منتخب تحریریں

حتمی معرکے کا انتظار کریں

Share

منگل کی شب رات گئے تک عمران حکومت کے چند اہم وزیر ومشیر اسلام آباد کے ان صحافیوں سے ٹیلی فون پر گفتگو یا ملاقاتوں میں مصروف رہے جو ان کی دانست میں خلقِ خدا کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔مجھ دو ٹکے کے رپورٹر سے کسی نے رابطہ نہیں کیا۔دوستوں کی مہربانی سے مگر معلوم ہوا ہے کہ رات گئے تک جاری رہے ان رابطوں کا مقصد Damage Controlتھا۔ حکومتی مشیروں کو فکریہ لاحق تھی کہ فیصل واوڈا صاحب جس انداز میں کاشف عباسی کے شو میں رونما ہوئے وہ ان حلقوں کو بھی اشتعال دلاسکتا ہے جن کے ساتھ ’’ایک پیج‘‘ پر ہونے کی وجہ سے موجودہ حکومت اپنی کئی کمزوریوں کے باوجود قومی اسمبلی میں واضح اکثریت نہ رکھتے ہوئے بھی مستحکم نظر آتی ہے۔

کاشف عباسی کے شو میں کیا ہوا؟ مجھے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔سوشل میڈیا کا دور ہے۔آپ کے ٹیلی فون پر اس شو کی بے شمار کلپس اب تک آچکی ہوںگی۔پیپلز پارٹی کے قمر زمان کائرہ کا اس پروگرام سے ’’احتجاجاََ‘‘ رخصت ہونے کا منظر بھی آپ نے دیکھ لیا ہوگا۔ سیاسی اعتبار سے اہمیت کے حامل ان کے وہ فقرے تھے جو کائرہ صاحب نے رخصت سے قبل اپنے جذبات کو مکمل کنٹرول میں رکھتے ہوئے ادا کئے۔ایک تجربہ کار اور زیرک سیاستدان ہوتے ہوئے کائرہ صاحب یہ پیغام دینے میں کامیاب رہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون) کو درحقیقت ایک اہم ترین قومی ادارے کی ’’چاپلوسی‘‘ کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے حکمران جماعت کی جانب سے طعنے دئیے جارہے ہیں۔یہ طعنے درحقیقت ان جماعتوں کی تضحیک نہیں ’’ادارے‘‘ کو متنازعہ بنارہے ہیں۔

خلقِ خدا کی ذہن سازی کے ضمن میں کلیدی تصور ہوتے ہوئے صحافیوں کو حکومتی وزراء اور مشیریہ بتاتے رہے کہ کاشف عباسی کے پروگرام کی کلپس وزیر اعظم صاحب تک پہنچ گئی ہیں۔وہ انہیں دیکھ کر بہت ناراض ہوئے۔فیصل واوڈاصاحب کی سرزنش کا ارادہ ہے۔

Damage Controlکی مبینہ کاوش مجھے کافی بچگانہ محسوس ہوئی۔ سپریم کورٹ کے ایک حکم کی وجہ سے اس ملک میں اہم ترین تصور ہوتے منصب پر تعیناتی اور اس منصب کی معیاد طے کرنے کے لئے جب قانون سازی کا عمل شروع ہوا تو فیصل واوڈا صاحب حامد میر کے ایک شو میں بھی تشریف لائے تھے۔ حامد نے صحافیانہ تجسس سے جاننا چاہا کہ مذکورہ حوالے سے قانون سازی کے لئے اپوزیشن سے رابطوں کی کیا صورت ہوگی۔واوڈا صاحب نے انتہائی حقارت سے اصرار کیا کہ عمران حکومت کو اپوزیشن میں بیٹھے ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کے منت ترلوں کی ضرورت نہیں۔اپوزیشن ازخود مذکورہ قانون کو سرعت سے منظور کروانے کو بے چین ہوگی۔

ایسا ہی دعویٰ چند روز بعد راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر نے بھی ایک اور ٹی وی پروگرام میں کیا۔ واوڈا صاحب اور بقراطِ عصر کا رویہ ہر اعتبار سے اپوزیشن کی جارحانہ تذلیل کرتا نظر آیا۔مسلم لیگ (نون) اورپیپلز پارٹی نے اسے نظرانداز کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی خواہش کے مطابق تیار ہوئے قانون کو حیران کن اتفاق رائے سے منظور کرنے میں لیکن ذرا دیر نہ لگائی۔ پارلیمان کی ’’لاج‘‘ رکھنے کو بلاول بھٹو زرداری نے مجوزہ قانون میں چند ہومیوپیتھک نوعیت کی ترامیم متعارف کروانے کی کوشش کی۔ آصف علی زرداری نے مگر ان کی کوششوں کو ویٹو کردیا۔

مذکورہ قانون جب قومی اسمبلی نے حیران کن عجلت سے اتفاق رائے کے ساتھ منظور کیا تو وزیر اعظم عمران خان صاحب ایوان میں موجود تھے۔پارلیمانی روایات کا تقاضہ تھا کہ وہ اس قانون کی منظوری کے بعد اپنی نشست پر کھڑے ہوتے اور اپوزیشن کا شکریہ ادا کرنے کو بھی چند کلمات ادا کردیتے۔ اس اُمید کے اظہار کے ساتھ کہ شدید ترین باہمی اختلافات کے باوجود حکومت اور اپوزیشن آئندہ بھی اہم ترین قومی معاملات کے حل کے لئے ضروری تصور ہوتے قوانین اتفاق رائے سے متعارف کرواتی رہیں گی۔اپوزیشن کے بنچوں پر سرسری نگاہ ڈالے بغیر مگر وہ ایوان سے باہر چلے گئے۔

قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد جب وہی قانون سینٹ میں پیش ہوا تو وزیر اعظم نے ایوان بالا میں قدم رکھنے کی زحمت ہی نہ اٹھائی۔ اس ایوان سے بھی وہ بل مگر 12منٹ میں منظور ہوگیا۔ سینٹ کی جانب سے مذکورہ قانون کی منظوری اس حقیقت کے باعث بھی ’’تاریخی‘‘ تھی کہ اس ایوان میں اپوزیشن جماعتوں کو بے پناہ اکثریت حاصل ہے۔ حکومت اس کے تعاون کے بغیر کوئی ایک قانون بھی منظور نہیں کرواسکتی۔اپوزیشن سپریم کورٹ کی خواہش کے مطابق بنائے قانون کو سینٹ سے نامنظور کرنے پر ڈٹ

جاتی تو ہمارے ملک میں شدید ترین سیاسی بحران پیدا ہوجاتا۔ بھارت،افغانستان اور ایران کے تناظر میں پاکستان جس دبائو کا شکار ہے اس کے ہوتے ہوئے قومی سلامتی کے حتمی ذمہ دار ادارے کی سربراہی کے بارے میں بے یقینی پھیلاتے ہوئے سوالات اُٹھ کھڑے ہوتے تو ہمارے علاقائی مسائل مزید دُگرگوں ہوجاتے۔اپوزیشن جماعتوں نے ایک کڑے وقت میں یقینا بالغ النظری کا مظاہرہ کیا۔اس کی وجہ سے ان کی صفوں میں انتشار رونما ہوگیا ہے۔ان جماعتوں کا وفادار’’ووٹ بینک‘‘ حیران ہونے کے ساتھ ناراض بھی ہوگیا ہے۔

وزیر اعظم صاحب مگر اس ضمن میں اپوزیشن کے ہرگز شکرگزار نظر نہیں آرہے۔ مذکورہ قانون کی دونوں ایوانوں سے منظوری کے عین ایک دن بعد بلکہ نوشہرہ میں ایک اجتماع ہوا۔اس اجتماع میں وزیر اعظم بھی موجود تھے۔راولپنڈی سے اُٹھے بقراطِ عصر نے کمال رعونت سے وہاں موجود حاضرین کو یاد دلایا کہ’’میں نے کہا تھا ناں کہ اپوزیشن لیٹ کر اس قانون کو منظور کرے گی‘‘۔حاضرین نے ان کے فقرے کو زور دار تالیوں سے سراہا۔وزیر اعظم بھی فرطِ جذبات سے مسکرادئیے۔۔

جو پسِ منظر میں نے اب تک بیان کیا ہے اسے ذہن میں رکھیں تو فیصل واوڈا صاحب جس انداز میں منگل کی شب کاشف عباسی کے پروگرام میں نمودار ہوئے اس کے بارے میں حیران ہونے کی گنجائش نہیں۔اس شو کا جو عمومی Impactہوا اس نے حکومتی وزراء اور مشیروں کو اپنے تئیں بدترازگنا ہ نوعیت کے عذر تراشنے کو اُکسایا ہے۔

وزیر اعظم انتہائی سنجیدگی سے اب بھی یہ محسوس کررہے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں نے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق تیار ہوئے قانون کو عجلت اور اتفاق رائے سے منظور کرتے ہوئے ان کی ذات پر کوئی احسان نہیں کیا ہے۔ان کے تعاون کا حقیقی مقصد مقتدر اداروں کی دلجوئی تھی۔ اس کے ’’عوض‘‘ مگر وہ عمران حکومت سے ’’رعایتوں‘‘ کی توقع کررہے ہیں۔مسلم لیگ (نون) کی خواہش ہے کہ محترمہ مریم نواز کو لندن جانے کی اجازت مل جائے۔ پیپلز پارٹی کو اپنے رہ نمائوں کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت بنائے کیسوں کی فکر لاحق ہے۔

عمران خان صاحب شدت سے یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ ان کی 22سالہ سیاسی جدوجہد بنیادی طورپر کرپشن کے خلاف تھی۔جولائی 2018میں ان کی جماعت کو ووٹ دینے والوں کی بے پناہ اکثریت کی شدید خواہش ہے کہ ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ سے کوئی ’’رعایت‘‘نہ برتی جائے۔

منگل کے روز ہوئے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں عمران خان صاحب اس تصویر کی بابت بھی بہت ناراض نظر آئے جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکی تھی۔اس تصویر میں نواز شریف صاحب لندن کے ایک مہنگے ہوٹل میں شہباز شریف اور اپنے بیٹوں کے ہمراہ ناشتہ کرتے نظر آئے تھے۔ اس تصویر کے حوالے سے وزیر اعظم صاحب نے برملاانداز میں نواز شریف اور شہباز شریف کو ’’فراڈئیے‘‘ کہا اور پنجاب حکومت کو ہدایات دیں کہ نواز شریف صاحب کی صحت کے بارے میں تازہ ترین رپورٹس طلب کی جائیں۔ان کی نظر میں نواز شریف صاحب ’’صحت یاب‘‘ ہوچکے ہیں۔انہیں وطن لوٹ کر جیل واپس جانا چاہیے۔

اس تناظر میں عمران حکومت کے لئے مریم نواز صاحبہ کا نام ای سی ایل سے ہٹانا ناممکن نظر آرہا ہے۔وفاقی کابینہ نے بلکہ ان کے خلاف بنائے ایک اور کیس کا ذکر کرتے ہوئے ان کو لندن روانہ ہونے کی اجازت نہ دینے کا ارادہ مصمم بنالیا ہے۔

آنے والے دنوں میں حکومت اور اپوزیشن کے مابین تلخیاں شدید تر ہوتی نظر آرہی ہیں۔ان تلخیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے لئے عمران حکومت کے مشیر اپنے اتحادیوں کے ناز نخرے اٹھانے کو مجبور ہورہے ہیں۔نئی صف بندیاں ہورہی ہیں۔ان کے مابین حتمی معرکہ کا انتظار کرنا ہوگا۔