ہیڈلائن

ایف آئی اے میں آن لائن بدسلوکی کی 56 ہزار شکایات پر صرف 32 کی تحقیقات

Share

اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے سوشل میڈیا پلیٹ فامز پر بڑھتے ہوئے استحصال کو روکنے کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی کارکردگی کو مسترد کرتے ہوئے ان کی سالانہ کارکردگی رپورٹس طلب کرلیں۔

قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرپرسن سینیٹر روبینہ خالد کی سربراہی میں ہوا جس میں ایف آئی اے کے اس دعوے پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ ادارے کو مختلف طرح کی آن لائن ہراسانی کی 56 ہزار شکایات موصول ہوئیں اور ان میں سے محض 32 کی تفتیش کی گئی۔

اس پر سینیٹر روبینہ خالد نے ریمارکس دیے کہ ’یہ مایوسی کی بات ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ ادارے کو متحرک ہونا پڑے گا تاکہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرسکے‘۔

اس سے قبل اجلاس میں ایف آئی اے کے شعبہ سائبر جرائم کے ڈائریکٹر وقار چوہان نے کمیٹی اراکین کو بریفنگ دی۔تحریر جاری ہے‎

گزشتہ برس کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ 27 ہزار شکایات میں سے 11 ہزار سے زائد کیسز کی تحقیقات کی گئیں اور سائبر جرائم کے زیادہ سے زیادہ 32 کیسز میں ملزمان کو سزا ہوئی۔

اس پر کمیٹی اراکین نے نشاندہی کی کہ جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے متعلق اراکین پارلیمنٹ کو بھی سائبر جرائم کے مسائل کا سامنا ہے۔

بعد ازاں کمیٹی چیئرپرسن کا کہنا تھا کہ یہ ایف آئی اے کی ذمہ داری ہے کہ جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے پس پردہ عناصر کا سراغ لگائے لیکن زیادہ تر یہ ذمہ داری پی ٹی اے کو دے دی جاتی ہے۔

اسی دوران سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے اور پی ٹی اے کو اپنی سالانہ کارکردگی رپورٹس کمیٹی کے سامنے پیش کرنی چاہیے۔

کمیٹی اراکین نے بتایا کہ سینیٹر کلثوم پرویز، سینیٹر تاج محمد آفریدی، سینیٹر اعتزاز احسن اور دیگر کے ناموں سے جعلی اکاؤنٹس بنانے پر ایف آئی اے میں شکایت درج کروائی جاچکی ہے۔

سینیٹرز نے پوچھا کہ اگر یہ سب اراکین پارلیمان کے ساتھ ہورہا ہے تو عام افراد کے ساتھ کیا ہوتا ہوگا؟

جس پر ایف آئی اے عہدیدار نے کہا کہ ان جعلی اکاؤنٹس کو بلاک کردیا گیا ہے تو سینیٹرز کا کہنا تھا کہ اکاؤنٹس کو بلاک کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

کمیٹی اراکین کی رائے یہ بھی تھی کہ سائبر جرائم کے پسِ پردہ عناصر کو بے نقاب کیا جائے اور مطالبہ کیا کہ مجرمان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

اس کے علاوہ اراکین سینیٹ نے چائلڈ پورنوگرافی کیس کی تحقیقات میں تاخیر پر مایوسی کا اظہار کیا۔

تاہم سیکریٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی شعیب صدیقی ایف آئی اے کے شعبہ سائبر جرائم کی مدد کو آئے اور کہا کہ محکمہ کے پاس انسانی وسائل محدود ہیں، اس کے علاوہ اس شعبے کو بجٹ میں رکاوٹوں کا بھی سامنا ہے۔

شعیب صدیقی کا کہنا تھا کہ شعبہ سائبر جرائم کے اپنے طریقہ کار ہیں جو تکنیکی اعتبار سے مرکزی ایف آئی سے مختلف نہیں کیوں کہ شعبہ سائبر جرائم برقی جرائم کی روک تھام کے قانون 2016 کے تحت کام کرتا ہے۔

انہوں نے کمیٹی کو وضاحت دی کہ ایف آئی کے شعبہ سائبر جرائم کو متعدد مسائل کا سامنا ہے جنہیں حل کرنے کی ضرورت ہے، جس پر قائمہ کمیٹی نے ایف آئی اے کے شعبہ سائبر جرائم کو درپیش مسائل کو اٹھانے پر اتفاق کیا۔