گو شہ خاص

بُلڈوزروں کی آنکھیں نہیں ہوتیں!

Share

برسوں قبل، مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ سیاست کی بے چہرگی اور اہل سیاست کی کہہ مکرنیوں پر اس سے زیادہ جامع تبصرہ ممکن نہیں۔ مولانا کو آج کا عہد ِبے ننگ و نام دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔ سو وہ اتنا ہی جان پائے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ وہ ہر نوع کے جذبہ و احساس سے عاری اور رشتہ و پیوند سے بے نیاز ہوتی ہے۔ اپنے ترقی یافتہ عہد کے تازہ بہ تازہ تجربات کے پیش نظر، کچھ عرصہ قبل میں نے مولانا کے اس قول میں یہ پیوند لگایا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل ہوتا ہے نہ آنکھ میں حیا۔ مولانا کا عہدِ غلامی تمام ہوا۔ آزادی کی جل پری نے اپنے سنہری پر پھیلائے۔ آج ہماری آزادی 74 برس کی پختہ کار عمر کو چھو رہی ہے۔ اس لمبے سفر کے دوران دِل سے محروم اور حیادار آنکھ سے عاری سیاست کے منہ میں گز بھر لمبی زبان بھی اُگ آئی ہے جو کلام کا سلیقہ تک گنوا بیٹھی ہے۔ آج کی سیاست زہریلے شیش ناگ کی طرح پھنکارتی اور اپنے حریف کو بھسم کر دینے کو کمالِ فن سمجھنے لگی ہے۔

اگر کوئی پیمانہ میسر ہوتا تو یہ قوم جان پاتی کہ ریاست و حکومت کے اہداف کیا ہیں۔ غربت، پسماندگی، ناخواندگی، شدید مہنگائی، بے روزگاری، روپے کی پیہم گراوٹ، خطے میں سب سے کم شرحِ نمو، بے حکمتی کے سبب طوفان کی شکل اختیار کرتی وبا، اسپتالوں کے برآمدوں اور راہداریوں میں دم توڑتے مریض، امن و امان کی دگرگوں صورت حال، ہچکیاں لیتی صحافت، گولیاں کھاتے صحافی، قوتِ گویائی سلب کر لینے والا جبر، پھر سے سر اٹھاتی دہشت گردی، آئی ایم ایف کے کولہو میں پستی خلق خدا، پُشت پر برستے عالمی مالیاتی اداروں کے تازیانے، فیٹف کا شکنجہ، وینٹی لیٹر پر پڑی معیشت، تنخواہوں کوبلکتی جامعات، بجلی، گیس کے نرخوں میں روز افزوں اضافہ، بڑھتی قیمتوں کے باعث ادویات تک نارسائی، پی آئی اے پروازوں سمیت نوع بہ نوع پابندیاں، اداروں کی ٹوٹ پھوٹ، پاکستانی پاسپورٹ کی بے توقیری، مفلوج پارلیمنٹ ، حدوں کو پھلانگتا قرضوں کا بارِ گراں، کشمیر پر کمزور ہوتی گرفت، بڑھتی ہوئی عالمی تنہائی، گھٹتی ہوئی عزت و توقیر، ترقیاتی کاموں کا جامد ہوا جانا اور ایسے ہی لاتعداد مسائل ہماری فہرستِ ترجیحات سے خارج ہوچکے ہیں۔ ان پر گفتگو بھی کم کم ہوتی ہے۔

اُدھر سیاسی لکیر کے دوسری طرف کھڑا ایک قبیلہ ہے جسے عرفِ عام میں ’’اپوزیشن‘‘ کہتے ہیں۔ اس اپوزیشن کے اجزائے ترکیبی میں ایک بڑا جزو مسلم لیگ (ن) ہے۔ تھوڑی دیر کے لئے سیاسی وابستگی اور تعصب کی عینک اتار کے یہ دیکھا جائے پتہ چلتا ہے کہ سیاسی مخالفین پر الزام تراشی، ان کی کردار کشی، اُن پر رنگا رنگ مقدمات، طرح طرح کے ریفرنسز، برسوں پرانی دیمک زدہ فائلیں کھنگال کر مقدمہ سازی، چھوٹی بڑی عدالتوں میں پیشیاں، کسی نہ کسی بہانے گرفتاریاں، جرم ثابت کئے بغیر لمبی لمبی قید، معتوب خاندانوں کی خاتون تک کو نشانہ بنانا، کسی کے چہرے پر اشتہاری اور کسی کے ماتھے پر فراری کا داغ چسپاں کرنے کا جنوں۔ کسی کا پاسپورٹ منسوخ کرنے، کسی کو زنجیروں میں جکڑ کر لانے، کسی کے ریڈوارنٹ جاری کرنے، کسی کی جائیدادیں نیلام کرنے اور کسی کا گھر بار ادھیڑ پھینکنے کا شوقِ فراواں، نیب، ایف آئی اے، انسداد منشیات، اسپیشل برانچ، انسدادِ بدعنوانی، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کو اپنے عمومی فرائض سے ہٹا کر سیاسی حریفوں کے تعاقب پر لگا دینا، ذرائع ابلاغ پر کسی کی تصویر نہ دکھانے، کسی کی تقریر نہ سنانے اور کسی کا نام تک نہ لینے کی پابندی اور تواتر سے انہیں چور، ڈاکو، لٹیرے جیسے القابات سے نوازنا، حکومت و ریاست کی سب سے بڑی ترجیح بن چکی ہے۔ ریاستی اور حکومتی عمال کی تمام تر توانائیوں کا تین چوتھائی حصہ انہی کارہائے خیر کے لئے وقف ہوکر رہ گیا ہے۔ ترجمانوں کا زور اسی دائرے میں گردش کرتا رہتا ہے۔ ایک دوسرے پر بازی لے جانے کے لئے وہ حکومتی کارکردگی کے بجائے اسی من پسند میدان میں معرکہ آرائی میں لگے رہتے ہیں۔ سرکار کی توانائیوں کا باقی ایک چوتھائی کورونا ویکسین اور قرضوں کے لئے گلی گلی صدا لگانے اور تماشائے اہلِ کرم دیکھنے کیلئے رکھ چھوڑا ہے۔

جنوبی ایشیا کی سیاست میں رواداری، وضعداری، مروت اور اجلی اقدار و روایات کے نہایت عمدہ نمونے ملتے ہیں۔ برادرم خورشید ندیم نے حال ہی میں ایک معروف واقعہ یاد دلایا ہے کہ کس طرح مشرف دور میں چوہدری شجاعت حسین نے شریف فیملی کی خواتین کو پولیس کی یلغار سے بچایا تھا۔ ہماری سیاست ایسی مشکبو داستانوں سے خالی ہوتی جارہی ہے تعفن بڑھتا جارہا ہے اور ہوا کثافت سے بوجھل ہورہی ہے۔ مسئلہ یہ ہےکہ سیاسی آب و ہوا پر شجرکاری یا کسی ملین ٹری منصوبے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دماغ آلودگی سے اَٹ جائیں، سوچیں نفرت کی بھٹی بن جائیں، زبانیں آگ اُگلنے لگیں اور اندھا انتقام، اقتدار کے ایوانوں میں صحرائی بگولوں کی طرح رقص کرنے لگے تو وہی کچھ ہوتا ہے جو آج اس ارضِ پاک میں ہورہا ہے۔ سیاسی حریفوں کی اس تاخت و تاراج کا نام ’’احتساب‘‘ رکھ چھوڑا ہے۔

گزشتہ دنوں خبر آئی کہ تین دہائیاں پرانا ریکارڈ نکال کر محکمہ مال کے چند ماہرین نے ایسی دستاویز مقدس تیار کی ہے جس کی بنا پر جاتی عمرہ کے کچھ گھروں پر بلڈوزر چلانا واجب ہوگیا ہے ۔طے پایا کہ قانونی اور عدالتی پیچیدگیوں سے بچنے کیلئے، رات کی خاموشی میں یلغار کی جائے اور جب تک کسی کو خبر ہو، انصاف کام دکھا چکا ہو۔ اس فیصلے کی بنیاد جناب وزیراعظم کا یہ قول ہے کہ ’’قانون سب کیلئے برابر ہے‘‘ البتہ قانون کی تعبیر اور ’’سب‘‘ کی تشریح حکومت کا اپنا استحقاق ہے۔ حملے میں ایک دن کی تاخیر ہوگئی اور ایک عدالتی حکم امتناعی کے باعث ’’قانون سب کے لئے برابر ہے‘‘ کی ایک درخشندہ مثال، لوحِ تاریخ پر رقم ہوتے ہوتے رہ گئی۔

شاہ فیصل مرحوم نے اپنی مسند کے عین سامنے، جلی حروف میں لکھا ایک کتبہ آویزاں کر رکھا تھا۔ ’’اگر بادشاہت ہمیشہ رہنے والی ہوتی تو تجھ تک کیسے پہنچتی‘‘۔ اونچی کرسی پر بیٹھے ہر صاحبِ اختیار و اقتدار کو یاد رکھنا چاہئے کہ اگر پہلے والے چلے گئے تو اُنہیں بھی جلد یا بدیر چلے جانا ہے۔ ثبات صرف تغیر کو ہے۔ وقت کروٹ لے گا تو ’’قانون کی تعبیر کوئی اور کرے گا اور ’’سب‘‘ کا تعین بھی اس کی صوابدید پر منحصر ہوگا۔

سو بہتر ہے کہ دل سے عاری اور حیا سے محروم سیاست کو سیاسی مخالفین کے گھر نیست و نابود کرنے تک نہ لے جایا جائے ،بات بلڈوزوں تک نہیں جانی چاہئے۔ بلڈوزوں کے سینے میں بھی دل نہیں ہوتا۔ حیا کیا، ان کی تو آنکھیں بھی نہیں ہوتیں۔ ان کے تیز دھار فولادی بلیڈ کسی عالی مرتبت گھر کو کھنڈر بناتے وقت یہ نہیں جانتے کہ یہ کس میدانی منطقے یا پہاڑی پر واقع ہے اور اس پر کس کے نام کی تختی لگی ہے۔