منتخب تحریریں

ایک ملک جو اقلیتوں کے لیے حاصل کیا گیا – مکمل کالم

Share

ایک طوائف کا خط۔ اندھے۔ پشاور ایکسپریس۔ کرشن چندر کے یہ تین افسانے اگر آپ نے نہیں پڑھے تو آج وقت نکال کر پڑھ لیں۔ ایک طوائف کا خط پنڈت جواہر لعل نہرو اور قائد اعظم جناح کے نام ہے۔ ایک طوائف دو بچیوں کی سرپرست ہے، ایک بچی کا نام بیلا ہے جو بارہ برس کی ہے، بٹوارے کے خوں ریز فسادات میں طوائف نے اسے ایک مسلمان دلال سے تین سو روپے میں خریدا تھا، یہ مسلمان دلال اسے دلی سے لایا تھا جہاں اسے ایک اور مسلمان دلال راولپنڈی سے لایا تھا، بیلا کے ماں باپ راجا بازار کے عقب میں پونچھ ہاؤس کے سامنے کی گلی میں رہتے تھے جہاں بیلا کی آنکھوں کے سامنے اُس کے ماں با پ کو قتل کیا گیا تھا۔ دوسری بچی، بتول ہے جو جالندھر کے ایک مسلمان پٹھان کی بیٹی ہے، بتول اپنی سات بہنوں میں سب سے چھوٹی تھی، سب سے پیاری سب سے حسین، اسے ایک ہندو دلال لدھیانے سے لایا تھا، بتول کے باپ کو ہندو جاٹوں نے نہایت بیدردی سے قتل کیا تھا اور اُس کی شادی شدہ بیٹیوں کے ساتھ منہ کالا کیا تھا، طوائف نے بتول کو پانچ سو روپوں میں خریدا تھا۔ جناح اور نہرو کے نام اپنے خط میں اِس طوائف نے ظلم کی لرزہ خیز داستان بیان کی ہے۔ یہ خط نہیں ہے، یہ افسانہ بھی نہیں، یہ وہ تاریخ ہے جو کرشن چندر نے رقم کی ہے۔

دوسرا افسانہ ہے ’اندھے‘۔ اِس کا موضوع بھی ہندو مسلم فسادات ہے۔ لاہور کے ایک محلے میں، جہاں تمام گھر مسلمانوں کے اور صرف دو گھر ہندوؤں کے ہیں، فسادات سے بچنے کے لیے ایک امن کمیٹی بنائی جاتی ہے مگر جب وہاں خبر پہنچتی ہے کہ شہر کے دوسرے علاقوں میں ہندوؤں نے مسلمانوں کے گھروں کو لوٹ کر آگ لگا دی ہے تو پھر اِس محلے کے مسلمان بپھر جاتے ہیں اور اِن دو گھروں میں گھس کر اپنے ہندو ہمسایوں کو قتل کر دیتے ہیں جن کے ساتھ وہ پچاس برسوں سے رہ رہے تھے۔ اِن دونوں گھروں کی خواتین اور بچوں کوبھی نہیں بخشا جاتا، کسی کو زندہ جلا دیا جاتا ہے تو کسی کے گلے پر چھری پھیر دی جاتی ہے، ایک سال کے ہندو بچے کو البتہ چھوڑ دیا جاتا ہے کیونکہ لوٹ مار میں شامل ایک مسلمان کے اپنے بچے کی عمر بھی ایک سال ہی ہے۔ اپنے بیوی بچوں کے لیے زیور اور کپڑے لوٹ کر جب یہ مسلمان اپنے محلے کی طرف جاتا ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ کچھ دیر پہلے یہاں ہندوؤں نے دھاوا بول دیا تھا اور کئی گھروں کو آگ لگا تھی، اُس کی بیوی بھی نہیں بچ پائی تھی اور سات سال کا داؤد بھی مارا گیا تھا، اور تو اور ظالموں نے ایک برس کے یعقوب کو بھی نہیں چھوڑا تھا، اُس کی چھوٹی سی جلی ہوئی لاش دیکھ کر وہ کہتا ہے یا اللہ یہ کیا ظلم ہے۔

’پشاور ایکسپریس‘ کی کہانی بھی ایسی ہی رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے، یہ اُس ٹرین کی ’آپ بیتی ‘ہے جو بٹوارے کے وقت پشاور سے ہندوؤں کو لے کر چلی تھی، راستے میں یہ ٹرین ہندو مسلم دونوں کے اکثریتی علاقوں سے گذرتی ہے، کہیں مسلمانوں کا قتل عام ہوتا ہے تو کہیں ہندوؤں کو کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے، یہ لٹی پٹی ٹرین کیسے اپنی منزل پر پہنچتی ہے، کرشن چندر یہ داستان سناتے ہوئے اپنے قاری کو رُلا دیتے ہیں۔ میرے بس میں ہوتا تو کرشن چندر کو اِن افسانوں پر ادب کا نوبل انعام دلوا دیتا۔

میں معذرت چاہتا ہوں کہ جشن آزادی کے موقع پر یہ افسانے سنا کر میں نے آپ کا موڈ خراب کر دیا، واللہ میری نیت یہ نہیں تھی، میں تو اُن لوگوں میں سے ہوں جو کہتے ہیں کہ سال کے تین سو چونسٹھ دن کیاماتم کرنے کے لیے کم ہیں جو ہم چودہ اگست کو بھی شروع ہو جائیں ! جشن آزادی تو یوم ولادت کی طرح ہوتا ہے، اِس دن کسی کو یہ نہیں کہا جاتا کہ چونکہ تم نالائق ہو سو ہم تمہاری سالگرہ کا کیک نہیں کاٹیں گے۔ لیکن اگر کسی بچے کی سالگرہ اُس دن ہو جس دن اُس کے ماں باپ اُس سے بچھڑ گئے تھے تو کیا وہ بچہ اپنی پیدایش کا جشن منائے گا یا ماں باپ کو یاد کرے گا؟ میرے پاس اِس سوال کا کوئی جواب نہیں۔

 اگست کے مہینے میں ہمارا ملک آزاد ہوا تھا، یہ بات کسی معجزے سے کم نہیں، آج اگر ہم بھارت میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم دیکھیں تو پاکستان کا شکر یہ ادا کرنے کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں۔ مسئلہ کچھ اورہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میں بٹوارے کے نتیجے میں ہونے والے فسادات کو کس خانے میں فِٹ کروں، حالانکہ ذاتی طور پر میں اِن فسادات کا شاہد ہوں اور نہ مجھے کوئی ذاتی دکھ ہے۔ مگر جب میں ظلم و بربریت کی داستانیں پڑھتا ہوں تو کانپ اٹھتا ہوں، سوچتا ہوں کہ was it worth it؟ لاکھوں بے گناہ انسان قتل ہوئے، ماؤں کے بچے اُن سے جدا ہو گئے، بہنوں کے بھائی بچھڑ گئے، لاکھوں عصمتیں لُٹ گئیں، محبتیں برباد ہو گئیں، خاندانوں کے خاندان در بدر ہو گئے، تاریخ کی سب سے بڑی نقل مکانی ہوئی۔

ریڈ کلف نے لکیر کھینچ کر علاقوں کی تقسیم تو کر دیا، اثاثوں کی بندر بانٹ بھی ہو گئی مگر کیا محبتوں کا بھی بٹوارہ ہو گیا، کیا لوگ اپنی یادوں کو بھی سامان کے ساتھ باندھ کر ساتھ لے گئے؟ ایک لمحے کو سوچیں تو روح لرز اٹھتی ہے کہ یہ سب کیا ہوا تھا، کیسے راتوں رات وہ ہندو، مسلمان، سکھ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے تھے جن کی بہو بیٹیاں اور عزتیں سانجھی تھیں، وہ لوگ جو ایک دوسرے کی بچیوں کے عزت کے محافظ تھے کیسے آن ہی آن میں ان کی عصمت کے لٹیرے بن گئے، دلال بن گئے اور کوئی ملال بھی نہیں ہوا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جناح، نہرو اور گاندھی نے اِن تمام باتوں کی پیش بینی کی تھی؟ اگر جواب نہ میں ہے تو پھر اُن کی دور اندیشی پر سوال اٹھتا ہے اور اگر ہاں میں ہے تو پھر بھی یہ تینوں عظیم رہنما بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔

بٹوارے کے وقت انسانیت کی تذلیل کرنے والے ہندو، مسلم، سکھ شاید آج بھی زندہ ہوں، انہیں چاہیے کہ سامنے آئیں اور اپنے مظالم کا اعتراف کریں، اِن کی عمریں اِس وقت پچاسی، نوّے برس سے اوپر ہوں گی، چند برس بعد یہ موقع بھی نہیں رہے گا، اگر سرحد کے دونوں طرف سے کسی Truth and Reconciliation Commissionکے سامنے یہ اعترافات ہو جائیں تو ممکن ہے کہ بٹوارے کی تلخی کم ہو جائے اور دونوں ملک امن کی نئی شروعات کر سکیں۔ گزشتہ را صلوات آئندہ را احتیاط۔ دنیا میں یہ تجربہ کامیاب ہو چکا ہے، ہم بھی یہ کام کر سکتے ہیں۔

یہ تمام دکھ اپنی جگہ مگر آزادی کا جشن منانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ اور جشن کے لیے اِس سے زیادہ موزوں بات بھلا کیاہوسکتی ہے کہ ایک شخص، جس کا نام محمد علی جناح تھا، نے اقلیتوں کے لیے علیحدہ ملک حاصل کیا۔۔۔ مسلمان متحدہ ہندوستان میں اقلیت ہی تو تھے۔ اب آج اگر ہم اِس ملک میں اقلیتوں کو وہ حقوق نہیں دیں گے جو حقوق ہم متحدہ ہندوستان میں ہندوؤں سے مانگتے تھے تو پھر ہمارے نظریہ پاکستان کی کوئی توجیہہ باقی رہتی ہے اور نہ قائد اعظم کا کارنامہ غیر معمولی رہتا ہے۔ لہذا غیر مسلموں کے خلاف منافرت پھیلاتے وقت، مندرکی تعمیر کی مخالفت کرتے وقت یا کسی مخالف عقیدے کے شخص کو گولی مارتے وقت یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ تمام باتیں قائد کے اُس نظریے کے خلاف جاتی ہیں جن کی بنیاد پر انہوں نے ہمیں آزادی دلائی تھی۔ ایک ہی سانس میں دو متضاد باتیں درست نہیں ہو سکتیں، فیصلہ ہمارا ہے، جناح کے ویژن کو لے کر چلنا ہے یا اقلیتوں کے خلاف نفرت پالنی ہے ؟