پاکستان

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے عدالت عظمی کو فیصلے پر نظرثانی کی درخواست

Share

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس سے متعلق سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ کے فیصلے سے متعلق نظرثانی کی اپیل دائر کی ہے۔ نظرثانی کی اس اپیل میں کہا گیا ہے کہ عدالت عظمی کا دس رکنی بینچ اپنے فیصلے پر نظرثانی کر کے اس فیصلے کو ختم کرے۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ نے 19 جون کو اس صدارتی ریفرنس سے متعلق دائر درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صداررتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ایف بی آر کو اس معاملے کی تحقیاقت کا حکم دیا تھا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں ایف بی آر کو حکم دیا تھا کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کر کے رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوائے اور اگر سپریم جوڈیشل کونسل سمجھے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کا لندن میں جائیداد خریدنے کے حوالے سے کوئی کردار ہے تو سپریم جوڈیشل کونسل جج کے خلاف آئین کے ارٹیکل 209 کے تحت کارروائی عمل میں لاسکتی ہے۔

نظرثانی کی اس درخواست میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جب تک نظرثانی کی اس درخواست پر فیصلہ جاری نہیں ہو جاتا اس وقت تک عدالت اس فیصلے پر عمل درآمد رکوا دے۔

نطرثانی کی اس درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس صدارتی ریفرنس سے متعلق عدالت کا تفصیلی فیصلہ آنے سے پہلے ان کی زیر التوا متفرق درخواستوں کو بھی سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔

نظرثانی کی درخواست میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اس صدارتی ریفرنس سے متعلق دائر درخواستوں پر تفصیلی فیصلہ آنے سے پہلے ہی ایف بی آر نے ان کے اہل خانہ کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ عبوری فیصلے میں حقائق اور دائرہ اختیار سے متعلق مواد کے حوالے سے سقم موجود ہیں اور بہت سے معاملات میں اُنھیں اور ان کے اہلخانہ کو نہیں سنا گیا۔

سپریم کورٹ

نطرثانی کی اس درخواست میں یہ موقف بھی اختتیار کیا گیا ہے کہ بہت سے معاملات میں حتیٰ کہ اٹارنی جنرل اور ایف بی آر کو بھی نہیں سنا گیا۔

جسٹس قاضی فایز عیسی نے موقف اختیار کیا ہے کہ صدارتی ریفرنس کالعدم ہونے کے بعد ایف بی آر کو تحقیقات کے لیے کہنا بلا جواز ہے اور ایف بی آر کو سپریم جوڈیشیل کونسل میں رپورٹ جمع کرانے کے احکامات بھی بلا جواز ہیں۔

عدالت عظمی کے جج نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ ایف بی آر کو اس معاملے میں ہدایات دینا ایگزیکٹو کو کھلی چھوٹ دینے کے مترادف ہے اور درخواست گزار کے بقول ایگزیکٹو پہلے ہی ان کے خلاف غیر قانونی اقدامات کر چکی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ عدالت عظمی کے دس رکنی بینچ کے عبوری فیصلے کے بعد ایف بی آر چیئرمین کو تبدیل کر کے حکومت نے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی اور چیئرمین ایف بی آر کی تبدیلی اپنے من پسند نتائج کے حصول کی غماز ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے موقف اختیار کیا کہ ایف بی آر کی جانب سے درخواست گزار کی رہائش گاہ کے باہر نوٹس چسپاں کرنا بدنیتی پر مبنی ہے, اور نوٹس چسپاں کرنے کا بنیادی مقصد ان کی اور ان کے اہل خانہ کی تضحیک کرنے کے مترادف ہے۔

فروغ نسیم (فائل فوٹو)
صدارتی ریفرنس میں وفاق کی نمائندگی کرنے والے وکیل فروغ نسیم

سپریم کورٹ کے جج نے اس صدارتی ریفرنس میں وفاق کی نمائندگی کرنے والے وکیل فروغ نسیم کے بارے میں کہا ہے کہ اُنھوں نے اب تک اپنے دلائل دو حصوں میں تحریری طور پر جمع کرائے ہیں اس لیے اُنھیں بھی حکومتی تحریری دلائل پر جواب جمع کرانے کا موقع دیا جائے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کی مدت گزر نہ جائے اس لیے وہ نظرثانی کی درخواست دائر کر رہے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ ایف بی آر کو اپنی لندن میں خریدی گئی جائیداد کی تفصییلات فراہم کرچکی ہیں اور ایف بی آر کے حکام ان کے اس جواب کا جائزہ لے رہے ہیں۔