بلاگ

خاکروب کیڑے اور ظلم کا فضلہ

Share
“محمد وقاص”

آپ نے گوبر کے کیڑے کے بارے میں سنا ہوگا-  دنیا کی کم وبیش تمام زبانوں میں یہ گندگی کا  استعارہ ہے-  اردو میں بھی اسے تضحیک کی علامت سمجھا جاتا ہے- اسے انگریزی  میں ڈنگ بیٹل اور اردومیں گوبریلا ، گوبر کا کیڑا کہتے ہیں – لیکن میرے خیال میں اس کے لئے سب سے موثر لفظ خاکروب بھنورا ہونا چاہئے –  اگر آپ اس کے کارنامے جان لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ قدرت نے دنیا کی صفائی کا ٹھیکہ اس ننھے سخت جان مخلوق کے سپرد کر رکھا ہے- دنیا کی صفائی اور پاکیزگی اسی کے رحم و کرم سے ہے- یہ سمجھیں کہ دنیا کے  اہل  مذہب  وغیر مذہب کے نصف ایمان کی ذمہ داری اس نے لے رکھی ہے- بخدا اسے کسی قسم کی مبالغہ آرائینہ سمجھا جائے – 

پوری دنیا میں کروڑوں مخلوقات ٹنوں کے حساب سے فضلہ بناتی ہیں جسے اگر صاف نہ کیا جائے تو کچھ دنوں میں ہی زمین پر  فضلے کی تہہ جم جائے – فضا  متعفن ہوجائے  ، کاربن ڈائی اکسائڈ میں بے پناہ اضافہ، گلوبل وارمنگ ، مکھیوں کی افزائش کئی گنا بڑھ جائے – لیکن یہ ننھا خاکروب اس سب کا بروقت علاج کرتا ہے- خاکروب بھنورا ایسا سخت جان ہے کہ صحرا ہو یا میدانی علاقہ، سردی ہو یا گرمی، انٹارکٹکا کے علاوہ ہر جگہ پایا جاتا ہے- اپنے وزن سے ۲۵۰ گنا فضلہ ایک رات میں باسانی ٹھکانے لگا سکتا ہے- یہ پہیے کے اصول سے واقف ہے – فضلے کی ایک گیند بنا کر اس لڑھکاتے ہوئے  مطلوبہ نرم جگہ تک لے جاتی ہے جہاں یہ  خاکروب گھدائی کرکے فضلے کو ٹھکانے لگاتے ہیں-  دنیا کی زراعت  اور قدرتی جنگلات میں بارش اور پانی کے بعد اگر کسی چیز کا سب سے بڑا کردار ہے تو وہ یہ ننھے خاکروب ہی ہیں-  یہ زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرتے ہیں – قدیم مصری اس کی اسی وجہ سے پوجا بھی کرتے تھے – ان کا خیال تھا کہ اسی شکل  کا  ایک دیوہیکل کیڑا سورج کو روز لڑھکا کر دفن کرتا ہے اور روز سورج کا دیوتا سورج کو دوبارہ زندگی دیتا ہے-    

 اب ذرا ایک لمحے کے لئے یہ سوچیں کہ یہ خاکروب بھنورا اپنا کام چھوڑ کر شہد کی مکھیوں کے کام کا معائنہ کرنا شروع کردے تو کیا ہوگا- یا فرض کریں کہ اگر شہد کی مکھیوں میں کوئی وبا پھیل جائے  اور بھالووں کے لئے شہد کی قلت ہوجائے تو کیا خاکروب کیڑے شہد کی مکھی کا کام سنبھال سکتے ہیں؟

یا ا گر خاکروب کیڑے کسی وبا کی وجہ سے مرنے لگیں  اور شہد کی مکھیاں ان کے کام کا معائنہ کرنا شروع 

کردیں؟  شہد کی مکھیوں کی اعلی انجنئیریگ خاکروب کیڑوں کے کسی کام نہ آئے گی-

اب  ذرا فرض کریں کہ  سرکاری ہسپتال میں عوام کے ٹیکس سے تنخواہ لینے والا ڈاکٹرسینکڑوں مریضوں کو چھوڑ
 کر سڑکوں کے معائنے کے لئے نکل کھڑا ہو اور یہ کہے کہ تمام شہریوں کو  صاف ستھری سڑکوں کے ساتھ ساتھ صاف پانی بھی مہیا کرے گا؟   یا ایک وزیرِ اعظم جس کی اپنی میز پر سینکڑوں نہیں ہزاروں فائلیں دھری ہو ں وہ   انتظامی امور چھوڑ کر عدالت میں مقدموں کی سماعت شروع کردے تو کیا ہوگا؟  انتظامیہ کا تو بیڑا غرق ہو ہی ہی جائے گا لیکن انصاف کا    جنازہ نکل جائے گا-   یا ایک فوجی جنرل ملک کا دفاع مضبوط کرنے کی بجائے نت نئے ڈاکٹرائن گھڑنے لگے تو ملک کی سرحدوں کا اللہ ہی حافظ ہے-

عدالتوں میں اٹھارہ لاکھ مقدمے زیرالتوا ہیں اور سپریم کورٹ میں تیس ہزارسے زیادہ مقدمات محترم جج صاحبان کی توجہ کی بھیک مانگ رہے ہیں- چیف جسٹس کا کام توعدالت میں بیٹھ کر انصاف کرنا ہے لیکن اگر وہ ہسپتالوں کے دورے کرتے رہیں گے تو صحت ، صاف پانی  دستیابی تو دور کی بات ہے  ، نا انصافی کا فضلہ دن  بدن بڑھتا رہے گا- یہ فضلے پہلے ہی اتنا زیادہ ہے کہ کچہری جانے  کے تصور سے ہی  شریف آدمی کے اوسان  اور وضو دونوں خطا ہوجاتے ہیں-

بخدا میں اپنے ملک کے اداروں کے سربراہوں کو گوبر کے کیڑے یا خاکروب سے تشبیہ نہیں دے رہا کیوں کہ ایسے القابات صرف اور صرف عام شہریوں   اورانکے نمائندوں کے لئے محفوظ رہنے چاہئیں –  تقسیم کار کے اصو ل پر کار جہاں استوا ر ہے- اسی سے فطرت اپنی رنگینیاں  دکھاتی اور قومیں ہوش ربا ترقی کرتی نظر آتی ہیں-   لیکن جو بات ایک خاکروب کیڑے ، شہد کی مکھی یا ہم ایسے گرے پڑے لوگوں کو بھی سمجھ  آرہی ہے وہ علم و دانش کےان میناروں کو کیوں نہیں آتی؟