فیچرز

ایلوپیشیا یا بال چر: ایک ایسی بیماری جو لوگوں کی خوداعتمادی کو ٹھیس پہنچاتی ہے

Share

ہمارے معاشرے میں خوبصورتی کے مروجہ معیار میں جہاں رنگت اور خدوخال کی بات ہوتی ہے وہیں لمبے اور گھنے بال بھی خوبصورتی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔

کسی بھی مرد یا خاتون کے لیے سر کے بال گر جانا ایک ڈراؤنے خواب کی حیثیت رکھتا ہے اور خصوصاً خواتین کے لیے یہ چیز جوانی کے دور میں ایک بھیانک خواب بھی بن سکتی ہے۔

سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والی عزہ مقصود کی عمر چار برس تھی جب ان کے سر پر مختلف جگہ سے بال اُڑنا شروع ہو گئے تھے اور ان کے والدین لاعلم تھے کہ ایسا اس بیماری کی وجہ سے ہو رہا ہے جسے طبی زبان میں ایلوپیشیا اور روزمرہ کی زبان میں بال چر یا بال جھڑ کہتے ہیں۔

نتیجہ یہ نکلا کہ کئی جڑی بوٹیوں، پیاز، ادرک، لہسن اور مختلف سبزیوں کا رس اور کئی اقسام کے تیل عزا کے سر پر لگائے گئے لیکن کوئی خاطر خواہ افاقہ نہیں ہوا۔

عزہ بتاتی ہیں ’اصل میں میرے والدین کو ایلوپیشیا کے بارے میں بالکل علم نہیں تھا اور انھیں لگتا تھا کہ جو میں دیسی ٹوٹکے استعمال کر رہی ہوں اور نائی وغیرہ کے پاس جا کر مختلف قسم کے دیسی علاج کرتی ہوں اس سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا لیکن نہ ہی ان کو اس حوالے سے آگاہی تھی اور نہ ہی مجھے اور اس سے مجھے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔‘

عزہ مقصود نے تقریباً 21 سال تک مختلف قسم کے طبی اور دیسی علاج کیے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں جب ڈاکٹر کے پاس جا کر اپنا نسخہ دیکھتی تھی تو اس پر لکھا ہوتا تھا ایلوپیشیا ایریاٹا لیکن مجھے اس حوالے سے کوئی علم نہیں تھا اور یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مجھے پتا چلا کہ یہ ایک بیماری ہے۔‘

ایلوپیشیا ایریاٹا کیا ہے؟

ایلوپیشیا کا شکار خاتون
ایلوپیشیا ایریاٹا میں انسان کے سر اور چہرے پر مختلثف حصوں پر موجود بال گر جاتے ہیں

پولی کلینک ہسپتال اسلام آباد میں جلدی امراض کے شعبے سربراہ ڈاکٹر شیریں انصاری کے مطابق ’ایلوپیشیا کا مطلب جو عام لوگ سمجھتے ہیں، وہ ہے گنج پن یا بالوں کا گر جانا اور اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ایلوپیشیا ارییاٹا کا مطلب ہے ایک جگہ سے بالوں کا اڑ جانا تو اگر یہ سر میں ہو تو مختلف پیچز آپ کو نظر آتے ہیں یا پھر چہرے پر، بھنوؤں پر، پلکوں پر یا جسم کے کسی حصے پر۔‘

ان کے مطابق ’یہ ایک آٹو ایمیون بیماری ہے جس میں آپ کا جسم آپ ہی کے بالوں کے فویلیکلز کے خلاف کام شروع کردیتا ہے اور 90 فیصد معاملات میں یہ بیماری خود ہی ختم بھی ہو جاتی ہے‘۔

ایلوپیشیا ارییاٹا اور نفسیاتی مسائل

خواتین اور مردوں میں بالوں کا گرنا نہ صرف ان کی شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ ان کی خود اعتمادی کو بھی متاثر کرتا ہے۔

عزہ کے معاملے میں تو بات خودکشی کی کوشش تک پہنچ گئی تھی۔

’اگر آپ پر خاندان کی طرف سے، معاشرے کی طرف سے شدید دباؤ ہو تو اس کے بعد میرے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ میں نے اپنے آپ کو ایک کمرے تک محدود کر لیا تھا تو پھر میں نے خود کشی کے بارے میں ہی سوچنا تھا۔‘

ایلوپیشیا کا شکار خاتون
خواتین اور مردوں میں بالوں کا گرنا نہ صرف ان کی شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ ان کی خود اعتمادی کو بھی متاثر کرتا ہے

عزہ بتاتی ہیں ’میں نے کئی دفعہ خودکشی کرنے کی کوشش کی کیونکہ ایک طرف میرے اوپر سکول کی پڑھائی کا دباؤ تھا اور میرے والدین سکول کے بارے میں پوچھتے جبکہ سکول کے بچے میرا سکارف کھینچتے تھے۔

’مجھ سے کہا جاتا کہ آپ سکارف اتار کر دکھائیں کہ آپ کے ساتھ کیا مسئلہ ہے اور یہ میرے لیے ایک تکلیف دہ لمحہ ہوتا تھا کیونکہ میں اساتذہ اور طلبا کے سامنے اپنا سکارف نہیں اتار سکتی تھی۔‘

ڈاکٹر شیریں انصاری کے مطابق ’ایلوپیشیا کی وجہ سے مریض شدید ڈپریشن کا شکار ہو سکتا ہے حتیٰ کہ یہ آپ کو خود کشی کی طرف بھی لے جا سکتا ہے اوراس سے خصوصاً خواتین زیادہ متاثر ہوتی ہیں کیونکہ اس بیماری کی وجہ سے کئی بچیوں کے رشتے ہونا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔‘

ان کے مطابق ’اس بیماری سے متاثرہ شخص کی نہ ہی ذہانت میں اور نہ ہی شخصیت میں کوئی کمی ہوتی ہے اور یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کا علاج بھی ممکن ہے اور یہ مرد اور خواتین دونوں کو ہو سکتی ہے اور اس سے دونوں کی زندگی متاثر ہو سکتی ہے۔‘

ڈاکٹر شیریں انصاری
ڈاکٹر شیریں کا کہنا ہے کہ ایلوپیشیا ایک ایسی بیماری ہے جس کا علاج بھی ممکن ہے اور یہ مرد اور خواتین دونوں کو ہو سکتی ہے

ڈاکٹر شیریں کا کہنا ہے کہ وہ کہتی ہیں ’اگر ہمارے معاشرے کو کسی طرح سے تبصرہ کرنے سے روکا جائے تو لوگوں کی زندگی بچ سکتی ہے کیونکہ جو دیکھتا ہے وہ ایک تبصرہ ضرور کرتا ہے یا پھر مشورہ دیتا ہے۔‘

ایلوپیشیا کے بعد آگاہی مہم چلانے کا فیصلہ

عزہ کا خواب تھا کہ وہ ماڈل بنیں لیکن ان کے مطابق ’ہمارے معاشرے میں ماڈلنگ کے لیے درکار چیزوں میں بال بھی شامل ہیں سو ایلوپیشیا کی وجہ سے میں یہ نہیں کر سکی۔‘

تاہم ان کا کہنا ہے کہ اب وہ کوشش کر رہی ہیں کہ اس بیماری کا شکار افراد کی ہمت بڑھانے کے لیے ماڈلنگ کے شعبے کو ہی استعمال کیا جائے۔

’اس حوالے سے فیشن انڈسٹری کے کچھ لوگوں سے بات چل رہی ہے کہ ایک ریمپ واک کرائی جائے جس میں ایلوپیشیا سے متاثرہ افراد کو ماڈل لیا جائے تاکہ لوگوں کو اس حوالے سے آگاہی بھی ہو اور اس سے ایلوپیشیا سے متاثرہ لوگوں کی حوصلہ افزائی بھی ہو گی۔‘

عزہ مقصود نے اب اس بیماری کے حوالے سے آگاہی مہم چلانے کا بھی فیصلہ کیا ہے اور اب وہ مختلف تعلیمی اداروں میں جا کر بھی اس حوالے سے آگاہی پھیلا رہی ہیں۔

ایلوپیشیا کا شکار خاتون

’میں نے سوچا کہ میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اگر میں معاشرے میں جاتی ہوں تو لوگ میرے بارے میں باتیں کریں گے اور میرے ساتھ ہمدردی جتائیں گے اور ہمدردی ایک ایسی چیز ہے جس سے مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے کیونکہ میں کسی سے کم نہیں ہوں۔

’یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو کہ میں نے خود بنایا ہو تو میں نے سوچا کہ میں اس حوالے سے آگاہی پھیلاؤں کیونکہ لوگوں کو اس حوالے سے علم نہیں اور کئی خواتین اور حتیٰ کہ مردوں نے بھی معاشرے میں جانا چھوڑ دیا، اپنی نوکریاں بھی چھوڑ دیں، تعلیم چھوڑ دیں یہاں تک کہ گھروں سے نکلنا چھوڑ دیا۔

’تو میرا مقصد یہ ہے کہ ایسے تمام لوگوں تک میرا پیغام پہنچے اور ہمارے نوجوان اس بارے میں آگاہ ہوں تو اس لیے میں مختلف تعلیمی اداروں میں ایلوپیشیا کے حوالے سے بات کرتی ہوں۔‘

اگرچہ عزہ کا ایلوپیشیا کا مسئلہ اب اتنا شدید نہیں رہا لیکن ان کا کہنا ہے کہ اگر ان کو یا ان کے والدین کو اس بیماری سے متعلق آگاہی ہوتی تو ان کو اس قدر طویل علاج کے مرحلے سے نہ گزرنا پڑتا اور بروقت علم ہونے کی صورت میں ان کے ٹھیک ہونے کے امکانات فوری اور زیادہ تھے۔