منتخب تحریریں

جنگ گروپ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر میر شکیل الرحمان کا ہار کر جیتنے والا بھائی

Share

میر شکیل الرحمان پاکستان کے سب سے بڑے اور بااثر میڈیا گروپ جنگ جیو کے مالک ہیں. ویسے تو وہ آج کل بہت کڑے امتحان سے گزر رہے ہیں کیونکہ وہ ایک مقدمے کے حوالے سے نیب کے زیر حراست ہیں۔ مقدمہ تو جوں کا توں ہے لیکن ان کے برادرِ کبیر میر جاوید رحمان کی وفات کی وجہ سے انھیں رہا کیا گیا ہے۔

جاوید رحمان پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا تھے اور کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں زیرِ علاج تھے۔ 31 مارچ 2020 کو وہ وفات پا گئے۔

میر خلیل الرحمان اور محمودہ بیگم کے چھ بچے تھے جن میں چار لڑکیاں اور دو لڑکے تھے۔ جاوید رحمان سب سے بڑے تھے۔ وہ 11،اگست 1946 کو پیدا ہوئے گویا وہ پاکستان سے ایک سال بڑے تھے۔

25 جنوری سنہ 1992 کو جب میر خلیل الرحمٰن لندن کے ایک ہسپتال میں دنیا سے رخصت ہو گئے تو میر جاوید رحمان ادارے کے پبلشر اور پرنٹر بن گئے۔ جنگ گروپ کی تشکیل و ترقی کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے تناظر میں غالباً سنہ 1939 میں برِصغیر کی انگریز سرکار نے ’جنگ‘ کے نام کا ایک اخبار جاری کیا۔ اس پرچے میں عالمی جنگ کے حوالے سے تازہ خبریں اور مضامین شائع ہوتے تھے تاکہ پراپیگنڈا سے رائے عامہ اپنے حق میں ہموار کی جا سکے۔ یقیناً اس اخبار میں جنگ کے تناظر میں انگریز حکومت کا مؤقف بیان کیا جاتا ہو گا۔

یہ پرچہ نصف لاکھ سے زائد چھپتا تھا اور لوگوں میں مفت تقسیم کیا جاتا تھا۔ ملک یوسف العزیز اس کے ایڈیٹر تھے۔ بعد ازاں غالباً سنہ1940 میں میر خلیل الرحمٰن نے دہلی سے ’جنگ‘ کے نام سے اپنا اخبار نکال لیا۔

قبل ازیں سنہ 1939 میں میر خلیل الرحمان دہلی سے نکلنے والے فلمی پرچے ’نگار خانہ‘ میں کام کر کے صحافتی تجربہ حاصل کر چکے تھے۔ اس فلمی رسالے کے ایڈیٹر دادا عشرت علی تھے۔

جنگ گروپ
میر شکیل الرحمان، میر خلیل الرحمان، میر جاوید رحمان (دائیں سے بائیں)

میر خلیل الرحمان نے بہت مشکل حالات میں ’جنگ‘ اخبار شائع کرنا شروع کیا تھا۔ وہ دفتر کی صفائی سے لے کر اخبار کی چھپوائی اور تقسیم تک تمام امور خود ہی سر انجام دیتے تھے۔ ان کی بے انتہا محنت کی بدولت سنہ 1941 تک اخبار کی اشاعت 3 ہزار تک پہنچ گئی۔

ابتدا میں یہ شام کا اخبار تھا اور صرف دو اوراق پر مشتمل ہوتا تھا۔ بعدازاں دہلی کے ناموافق حالات کی بنا پر انھیں کراچی آنا پڑا۔ یہاں بھی حالات چنداں بہتر نہیں تھے لیکن اپنے پختہ عزائم کو ہتھیار بناتے ہوئے وزیر آباد آ کر اپنے سُسر سے 5 ہزار قرض لیا اور 14،15 اکتوبر سنہ1947 سے ’جنگ‘ شام کے اخبار کے طور پر کراچی سے چھاپنا شروع کر دیا۔

اس کے بعد میر خلیل الرحمان نے زندگی بھر پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا۔ انھوں نے اپنے ادارے کو خالص پیشہ ورانہ بنیادوں پر استوار کیا اور سنہ 1992 تک وہ اپنی زندگی میں ہی جنگ گروپ کو ایک ایمپائر کی شکل دے چکے تھے۔ اپنے اخبار سے ان کی وابستگی کا یہ عالم تھا کہ وہ ’جنگ‘ کو اپنا تیسرا بیٹا کہتے تھے۔

میر خلیل الرحمان کی وفات کے بعد ان کے دونوں بیٹے ادارے کو چلا رہے تھے۔ بظاہر تو بڑا بھائی ہونے کے ناطے جنگ گروپ کے پرنٹر اور پبلشر میر جاوید ہی تھے لیکن اصل کرتا دھرتا میر شکیل الرحمان تھے۔

میر شکیل الرحمان
میر شکیل الرحمان جنگ گروپ کے ایڈیٹر ان چیف اور پاکستان کے مقامی چینل جیو کے مالک ہیں

جنگ چونکہ بہت بڑا اور بارسوخ اخباری گروپ تھا اور بظاہر ادارہ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہا تھا۔ سنہ 1996 میں دونوں بھائیوں کے درمیان حق ملکیت پر کچھ تنازعات پیدا ہوئے اور بات عدالت تک جا پہنچی۔

میر جاوید رحمان کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی لہذا وہ شکیل الرحمان کے بیٹے یوسف رحمان کو بیٹے کے طور پر اپنا چکے تھے۔

سندھی اخبار کے چیف ایڈیٹر اور اخباری ایڈیٹرز کی تنظیم CPNE کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر جبار خٹک نے بتایا کہ میں میر جاوید کے ساتھ APNS میں جوائنٹ سیکریٹری رہ چکا تھا جب کہ وہ سیکرٹری جنرل تھے۔ وہ فون کر کے میرے دفتر آ گئے اور اپنے خاندان میں پیدا صورت حال بتائی اور مدد طلب کی۔

ڈاکٹر جبار بتاتے ہیں کہ تعلق کی بنا پر میں نے ان کا ساتھ دینے کی حامی بھر لی۔ یوں انھوں نے جاوید رحمان کو لیفٹ سے تعلق رکھنے والے معروف وکیل اختر حسین سے ملوایا۔ جنھوں نے کراچی اور کوئٹہ کی اعلیٰ عدالتوں میں مقدمات دائر کر دیے۔

ان ہی دنوں میں کراچی سے ایک نیا روزنامہ شروع ہوا جو لگ رہا تھا کہ کامیاب ہو جائے گا۔ اختر حسین نے کہا کہ جاوید صاحب اگر جنگ کی لوح اس اخبار کے اوپر لگا کے چھاپا جائے تو آپ کی قانونی پوزیشن بہت مضبوط ہو جائے گی۔ اس اخبار کے ایک اہم فرد مشتاق قریشی سے بھی اس بابت معاملات طے پا گئے مگر دو ہفتے تک میر جاوید رحمان نے کوئی رابطہ نہیں کیا جب ان سے پوچھا گیا کہ تو جبار خٹک بیان کرتے ہیں کہ جاوید صاحب نے کہا کہ میں قانونی جنگ تو جیت جاؤں گا لیکن ادارہ ’جنگ‘ تباہ ہو جائے گا.

اختر حسین پاکستان بار کونسل اور جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے ممبر ہیں وہ اے پی این کے لیگل ایڈوائزر بھی رہے ہیں۔

قانونی جھگڑے میں میر جاوید کی عدالتی لڑائی لڑنے والے اختر حسین کہتے ہیں کہ میں نے میر جاوید رحمان کو انتہائی شریف النفس آدمی پایا۔ وہ اپنے بھائی کو سب کچھ دینے پر تیار تھے لیکن ان کا کہنا تھا کہ یوں ہوشیاری سے اپنے نام سب کچھ کروانے سے شکیل نے میری توہین کی ہے اور میرے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔

سینئر صحافی اور کالم نگار مشتاق احمد قریشی بھی میر جاوید کے بہت قریب رہے۔ انھوں نے گلو گیر آواز میں بتایا کہ میر جاوید رحمان بے پناہ اصول پسند انسان تھے۔ تناؤ اور چپقلش کے باوجود کبھی انھوں نے اپنے بھائی کے خلاف بات نہیں کی بلکہ ایک دفعہ میں نے کوئی ایسی بات کہہ دی تو انھوں نے مجھے ڈانٹ دیا۔

ابلاغیات کے استاد اور دانشور ڈاکٹر توصیف احمد خان نے بتایا کہ نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں جنگ گروپ اور سرکار میں شدید تنازع اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ جب نواز شریف حکومت نے میر شکیل الرحمان کے خلاف میر جاوید رحمن کو بیان دینے کا کہا تو میر جاوید رحمان نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔

اختر حسین بتاتے ہیں کہ بعدازاں جب دونوں بھائیوں کے درمیان والدہ کی کاوشوں سے باہمی طور پر معاملات طے پا گئے تو میں نے وکالت کرنے کی جو فیس وصول کی تھی وہ جاوید صاحب کو واپس کرنا چاہی تو انھوں نے فیس واپس لینے سے انکار کر دیا۔

میر جاوید رحمان اے پی این ایس کے دو دفعہ سیکرٹری، ایک بار سینئر نائب صدر اور ایک دفعہ صدر کے عہدے پر فائز رہے۔ اسی تنظیم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر تنویر احمد طاہر کا کہنا ہے کہ وہ اصول ضابطے کے بہت پابند تھے وہ باریک بین ایڈیٹر تھے اور ان کے زمانے میں اے پی این ایس بہت فعال رہی۔

ان کے ساتھ طویل عرصہ کام کرنے والے ڈاکٹر جبار خٹک کہتے ہیں کہ طبیعت اور مزاج کے اعتبار سے دونوں بھائی بالکل متضاد مزاج کے حامل تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب میر جاوید اے پی این ایس کے عہدیدار تھے تو انھوں نے سختی سے میرٹ کی پابندی کی۔

میر جاوید رحمان

قواعد و ضوابط کے مطابق ہی نئی ممبر شپ دی۔ قواعد کی خلاف ورزی پر اپنے ادارے کو کروڑوں روپے کے جرمانے کیے ایسا کبھی پہلے اور نہ بعد میں ہوا۔

جرمانہ کرنے کی وجہ یہ ہوتی تھی کہ اگر کوئی ایڈورٹائزگ ایجنسی اخبارات کو بروقت بل کی ادائیگی نہیں کرتی تھی تو میر صاحب ضوابط کے مطابق ایسی ایجنسی کے اشتہارات روک دیتے تھے جب کہ ’جنگ‘ کا شعبہ اشتہارات کوئی اشتہار نہیں چھوڑتا تھا۔ لہٰذا اسی بنا پر میر جاوید رحمان اپنے ہی ادارے کو کئی بار جرمانہ کر دیتے تھے۔ شاید دونوں بھائیوں میں اختلافات کی وجہ بھی یہی معاملہ بنا ہو۔

دونوں بھائیوں کے درمیان باہمی قضیہ ختم ہونے کے بعد میر جاوید رحمان ہفتہ وار ’اخبارِ جہاں‘ اور انگریزی رسالے ’میگ‘ کے معاملات دیکھتے تھے۔

پچھلے چند برسوں سے وہ نفسیاتی عوارض کے بھی شکار ہو چکے تھے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ’اخبارِ جہاں‘ کے ایک ایڈیٹر کو چار بار نکال چکے ہیں اور پانچ بار دوبارہ رکھ چکے ہیں۔

ان کے ساتھ کام کرنے والے ایک صحافی نے بتایا کہ وہ عوامی مزاج کے حامل اخباری مالک تھے اور عام کارکنوں کے ساتھ بھی گُھل مل جاتے تھے لیکن صحت کے مسائل کی بنا پر ماضی کی طرح پختہ مزاج کے مالک نہیں رہے تھے۔

ان کی وفات پر ملک کی سیاسی قیادت، اخباری مالکان اور عامل صحافیوں نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اور ان کی وفات کو صحافتی دنیا کا نقصان قرار دیا ہے۔

بے شک میر شکیل الرحمان ہی جنگ گروپ کے کرتا دھرتا اور مدارالمہام ہیں لیکن میر خلیل الرحمان کے بڑے بیٹے کے کردار کو بھی ادارے کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔

میر جاوید رحمان کی وفات کا علم ہوا تو خیال آیا کہ دنیا اور دنیا داری کے معاملات تو چلتے ہی رہیں گے لیکن پاکستان کے میڈیا گورو میر شکیل الرحمان کو ہار کر جیتنے والا بھائی کبھی نہیں ملے گا۔

بشکریہ بی بی سی اُردو