کالم

جس کی لاٹھی اس کی بھینس

Share

مانئے یا نہ مانئے لیکن یہ بات سچ ہے کہ پچھلے کچھ سالوں سے پوری دنیا میں کسی خاص عقیدے فرقے سے تعلق رکھنے کی بنا پر انسانوں جس طرح ظلم و جبر ہورہا ہے اس سے روح کانپ جاتی ہے۔آئے دن ایسی خبریں نظروں سے گزرتی ہیں جن میں مذہب یا فرقے کی بنیاد میں انسانوں کوزدوکوب اور کبھی کبھی تو جان سے مارتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی ایسے واقعات کے ویڈیو لگا کر بھی لوگ اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں۔ وہیں کچھ لوگ اس بات کی بھی دھمکی دیتے ہیں کہ اسی طرح سے تمہاری بھی پٹائی ہوگی۔لااینڈ آرڈر کا تو نہ پوچھیے، معلوم پڑتا ہے کہ ایسے برے کام کا نوٹس لینے والا نہ تو کوئی ہے اور نہ ہی اس کے خلاف کاروائی کرنے کی کسی میں ہمت ہے۔بس جناب جس کی لاٹھی اسی کی بھینس والی بات دکھائی دے رہی ہے۔

ویسے مذہبی جھگڑا اور تعصب کوئی نئی بات بھی نہیں ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو مذہبی جھگڑوں سے لے کر فرقہ پرستی کی بنا پر کئی جنگیں لڑی گئی ہیں۔ ان میں جیت اسی طاقتور حکمراں کی ہوئی جو دولت سے مالا مال اور بڑی فوج کو کمانڈ کرتا تھا۔ بس اس حکمراں کا نام اس بات کے لیے کافی تھا کہ عام لوگ اسے مذہبی رنگ دینے پر مجبور ہوجاتے تھے۔ تاہم ہم واقعہ کربلا کی جنگ کیسے بھول سکتے ہیں جو حق اور باطل کے لیے لڑا گیا۔ امام حسین نے جنگ کی اور جھوٹ اور مکاری کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا۔ جس کانتیجہ یہ ہوا کہ امام حسین کی ہار نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اگر اصول کے لیے گردن کٹ بھی جائے تو بھی جیتنے والا ناکام ناکام و نامراد ہی ٹھہر تا ہے۔

اس کے علاوہ تاریخ ہمیں بے شمار ایسے واقعات سے آگاہ کرتی ہے جن میں لڑائی طاقت کے بل پر ہوئی لیکن تاریخ ہمیں ایک نام اور فرقے سے جوڑ کر اسے ایک ایسا مذہبی رنگ چڑھا دیتا ہے جس سے عام آدمی پر مذہبی بخار چڑھ جاتا ہے اور وہ اسے اپنی آن و شان بنا کر بدلے کی آگ میں جلنے لگتا ہے۔ایسے ہی کچھ واقعات ہندوستان سے سننے کو مل رہے ہیں۔ آئے دن مذہب کے نام پر کسی کو مارا جارہا ہے تو کسی کو ذات کے نام پر عزت لوٹی جارہی ہے۔ سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ ہندوستان کی عظمت اور شان کو یہ کون لوگ ہیں جو نیست و نابود کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کیوں ان کی آنکھوں میں پٹی بندھی ہوئی ہے جس سے ان کو انسانیت نہیں دِکھ پارہی ہے۔ آخر انہوں نے کون سا دھرم سیکھا ہے جہاں ایک خاص مذہب اور فرقے کے لوگوں کی جان لے کر تسلی ملتی ہے۔

لیکن اس سے زیادہ شرمناک بات یہ ہے کہ آج اس عظیم ہندوستان کانام پوری دنیا میں گرونانک، رام، خواجہ معین الدین چستی، نظام الدین اولیاء،گوتم بدھ،کبیر، خسرو اور نہ جانے کتنے سادھو سنت کی تعلیمات سے نہیں یاد کیا جارہا بلکہ ہندوستان کے متعلق پہلا سوال لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ ہندوستان میں بے رحمی سے عورتوں کی عزت کیوں لوٹی جارہی ہے؟ مجرم کو گولی کیوں مار دی گئی؟ نچلی ذات کی عورتوں کی عزت کیوں لوٹی جارہی ہے؟ مذہبی عبادت گاہوں کو کیوں نشانہ بنایا جارہا ہے؟ عدالت میں ’جے شری رام‘ کے نعرے کیوں لگنے گے؟

سچ پوچھئے ان باتوں کو سننے کے بعد میرا سر جھکتا نہیں بلکہ شرم سے زمین بوس ہوجاتا ہے۔آنکھیں تو نم رہتی ہیں اور زبان بھی گنگ ہوتی جارہی ہے۔اگر دل کا حال بیان کروں تو کس سے کروں۔نام بھی میرا ایک خاص فرقے اور مذہب کی نشاندہی کرتا ہے تو پھر میرے خلاف تو انگلی اٹھنا لازمی ہے۔لیکن سوال میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں کہ آخر انسان ہونا گناہ ہے یا مسلمان ہونا؟جواب ملتا ہے لیکن اس جواب سے میں سوال پوچھنا چاہتا ہوں لیکن مجھے علم ہے جواب ملے گا لیکن وہ جواب حق اور باطل کی بنا پر نہیں ہوگا بلکہ میری ذات اور مذہب کی بنیاد پر ہوگا۔ جس سے میری بے چینی اور ضمیر کو سواے ضرب لگنے کے کچھ نہیں حاصل ہوگا۔

1961میں برطانوی وکیل پیٹر بینسن اس وقت مشتعل ہوگئے جب دو پر تگالی طلباء کو آزادی کی تحریک کی مہم چلانے کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔اس واقعہ سے پیٹر بینسن کافی برہم ہوئے اور انہوں نے معروف انگریزی اخبار اوبزرور میں مضمون لکھ کر اس ناانصافی کے خلاف مہم چلائی۔ اس کے بعد پیٹر بینسن کے مضمون کو دنیا بھر کے کئی اخباروں نے شائع کیا اور اسی تحریک نے دنیا بھر میں انصاف اور آزادی کے لیے متحد ہونے کا حوصلہ دیا۔ اس متاثر کن لمحے نے ایک غیر معمولی تحریک کو جنم دیا جو کہ غیر معمولی معاشرتی تبدیلی کا آغاز تھا۔
ایمنسٹی انٹر نیشنل 70لاکھ سے زائد افراد کی عالمی تحریک ہے جو ذاتی طور پر ناانصافی کے خلاف آواز اٹھاتی ہے۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل پوری دنیا میں انسانی حقوق کے لیے مہم چلا رہی ہے۔ممبروں کے ذریعہ مالی اعانت فراہم کی جاتی ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کسی بھی سیاسی نظریہ، معاشی مفاد یا کسی مذہبی عقیدے سے آزاد ہیں۔

ایمنسٹی انٹر نیشنل کا کہنا ہے کہ ہندوستانی حکومت کی جانب سے’انتقامی کاروائیوں‘ کی وجہ سے وہ بھارت میں اپنی مہم اور کاروائیوں کو روکنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ ہندوستانی حکومت پر یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کے خلاف جان بوجھ کر ایسا کیا جارہا ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یہ بھی کہا کہ ان کے بینک کے کھاتوں کو منجمد کر دیا گیا ہے۔ ہندوستان میں ان کے عملہ کو ملک چھوڑنے اور مہم اور تحقیقی کام معطل کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔تاہم ہندوستانی حکومت نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں ان الزامات کو ’بدقسمتی‘ ’مبالغہ آمیز‘ اور ’حق سے دور‘بتایا گیا۔ایمنسٹی کے ڈائریکٹر ریسرچ ایڈوکیسی اور پالیسی، رجت کھوسلہ نے بتایا کہ ’ہمیں ہندوستان میں ایک غیر معمولی صورت حال کا سامنا ہے۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل انڈیا کو انتہائی منظم اندا میں ہندوستانی حکومت کی طرف سے حملوں، دھمکیاں اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘۔انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ’ہمارا کام انسانی حقوق کے بارے میں ہیں اور جو سوالات ہمارے ذریعے اٹھائے گئے ہیں، ان کا جواب نہیں دیا جارہا ہے۔چاہے وہ دہلی فسادات سے متعلق ہماری تحقیقات ہو یا جموں و کشمیر میں آوازوں کو خاموش کرنے کے سلسلے میں رپورٹ ہو‘۔ایمنسٹی انٹر نیشنل نے پچھلے ماہ جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا کہ فروری میں ہندوستان کے دارالحکومت دہلی کے فرقہ وارانہ فساد میں پولیس نے انسانی حقوق کی پامالی کی تھی۔ان دعو ؤں کو مسترد کرتے ہوئے دہلی پولیس نے ’دی ہندو‘ اخبار کو بتایا کہ ایمنسٹی انتڑنیشنل کی رپورٹ ’ایک طرفہ، متعصبانہ اور بد نیتی پر مبنی ہے‘۔

ایمنسٹی انٹر نیشنل نے ہندوستان میں اپنی مہم کو روکنے کے اعلان سے مجھے کافی تشویش میں ڈال دیا ہے۔ کیونکہ موجودہ صورت حال میں جس طرح سے انسانی حقوق کو پامال کیا جارہا ہے اس میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کا ہونا کافی ضروری ہے۔مجھے ذاتی طور پر ہندوستانی حکومت کی نیت پر شک گزر رہا ہے چاہے وہ انسانی حقوق کی بات ہو یا بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کا مسئلہ ہو۔ اس کی مثال یہ ہے کہ بینک میں ایک خاص فرقے کے لوگوں کے حساب کتاب پر نظر رکھی جارہی ہے۔ چھوٹے پیمانے پرہندوستان میں غریب لوگوں کی مدد کے لیے پیسوں کو بھیجنے پر بلا وجہ سوالات پوچھے جار ہے ہیں۔ یہ سب ایسی نئی باتیں ہیں جس سے میں کافی فکر مند اور تشویش ہوں۔

ہندوستان ایک عظیم ملک ہے۔ اس بات پر جتنا ہمیں فخر ہے اتنا ہی دنیا بھر میں بسے ہندوستانیوں کو بھی ہے۔ لیکن پچھلے کچھ برسوں سے جس طرح ہندوستان میں مذہب، فرقہ، ذات اور طاقت کے بل پر ننگا ناچ ناچا جارہا ہے اس سے ہم محض پریشان ہی نہیں ہیں بلکہ ہمیں اس بات کی بھی فکر لاحق ہے کہ آنے والی نسل جس کے دماغ میں فرقہ پرستی کا زہر گھول دیا گیا ہے، وہ اپنی انسانیت کے اصول کو چھوڑ کر انسان کو مذہب کی بنیاد پر جاننے اور پہچاننے لگی ہے۔ یہ ایک فکر انگیز بات ہے۔فی الحال تو ہندوستان میں ایسا ہی لگ رہا ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس!