کالم

جو ہوا سو ہوا!

Share

کتنی عجیب بات ہے۔ پچاس سے زیادہ لوگوں کی جان گئی، کروڑوں کے کاروبار کانقصان ہوا، سینکڑوں گھر جل کر راکھ میں تبدیل ہوگئے اور ہزاروں لوگ خوف زدہ ہو کر گھر بار چھوڑ کر بھاگ گئے اور ہندوستان کے قومی حفاظتی صلاح کار نے کہا: ’جو ہوا سو ہوا‘۔ ایسی باتیں سن کر منھ کلیجے کو آ جاتا ہے۔ کیسے وہ معصوم لوگ اس بات سے مطمئن ہوں گے جن کے گھر کے لوگ اور رشتہ دار خونی درندوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ کیا قصور تھا ان کا؟ انسان ہونا یا مسلمان یا ہندو ہونا؟ کیوں لوگوں میں اتنی نفرت ابھر آئی ہے۔؟کون لوگ ہیں جو ایک خاص مذہب کے ماننے والوں کے خون کے پیاسے ہیں۔؟
ان تمام باتوں کا علم ہمیں اور آپ کو بخوبی ہے۔کیونکہ اس کابراہ راست تعلق ایک ہی مقصد اور بات سے ہے اور وہ ہے حکومت بنا کر اپنی مرضی کے مطابق معصوم لوگوں کی زندگی سے کھیلنا۔ یہی نہیں ملک کی باگ ڈور سنبھالنے اور اس کے خزانے سے لے کر کاروباریوں تک کو لوٹنا جیسی باتیں اب عام ہو چکی ہیں۔ حکومت سازی کا بھوت لوگوں پر ایسا سوار ہوا ہے کہ وہ اپنی ذات، حیثیت، خاندان، مذہب، وقار، عزت اور تمام اقدار کو بالائے طاق رکھ کر کسی طرح کرسی پر بیٹھنا چاہتے ہیں، خواہ اس کے لیے انھیں کوئی اور کیسی بھی قیمت چکانی پڑے۔ہندوستانی فلموں میں ایسی کئی فلمیں بنائی گئی ہیں جسے دیکھ کر ہم کہتے رہے کہ یہ سب فلموں میں ہوتا ہے۔ لیکن اب جو کچھ دِکھ رہا ہے اور جس طرح سے لوگوں کا غصّہ بھڑک رہا ہے اس سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ فلمیں میں یا تو ان باتوں کو بڑھاوا دینے کے لیے بنائی گئی ہیں یا یہ باتیں عام طور پر ہو رہی ہیں جسے پردے پر دِکھا کر لوگوں کی آنکھیں کھولی جارہی ہیں۔
اتوار 23فروری 2020 کی شام سے ہندوستان کی دارلحکومت دلی میں جو فرقہ وارانہ آگ بھڑکی تھی اس کا اثر لندن میں بھی محسوس کیا گیا۔ ہندوستانی ٹیلی ویژن کے زیادہ تر چینلوں نے جہاں اس خبر کو خبر کے طور پر نہیں دِکھا کر اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی تو وہیں سوشل میڈیا پر لوگوں کے پوسٹ سے ذہن پریشان اور الجھ کر رہ گئے۔ نفرت کی آگ اتنی بھڑکی کہ اس کی زد میں، میں بھی آگیا۔ ایک معروف ہندوستانی ہندی اخبار کے رپورٹر شرما جو فیس بُک پر ہمارے دوست تھے ان کے پوسٹ پر ہم نے ’انقلاب زندہ باد‘ لکھ دیا۔ بس جناب پھر کیا تھا۔ پہلے رپورٹر منیش شرمانے مجھے برا بھلا کہا اور اس کے بعد ان کے دیگر ساتھیوں نے مجھے ماں اور بہن کی ایسی گالیاں سنائی کہ میرے ساتوں طبق روشن ہو گئے۔میں اس بات سے حیران ہوگیا کہ آخر میں نے ایسا کیا کہہ دیا کہ ماں بہن کی اتنی بری بری گالیاں سننی پڑیں۔ میں نے بھی اپنے اقدار اور صبر کا دامن نہ چھوڑا اور رپورٹر شرما کو مارے خوف کہ اَن فرینڈ کر دیا۔ لیکن میں اس بات سے اتناپریشان ہوا کہ اس رات بے چینی محسوس کرتا رہا۔ نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ میرا نام ہی کافی ہے گالی سننے کے لیے یا میں اپنے ضمیر کو بیچ کر ان کی بکواس باتوں پر خاموش بیٹھا رہوں۔
دوسرے دن بی بی سی سے لے کر تمام چینلوں پر جہاں امریکی صدر کے سفرِ ہندوستان سے متعلق خبریں گردش کر رہی تھیں وہیں دلی میں مسلمانوں پرقہر ڈھایا جارہا تھا۔پہلے تو خبریں جس طرح موصول ہورہی تھیں اس سے اندازہ لگانا کافی دشوار ہو رہا تھا کہ آخر فساد کی وجہ کیا ہے۔لیکن دھیرے دھیرے اس ملعون کا نام سوشل میڈیا سے لے کر ہر جگہ نمایاں ہونے لگا جس نے اتوار 23فروری کی شام متنازعہ شہریت ترمیم قانون کے خلاف پرامن احتجاج کرنے والوں کو اپنی اشتعال انگیزتقریر میں سرے عام دھمکی دی کہ ان کا انجام بہت برا ہونے والا ہے۔نہ صرف اس کی تصدیق کے لیے ویڈیو موجود ہیں بلکہ پولس کے اعلی افسر کی موجودگی میں اس غیر قانونی اعلان کا ہی نہیں بلکہ فساد کرنے والوں کی مدد کا ویڈیو وائرل ہے۔ اس ملعون کا نام کپیل مشرا ہے جو ہندوستان کی بر سر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کانہ صرف ممبر ہے بلکہ گزشتہ ماہ ہوئے دلی اسمبلی کے الیکشن میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا امیدوارتھا اور جسے دہلی کی عوام نے رد کیا تھا۔ یہ ملعون مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے میں ماہر سمجھا جاتا ہے۔
کپیل شرما کے بھڑکاؤ بھاشن کے بعد مشرقی دہلی کے علاقے میں سو سے زیادہ لوگوں کے گروپ میں مختلف محلّوں پر حملہ کر کے مسلمانوں کی جائداد اور کاروبار کو نشانہ بنایا۔ پہلے لوٹ پاٹ مچائی اور پھر قتل عام کیا۔پچاس سے زائد مسلمانوں کے قتل کی تو خبر ہے حقیقت کچھ اور بھی ہو سکتی ہے۔ تاہم کچھ ہندؤں کی بھی جان گئی ہے جس کے متعلق یہ اندیشہ ہے کہ ان کی جان بھی ان ہی فسادیوں نے لی ہے جو مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے تھے۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ فسادی اپنے چہرے پر کپڑا باندھے ہوئے تھے اور وہ دلی پولیس کی نگرانی میں لوٹ مار کر رہے تھے۔ کئی ویڈیو میں یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ دلی پولیس سڑکوں اور گلیوں میں لگے سی سی ٹی وی کیمرے کو توڑ رہی ہے۔حیرانی تو اس بات کی ہے کہ اسبربریت میں صرف مسلمانوں کو ہی نشانہ بنا یا گیا ہے۔ مثلاً دو مکانوں کے بیچ ایک مسلمان کے مکان کو ہی صرف نزر آتش کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ حملہ آوروں کی رہنمائی کوئی مقامی آدمی کررہاتھا جس کی مدد سے منظم طریقے سے پورے فساد کو بحسن و خوبی انجام دیا گیا۔ ورنہ آتش زنی میں کیوں کر صرف مسلمان کا ہی نقصان ہوا جبکہ دائیں اور بائیں ہندؤ ں کے مکانات میں کچھ بھی نقصان نہیں ہوا۔
ہندوستان کے موجودہ وزیر اعظم تو اس خونی کھیل کے ماہرمانے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے چند دنوں بعد لوگوں سے صرف شانتی بنائے رکھنے کی اپیل کی۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر اس معاملے میں بالکل خاموش ہوجاؤں تو شاید عالمی برادری کا شک ان پر سیدھے سیدھے آئے گا۔ 2002 کا گجرات میں کرائے گئے فسادات تو سب تو یاد ہیں جب موجودہ وزیراعظم اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے اورہندوستان کے موجودہ وزیر داخلہ امیت شاہ اس وقت گجرات کے وزیر داخلہ تھے۔ اس وقت گجرات کے فسادپرپوری دنیا نے خون کے آنسو روئے تھے۔ اب یہ دونوں مہاشے دلی کی تخت پر براجمان ہیں تو دلی کا فساد ہونا کوئی حیرانی کی بات نہیں لگتی ہے۔دونوں فساد کی نوعیت اور انداز ایک جیسا ہے۔ یعنی پولیس کا خاموش تماشائی بنے رہنا، ایک خاص مذہب کے ماننے والوں کو نشانہ بنانا۔ بھڑکاؤ ں بھاشن دینے والے لیڈر کی پشت پناہی کرنا وغیرہ ایسی باتیں ہیں جس سے مودی اور شاہ پر شک نہ ہونے کی کوئی گنجائش ہی نہیں بچی ہے۔
آزادی کے بعدہندوستانی مسلمانوں کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ ان کا کوئی ایماندار لیڈر نہ بن سکا۔ چند لیڈر ابھرے تو وہ بھی ذاتی مفاد اور دیگر لوازمات میں الجھ کر مسلمانوں کو بڑا نقصان پہنچایا۔ اس کے علاوہ مسلمانوں میں آپسی رنجش، جلن، حسد، فرقہ بندی، بڑی سیاسی پارٹیوں کے تلوے چاٹنا، ایمان کی کمزوری وغیرہ ایسی باتیں ہیں جس سے مسلمان ہندوستان میں آئے دن جانیں گنوانے کے علاوہ ہر طبقے میں لاچار و مجبور ہیں۔جو تعلیم حاصل کر چکے ہیں ان پر سیکولرزم کا بھوت ایسا سوار ہے کہ وہ نہ اپنی قوم کے لیے کچھ کر پارہے ہیں اور نہ ہی ہندوستان کی اکثریت ہندو انہیں قبول کر رہی ہے۔ جس کی وجہ سے ایسے مسلمانوں کا ذاتی فائدہ تو ہو رہا ہے لیکن ان سے قوم کا بڑا نقصان ہو رہا ہے۔ جو مسلمان اپنی مذہبی شناخت کے ساتھ جینا چاہتے ہیں انھیں آئے دن سیکولر مسلمان اور انتہا پسند ہندؤں کے طعنے اور اذیتیں سہنی پڑ رہی ہیں۔ گویا ہندوستانی مسلمانوں کا نہ تو کوئی پلیٹ فارم ہے اور نہ ہی کوئی ایماندار لیڈر جو مسلمانوں کے جان و مال کی حفاظت کر ے یا مسلمانوں کی رہنمائی کرے۔
آج کپل مشرا اس لیے نشانے پر ہے کیونکہ اس نے دلی کے فساد کی ابتدا کروائی۔ لیکن یہ وہی کپل مشرا ہے جو بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہونے سے قبل دلی کے عام آدمی پارٹی کا لیڈ ر اور وزیر رہ چکا ہے اور بدعنوانی کی وجہ سے برطرف ہوئے۔اب بی جے پی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑچکا کپل مشرا کا گرفتار نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ان پر مودی اور شاہ کا سایہ ہے۔
ان تمام باتوں کے علاوہ ہندوستان کے قومی حفاظتی صلاح کار اجیت کمار ڈوول کا یہ کہنا کہ ’جو ہوا سو ہوا‘ انسانی ہمدردی کے خلاف ایک بھیانک مذاق ہے۔ کھلے عام بھڑکاؤں بھاشن دینا، مسلمانوں کو نشانہ بنانا اور پھر لٹے اور جلے ہوئے مکانوں اور دکانوں کو دیکھ کر یہ کہنا کہ ’جو ہوا سو ہوا‘ ایک ایسا بیان ہے جو دلی کے مسلمانوں کے زخم پر نمک چھڑکنے کا کام کر رہاہے۔