی سے ایشیا کے اِس ترقی پذیر خطے میں غربت کے خاتمے اور عوامی معیار زندگی میں بہتری آنے سے یہاں سے شدت پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ ہو گا، جس سے ساری دنیا کو فائدہ پہنچے گا۔شدت پسندی کے خاتمے سے وہ سارے وسائل جو اُس کی روک تھام میں خرچ ہو جاتے ہیں انسانی فلاح اور بہتری کے لئے وقف ہوں گے، جس سے سماجی، ثقافتی اور سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی میں تیزی آئے گی اور ترقی پذیر ملکوں کے عوام کا ترقی یافتہ ملکوں کے بارے میں نقطہئ نظر مثبت طور پر تبدیل ہوگا۔اِس کثیرالجہتی ترقی کے دروازے کی چابی امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کے ہاتھ میں ہے اور تاریخ نے اُن کو جو موقع دیا ہے وہ اُس سے فائدہ اُٹھا ئیں اوراپنے ساتھ ساتھ دنیا کا بھی بھلا کریں۔ پاکستان کو بھی اِس امکانی معاہدے کے نتیجے میں حاصل ہونے والے مواقع سے بھرپور انداز میں بہرہ مند ہونے کی تیّاری کرنی چاہیے تاکہ وقت آنے پر مواقع سے فائدہ اُٹھانے میں تاخیر نہ ہو۔