کالم

برطانیہ کا عظیم نیشنل ہیلتھ سروس

Share

یہ بات1975کی ہے جب میں نو سال کا تھا۔ دسمبر کا مہینہ تھا اور ہلکی ہلکی سردی تھی۔ کلکتہ بھی سردی سے کانپ رہا تھا۔ رات کے دس بجے ہوں گے۔ میرے والد حسبِ معمول پڑھنے کے لیے ہاتھ میں قرآن لیے جیسے ہی پلنگ پر چڑھے کہ اچانک چکر کھا کر زمین پر گر پڑے۔ گھر والوں نے مقامی لوگوں کی مدد سے کلکتہ کے معروف سرکاری ہسپتال پی جی پہنچایا۔
رات بھر جنرل وارڈ میں پڑے رہے صبح جب گھر والے دیکھنے کو پہنچے تو ابّا بے ہوشی کی عالم میں پیشاب میں لت پت پڑے تھے۔ ڈاکٹر اور نرس اپنے کام میں مصروف تھیں۔ گھر والوں سے ابّا کی حالت دیکھی نہ گئی۔ انہوں نے بلا تاخیر ابّا کو ایک معروف بنگالی ڈاکٹر کے مشورہ پر شیام بازار کے ایک نرسنگ ہوم میں داخل کروا دیا۔ ڈاکٹروں نے ہمیں بس اتنا بتا یا کہ ابّا کو برین ہیمیریج ہوا ہے۔ نو روز تک ابّا بغیرکسی علاج اور تشخیص کے بستر پر پڑے رہے اور آخر کار نو دن بعد انہوں نے ڈاکٹروں کی لاعلمی اور بغیرعلاج کے ہم سب کوروتا بلکتا چھوڑ کر اس دنیا سے کوچ کر گئے۔
وقت کے ساتھ ساتھ ہر چیز بدل گئی۔میں کلکتہ چھوڑ کر روزگار کے لیے لندن چلا آیا۔ لندن آکر مجھے خوشی کے ساتھ دُکھ بھی ہوا۔ خوشی اس بات کی کہ برطانیہ میں این ایچ ایس (NHS-National Helath Service) کی سہولت ہونے سے مجھے اپنی صحت کے متعلق تمام سہولیات فراہم ہیں۔ لیکن جب میں اپنے ہندوستان کی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو وہاں کے لوگوں میں علاج سے لیے دوائی تک کی مشکلات کے بارے میں سوچ کر بھی روح کانپ جاتی ہے۔آئے دن لوگوں کا پیغام آنا کہ ان کا علاج نہیں ہو پارہا یا وہ ہسپتال کے خستہ انتظام سے بہت مایوس ہیں۔ ظاہر سی بات ہے ہر کوئی کہاں سے علاج کے لیے اتنی بڑی رقم لائے۔
2005میں موجودہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان کی اپیل سے میں بھی کافی متاثر ہوا جب انہوں نے سڑکوں پر نکل کر لوگوں سے اپنی ماں کی یاد میں شوکت خانم میموریل ہسپتال بنانے کے لیے پیسہ جمع کیا۔ میں تب سے اب تک شوکت خانم ہسپتال کے لیے لگاتار عطیہ کر رہا ہوں۔ عمران خان کے اس عمل سے میرے اندر بھی کلکتہ میں ایک ہسپتال بنانے کا جوش اور جذبہ جاگا۔کئی خطوط سیاسی لیڈران کو لکھے۔ نام نہاد قوم کے رہنما سے ملاقات کی لیکن سوائے دلاسہ اور جھوٹے وعدے کے مجھے کچھ بھی نہ ملا۔ دراصل ان لوگوں سے ملنا میرا اس لیے ضروری تھا کہ میں اس کام کو محض اپنے بل بوتے پر کرنے سے قاصر تھا۔لیکن صاحب کیسی قوم اور کیسی ہمدردی یہاں تو معاملہ صرف صدر اور سیکریٹری کا ہے۔
جہاں تک مجھے علم ہے کلکتہ کے ایک ہسپتال میں ہمیشہ ایک ہی بات کا چرچہ ہوتا رہتا ہے کہ صدر ہٹاؤ یا دو گروپ میں جھگڑا۔ توبہ توبہ اب تو میرا سر شرم سے صرف جھکتا نہیں بلکہ جی کرتا ہے چلوبھر پانی میں ڈوب جاؤں یا انہیں ڈوب مرنے کو کہوں۔ یہ کیسے لوگ ہیں جو قوم و ملت کی پیٹھ میں چھرا بھونک کر محض اپنے مفاد کے لیے قومی اثاثے کا استعمال کر رہے ہیں۔اللہ تونے ہماری کیا حالت کر دی۔
2003سے لندن کے دو ہسپتال میں برسرِ روزگار رہا اور اب بھی ہوں۔ اس دوران میں نے ایک ہسپتال کو چلانے کے تمام ہنر سیکھے اور اسی علم اور ہنر کی بنا پر اب بھی اپنے ارادے پر قائم ہوں کہ انشاء اللہ ایک دن کلکتہ کے لوگوں کے لیے ہسپتال بناؤں گا جسے مقامی لوگ اپنے ہی ماہانہ فیس سے چلائے گے۔اب بھی ہمت نہیں ہارا ہوں۔ اللہ کے گھر میں دیر ہے اندھیر نہیں۔
برطانیہ میں 5/جولائی 1948کو (NHS-National Helath Service)کا قیام عمل میں آیا جو کہ دنیا کا واحد ایسا ہیلتھ سروس ہے جہاں لوگوں کا علاج مفت ہوتا ہے۔ برطانیہ میں اس سسٹم کے تحت لوگ جی پی(General Physician) سے لے کر ہسپتال میں بھرتی ہونے کے علاوہ آپریشن بھی مفت میں کرواتے ہیں۔ لیکن پچھلے کچھ برسوں سے NHS میں فنڈ کی کمی اور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے ہسپتال اپنی عمدہ کارکردگی سے محروم ہورہا ہے۔ صحت کے ماہرین اس کی کئی وجوہات بتا تے ہیں مثلاً ہسپتال پر کثیر تعداد میں مریضوں کا بوجھ، بڑھتی ہوئی آبادی، لوگوں کے عمر کا بڑھنا،بزرگ لوگوں کا زیادہ دن تک حیات سے رہنا اور بیماریوں کا پیچیدہ ہونا وغیرہ ۔ تاہم ان دشواریوں کے باوجود برطانیہ کا این ایچ ایس اب بھی لوگوں کو بہترین اور عمدہ سروس پیش کر رہا ہے۔

برطانوی وزیر اعظم بورس جونسن کے اعلان پر این ایچ ایس کے 72 ویں سالگرہ پر 4 جولائی کو پارلیمنٹ سے لے کر تمام اہم سرکاری عمارتوں کو این ایچ ایس کے نیلے رنگ سے روشن کیا گیا۔ اس کے علاوہ 5جولائی کی شام پانچ بجے لوگ اپنے گھروں سے نکل کر تالیاں بجا کر این ایچ ایس کے اسٹاف کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔لندن کے معروف سینٹ پال کیتھیڈرل اور وزیر اعظم کی رہائش گاہ کے باہر موم بتی بھی جلائی گئی۔ دراصل موم بتی ان لوگوں کی یاد میں جلائی گئی۔دراصل موم بتی ان لوگوں کی یاد میں جلائی گئی جن کی کورونا سے موت ہوئی ہے۔اس موقعہ پر بی بی سی سے این ایچ ایس پر ایک خاص پروگرام بھی دکھائے گئے، جس میں این ایچ ایس کے 72برسوں کی کارگردگی پر روشنی ڈالی گئی۔دریں اثنا 6میلین کی فنڈ سے این ایچ ایس نے ایک نئی اسکیم کی شروعات کی ہے جس میں چودہ سے اٹھارہ برس کے نوجوانوں کو ہیلتھ والنٹئیر کی ٹریننگ دی جائے گی تا کہ کورونا جیسے وبا کے دوران یہ والنٹئیر اسپتال کی مدد کرسکیں۔
1948میں لیبر پارٹی کی حکومت میں این ایچ ایس کا قیام عمل میں آیا۔ ہیلتھ سیکریٹری انیورن بے ون نے اس کام کو انجام دیا جس میں انہوں نے ہسپتال، ڈاکٹر، نرس، فارمیسی، اوپٹیشن اور ڈینٹیسٹ کو ایک ساتھ این ایچ ایس میں شامل کیا۔1952میں دوا کے نسخے کے لیے ایک شیلنگ یعنی پانچ پیسے کو لاگو کیا گیا۔اس کے علاوہ دانت کے علاج کے لیے ایک پونڈ بھی لاگو کیا گیا۔ جس کی وجہ سے ہیلتھ سیکریٹری بیون نے احتجاجی طور پراستعفی دے دیا تھا۔
آئیے اب این ایچ ایس کی 72سالوں کی کامیابی پر ایک نظر ڈالے۔1954میں برٹش سائنسداں سر رچرڈ ڈول نے لندن کے بیس ہسپتالوں میں مریضوں پر ریسرچ کر کے تمباکو نوشی کو پھیپھڑوں کے کینسر کی سب سے بڑی وجہ بتائی۔1958میں پندرہ سال سے کم عمر کے بچوں میں پولیو اور ڈیپتھیریا کا ٹیکہ لازمی قرار دیا گیا۔1961میں پروفیسر گریگری پینکس نے جنسی خواہشات کے بعد حمل سے عورتوں کو بچنے کے لیے کنٹراسیپٹیو پِل کا ایجاد کیا۔ 1962 میں پروفیسر سر جون چارنلی نے پہلا پورے ہپ کی تبدیلی کی۔1968 میں نیشنل ہارٹ ہسپتال لندن میں پہلا دل کا کامیاب ٹرانس پلانٹ یعنی پیوندکاری کی گئی۔جسے سرجن ڈونلڈ روس نے اپنے اٹھارہ ڈاکٹروں اور نرسوں کی مدد سے سات گھنٹے میں کیا۔1972میں گوڈ فرے نیوبولڈ ہاؤنسفیلڈ نے سی ٹی اسکین، کمپیوٹرائزڈ ٹوموگرافی
(CT-computerised tomography)ایجاد کیا جس میں ایکسرے اور کمپیوٹر مل کر جسم کے حصے کو صاف طور پر دکھاتے ہیں۔ ہاؤنسفیلڈ کو سی ٹی ایجاد کے لیے نوبل پرائز سے نوازا گیا تھا۔1978میں دنیا کا پہلا ٹیسٹ ٹیوب بے بی اولڈھم ہسپتال میں پیدا کیا گیا۔ اس طریقے کے ذریعے عورت کے جسم سے باہر بچہ کو بنایا جاتا ہے۔1985میں دو سالہ بینجامین برطانیہ کا سب سے پہلا کلیجی ٹرانس پلانٹ کا مریض بنا۔ حالانکہ آپریشن کامیاب رہا لیکن بدقسمتی سے بینجامن کی تین سال بعد موت ہوگئی۔2002میں لندن کے معروف گریٹ آرمینڈ اسٹریٹ ہسپتال میں پہلا جین تھراپی کا آغاز ہوا جس سے ان بیماریوں کا پتہ چلایا جا سکا جو عام نہیں ہوتے ہیں۔ 2007میں برطانیہ کے ریسٹورینٹ، پب اور پبلک پلیس میں تمباکو نویسی پر پابندی لگا دی گئی۔ 2007میں روبوٹ کے ذریعہ لندن کے سینٹ میری ہسپتال میں پہلا ہارٹ آپریشن کیا گیا۔ 2012میں برطانیہ میں پہلا ہاتھ کا ٹرانس پلانٹ کیا گیا۔
میں برطانیہ کے این ایچ ایس سروس کی سالگرہ پرتمام ہیلتھ اسٹاف کو ڈھیروں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔میری دعا ہے کہ دنیا کا بہترین صحت فراہم کرنے والا(NHS) این ایچ ایس اپنی آن و شان کو بر قرار رکھے اور اور آنے والے دنوں میں یہ انگلینڈ اور دنیا کے لوگوں کو عمدہ علاج فراہم کرتا رہے۔