پاکستان

ججز کیخلاف توہین آمیز ویڈیو ازخود نوٹس: ملزم افتخار الدین پر فرد جرم عائد

Share

سپریم کورٹ نے عدلیہ اور ججز خاص طور پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دھمکی و توہین آمیز ویڈیو ازخود نوٹس کیس میں ملزم آغا افتخار الدین مرزا کی معافی کی استدعا ایک مرتبہ پھر مسترد کرتے ہوئے فرد جرم عائد کردی۔

عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ججز اور عدلیہ کے خلاف آغا افتخار الدین توہین آمیز ویڈیو ازخود نوٹس کی سماعت کی۔

دوران سماعت ملزم کی جانب سے کہا گیا کہ بحیثیت مسلمان معافی چاہتا ہوں کیونکہ اللہ کی عدالت میں بھی پیش ہونا ہے، اس پر بینچ کے رکن جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ کو بولنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا۔

ساتھ ہی جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دیے کہ انسان کو سمجھ بھی غلطی کرنے کے بعد ہی آتی ہے‎

اس موقع پر چیف جسٹس کی جانب سے یہ ریمارکس آئے کہ اگرآپ کو معاف کردیا توپورے ملک کا نظام فیل ہوجائے گا، عدالت اور اس کے ججزکے ساتھ مذاق نہیں کرسکتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے دنیا بھرمیں رابطے ہیں اور پھرکہتے ہیں کہ غلطی سرزد ہوگئی،اس پر عدالت میں موجود اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس معاملے پرتوہین عدالت کے قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔

جس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا بیان حلفی عدالت میں جمع کروایا گیا، کیا آپ نے اسے پڑھا، اس پر انہوں نے جواب دیا کہ انہیں یہ بیان حلفی ابھی ملا نہیں ہے۔

بعد ازاں عدالت نے ملزم آغا افتخار الدین مرزا پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے ایک ہفتے میں جواب داخل کرنے کا حکم دے دیا اور کیس کی سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ و دیگر ججز سمیت عدلیہ مخالف اور توہین آمیز ویڈیو ازخود نوٹس کیس میں مولوی افتخار الدین کی زندگی سے متعلق عبوری رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی تھی۔

سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی عبوری رپورٹ کے مطابق افتخار الدین نے ایران میں دینی تعلیم حاصل کی، انہوں نے 1972 میں چناب نگر سے بی ایس سی کیا اور پراپرٹی کے کاروبار کے علاوہ 2010 سے 2018 تک اقرا اسکول اور کالج چلایا۔

ایف آئی اے کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اقرا ویلفیئر آرگنائزیشن مقامی سطح پر اور بیرون ملک فنڈز اکٹھا کرکے قائم کی گئی ہے اور اس میں یتیموں کے لیے ایک ہاسٹل موجود ہے۔

رپورٹ کے مطابق افتخار الدین نے عمرہ، زیارت اور تعلیمی مقاصد کے لیے سعودی عرب، عراق، ایران اور شام کا سفر کیا تھا اس کے علاوہ ان کے ایران، آسٹریلیا، امریکا، انگلینڈ اور کینیڈا میں مقیم طلبہ، دوستوں اور رشتہ داروں سے ٹیلی فونک رابطے ہیں۔

مزید یہ کہ ایران کے جنرل سلیمانی کے قتل کے بعد اپنے سوشل میڈیا (یوٹیوب چینل اور فیس بک پیجز) دھمکی آمیز مواد اپلوڈ کرنے کی وجہ سے فیس بک حکام نے ان کی تمام لائیو کوریج کو بلاک کردیا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ جب ان کے فیس بک اکاؤنٹ ‘اکبر جانی’ کی لائیو اسٹریمنگ کو بھی محدود وقت کے لیے بلاک کردیا گیا تو انہوں معرفتِ الٰہی اور دین شاہناس جیسے مختلف اکاؤنٹس بنائے، اس میں مزید بتایا گیا تھا کہ سوشل میڈیا پر 698 ویڈیوز اپلوڈ کی گئی ہیں۔

مذکورہ رپورٹ کے مطابق تمام ویڈیوز کی جانچ پڑتال جاری ہے اور جب ان میں سے کسی کو بھی پاکستان کے کسی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پایا گیا تو فرانزک تجزیہ کیا جائے گا۔

اس رپورٹ کے مطابق جن سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر قابل اعتراض ویڈیو اپلوڈ کی گئی تھی اس کے سبسکرائبر(subscriber) سے وابستہ موبائل نمبر کی تفصیلات کال ڈیٹیل ریکارڈ(سی ڈی آرز) کے ساتھ حاصل کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق سی ڈی آر کے تجزیے سے ایران، سعودی عرب، جنوبی کوریا، ملائیشیا، چین، زمبیا اور برطانیہ بین الاقوامی فون کالز کے علاوہ ان کے این ٹی سی، پی ٹی سی ایل اور موبائل فون نمبرز پر بھی رابطے سے متعلق علم ہوا۔

ایف آئی اے نے کہا تھا کہ ریونیو حکام سے افتخار الدین کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیدادوں کا ریکارڈ فراہم کرنے کی درخواست کی گئی ہے اور ان کے جواب کا انتظار ہے۔

معاملے کا پس منظر

خیال رہے کہ 24 جون کو سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے پولیس کو ایک درخواست دی تھی جس میں کہا گیا کہ ان کے خاندان کی زندگی خطرے میں ہے کیونکہ انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔

انہوں نے اپنی شکایت میں کہا تھا کہ ‘میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ ہوں جو سپریم کورٹ کے جج ہیں اور انہیں قتل کی دھمکی دی گئی ہے’۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے مزید کہا تھا کہ ایک شخص نے ویڈیو میں کہا تھا کہ ان کے شوہر کو سرعام گولی ماری جائے، ساتھ ہی انہوں نے اپنی شکایت کے ساتھ دھمکی آمیز ویڈیو پیغام پر مشتمل یو ایس بی بھی جمع کروائی تھی۔

بعد ازاں اگلے ہی روز چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے آغا افتخار الدین کی ججز، عدلیہ کے خلاف اس ویڈیو کلپ کا نوٹس لیا تھا۔

جس کے بعد 26 جون کو پہلی سماعت پر عدالت نے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے واجد ضیا اور آغا افتخار مرزا کو طلب کیا تھا اور اٹارنی جنرل نے بتایا تھا کہ ایف آئی اے نے الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت کارروائی شروع کردی ہے۔

عدالتی کارروائی کے بعد آغا افتخار کو حراست میں لیا گیا تھا اور 30 جون کو انسداد دہشت گردی عدالت نے راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے آغا افتخار الدین مرزا کو 7 روز کے جسمانی ریمانڈ پر وفاقی تحقیقاتی ادارے کے حوالے کردیا تھا۔

بعدازاں 9 جولائی کو سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ و دیگر ججز سمیت عدلیہ مخالف اور توہین آمیز ویڈیو ازخود نوٹس کیس میں مولوی آغا افتخار الدین مرزا کی غیر مشروط معافی مسترد کرتے ہوئے توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا۔