منتخب تحریریں

اے پی سی اور نواز شریف کا خطاب

Share

ڈاکٹر شہباز گِل صاحب کا حکم ہے۔اس کی لازماََ تعمیل ہوگی۔ قانون کا دل وجان سے احترام کرنے والے میڈیا مالکان جیل سے سزا یافتہ اور اب عدالت سے ’’اشتہاری‘‘ قرار پائے نواز شریف صاحب کی اپوزیشن کی اے پی سی میں ہوئی تقریر اپنے چینلوں پر دکھانے کی جرأت آزمانے کو سوبار سوچیں گے۔بہتر اگرچہ یہ ہوتا کہ شہباز گِل صاحب ایک ٹویٹ لکھ کر میڈیا مالکان کو قانون کا ہر صورت احترام والا حکم صادر نہ فرماتے۔ Whatsappایسے ہی حکم دینے کے لئے ایجاد ہوا ہے۔ریاستی دبدبہ مگر انصاف کی طرح شاید گج وج کر بروئے کار آتا بھی نظر آنا چاہیے۔شہباز گِل صاحب اسی باعث ٹویٹ لکھنے کو مائل ہوئے ہوں گے ۔ دنیا بھر کے حکمران ویسے بھی ایک لطیفے والا ’’بڑا جانور‘‘ ہوتے ہیں۔ان کی مرضی ۔انڈا دیں یا بچہ۔شہباز گِل صاحب سے تعارف یا ملاقات کا کبھی موقعہ نصیب نہیں ہوا۔ان کی شخصیت البتہ میڈیا کی بدولت بہت متحرک نظر آتی ہے۔سنا ہے کافی وقت انہوں نے امریکہ کے شہر شکاگو میں بھی گزارہ ہے۔اسے ایک Toughشہر شمار کیا جاتا ہے۔وہاں قیام کے دوران گِل صاحب نے Spin Doctoring کا ہنر بھی سیکھا۔جارحانہ One  Linersسے مخالفین کا مکوٹھپ دیتے ہیں۔زبان وبیان ان کے ’’درباری‘‘ نہیں عوامی ہیں۔ دلوں میں اُبلتے غصے (Rage)کا بھرپور اظہار۔ آج کا روایتی اور سوشل میڈیا ایسے ہی Rageکا محتاج ہے۔ ڈونلڈٹرمپ اس کے اظہار کی قوت سے مالا مال ہونے کے سبب ہی وائٹ ہائوس پہنچا تھا۔ ہمارے ہاں اس ہنر پر کئی برسوں تک راولپنڈی سے اُٹھے بقراطِ عصر کا اجارہ تھا۔ وہ مگر بہت ہی ’’دیسی‘‘ رہے۔گِل صاحب نے شکاگو کی انرجی شامل کرتے ہوئے اس اندازِبیان کو Hybridبنادیا ہے۔شہبازگِل صاحب کے ٹویٹ نے البتہ محترمہ مریم نواز صاحبہ کو ’’روک سکوتو روک لو‘‘ والا ٹویٹ لکھنے کو اُکسایا۔ اس کے ذریعے اطلاع یہ بھی دی گئی کہ نواز شریف صاحب کے خطاب کو عوام تک براہِ راست پہنچانے کے لئے سوشل میڈیا کے فیس بک،ٹویٹر اور یوٹیوب والے پلیٹ فارم سے استفادہ کیا جائے گا۔سوشل میڈیا پر ان کے مذکورہ ٹویٹ نے مزید رونق اس لئے بھی لگائی کیونکہ اس میڈیا سے ابھی تک دور رہنے والے نواز شریف نے بھی ہفتے کے روز ہی اپنا ٹویٹر اکائونٹ بھی بنالیا۔ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ اس کا پہلا پیغام تھا۔اس پیغام نے ان کے مداحین میں ’’آتش شوق‘‘بھڑکادی۔ ان کے مخالفین بھی ’’بھگوڑے‘‘ کو نیچا دکھانے میں مصروف ہوگئے۔سوشل میڈیا پر رونق لگاتے ہیجان نے مجھ بدنصیب کو مجبور کردیا کہ اتوار کی صبح اُٹھتے ہی حزب مخالف کی جماعتوں کی جانب سے منعقد ہوئے اجتماع کے ذکر سے کالم کا آغاز کروں۔ ہفتے کی رات تک جبکہ ارادہ یہ باندھا تھا کہ مذکورہ اجتماع کی بابت لکھنے کے لئے پیر کی صبح کا انتظار کیا جائے ۔مجھے ہرگز خبر نہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کے مابین بالآخر کن بنیادی نکات پر اتفاق ہوگا۔ طویل خاموشی کے بعد نواز شریف صاحب اتوار کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ممکنہ طورپر کن نکات کو اجاگر کریں گے؟ اس کے بارے میں اندازہ لگانے کے قابل بھی نہیں۔ذات کا رپورٹر ہوتے ہوئے آپ کو انتہائی ذمہ داری سے یہ اطلاع اگرچہ دے سکتا ہوں کہ نواز شریف صاحب اپنے دل میں اُبلتے جذبات بیان کرنے کو گزشتہ کئی ہفتوں سے بے چین ہورہے تھے۔گزشتہ ماہ کے آغاز میں نیب کے لاہور آفس کی جانب سے مریم نواز صاحبہ کی کچھ زمینوں کی خریداری کے بارے میں ’’طلبی‘‘ نے انہیں نظر بظاہر اشتعال دلایا۔ مسلم لیگ کی ’’سنجیدہ اورتجربہ کار‘‘ قیادت نے وکیلوں سے طویل صلاح ومشورے کے بعد مریم صاحبہ کو مشورہ یہ دیا کہ وہ ذاتی طورپر پیش ہونے کے بجائے نیب کو ایک تحریری بیان کے ذریعے جواب دیں۔چند لوگوں نے یہ تاثر بھی دیا کہ فی الحال تحریری بیان نیب سے’’مہلت‘‘حاصل کرنے کے لئے کافی ہوگا۔ میری اطلاع کے مطابق مریم نواز صاحبہ مسلم لیگ (نون) کے ’’سنجیدہ اور تجربہ کار‘‘رہ نمائوں کے مشورے پر عمل پیرا ہونے کو تیار تھیں۔ نواز شریف صاحب نے مگر اپنی دختر کوحکم دیا کہ ہر صورت نیب کے روبرو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے جائیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ نیب کے دفتر جانے گھر سے نکلیں تو ’’پُلس مقابلہ‘‘ ہوگیا۔ ہنگامے سے گھبراکر نیب نے یک طرفہ اعلان کردیا کہ مریم نواز صاحبہ کی طلبی مؤخر کردی گئی ہے۔ اس اعلان نے عمران حکومت کے ’’کرپشن دشمن‘‘ مشیروں کو بہت پریشان کیا۔ وزیر اعظم کے روبرو فریاد ہوئی کہ نیب نے ہنگامے سے ’’بکری‘‘ ہوکر ریاستی دبدبہ کو زک پہنچائی ہے۔’’تجزیہ‘‘ یہ بھی ہوا کہ لاہور پولیس پر چھائے شہباز شریف کے چہیتے افسروں نے دانستہ طورپر مریم نواز صاحبہ کو ’’جگے‘‘ کی صورت ابھرنے کا موقعہ فراہم کیا۔بالآخر فیصلہ ہوا کہ لاہور پولیس کو سیدھا کرنے کے لئے عمر شیخ صاحب کو اس کی کمان سونپی جائے ۔دریں اثناء یوٹیوب پر چھائے Influencersکے ذریعے ہمارے حاکموں نے تاثر یہ بھی پھیلایا کہ مریم نواز صاحبہ سے ان کے والد کے مری والے گھر میں ’’چند اہم ملاقاتیں‘‘ ہوئی ہیں۔ انہیں واضح الفاظ میں سمجھادیا گیا ہے کہ اگر وہ اپنے والد اور چچا کی ’’بھلائی‘‘ چاہتی ہیں تو خاموشی اختیار کرتے ہوئے عملی سیاست سے واقعتاکنارہ کشی اختیار کرتی نظر آئیں۔اس تاثر کے فروغ کے تناظر میں مسلم لیگ (نون) کی ترجمان مریم اورنگزیب صاحبہ کی جانب سے اس وفد کے اراکین کے ناموں کا اعلان ہوا جو اپوزیشن کی اے پی سی میں شرکت کے لئے ’’نامزد‘‘ ہوئے تھے۔ مریم نواز صاحبہ کا نام ان میں شامل نہیں تھا۔بعدازاں عمران حکومت نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے حیران کن سرعت سے فقط FATFکو درکار قوانین ہی نہیں بلکہ وہ تمام قوانین بھی منظور کروالئے جو اپوزیشن جماعتیں قومی اسمبلی سے منظوری کے باوجود اپنی اکثریت کے بل بوتے پر سینٹ میں ’’مسترد‘‘ کرتی رہی تھیں۔اس کی وجہ سے پیغام یہ بھی ملا کہ بالآخر مسلم لیگ (نون) کی کمان مکمل طورپر شہباز شریف صاحب اور ان کے ’’سنجیدہ اور تجربہ‘‘ مصاحبین کے ہاتھ آگئی ہے۔راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر ٹی وی سکرینوں پر سینہ پھلاتے ہوئے ’’اپنی پارٹی‘‘ کے شہباز شریف صاحب کی کامیابی پر لہذا فرحت کا اظہار کرتے رہے۔’’نون‘‘ میں سے ’’ش‘‘ کی برآمدگی انہوں نے ’’دیوار پر لکھی‘‘ ہوئی بیان کی۔

پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے عمران حکومت کی ترجیح کے مطابق تیار ہوئے قوانین کی بسرعت منظوری گزشتہ ہفتے بدھ کی شام ہوئی تھی۔ اس منظوری کے بعد ایک ’’بڑا کھانا‘‘ بھی ہوا جس میں بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف نے شرکت کی۔ راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر نے اسی کھانے میں بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف کو ’’ذمہ داری اور بردباری‘‘ دکھانے کی وجہ سے ’’شاباش‘‘دی۔ یہ تاثر مزید گہرا ہوگیا کہ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں سوپیاز اور سوجوتوں والا رویہ برقرار رکھیں گی۔ ’’اسی تنخواہ‘‘ پر گزارہ کریں گی۔گزشتہ بدھ کی رات ہی لیکن نواز شریف صاحب نے بالآخر یہ طے کیا کہ بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے منعقد ہوئی اے پی سی میں مریم نواز صاحبہ بھی شریک ہوں گی۔ وہ اس کانفرنس کے آغاز میں بذاتِ خود وڈیو لنک کے ذریعے خطاب بھی کرنا چاہیں گے۔ ان کی خواہش پیپلز پارٹی تک پہنچائی گئی۔اس کی بدولت بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے یہ ’’خبر‘‘ منظر عام پر آئی کہ ان کی نواز شریف صاحب سے ٹیلی فون پر گفتگوہوئی ہے۔اس کے بعد جو ہوا وہ تفصیلات ہیں۔خود کو میسر ٹھوس اطلاعات کی بنیاد پر آپ کو فقط یہ خبر دینا مقصود ہے کہ نواز شریف صاحب نے کسی کے ’’بہکانے یا اُکسانے‘‘ پر مریم نواز صاحبہ کو اپوزیشن کی اے پی سی میں بھیجنے کا فیصلہ نہیں کیا۔مذکورہ کانفرنس سے وڈیو لنک سے خطاب کا فیصلہ بھی ان کا ذاتی Initiative ہے۔طویل گوشہ نشینی اور خاموشی کے بعد انہوں نے یہ فیصلہ کیوں کیا اس کی چند وجوہات ہم بآسانی دریافت کرسکتے ہیں۔ان کا فیصلہ ہماری سیاست میں وقتی ہلچل کے علاوہ کسی طویل المدتی پیش رفتی کا باعث ہوگا یا نہیں۔اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں وقت درکار ہے۔