سائنس

خلاباز لانچ پیڈ پر پریشان کیوں ہو جاتے ہیں؟

Share

یہ 26 جون سنہ 1984 کا دن ہے۔ مشن سپیشلسٹ مائیک مولین، سپیس شٹل ڈسسشد/کوری کے کاکپِٹ میں صوفے پر دراز ہیں۔ سپیس شٹل پروگرام کی یہ 12ویں پرواز ہے مگر خلائی گاڑی ڈسکوری اور خلاباز مولین کی پہلی۔ یہ جدید خلائی گاڑی بالکل نئی نویلی ہے۔ کسی خراش سے پاک اس کی بیرونی سطح چمک رہی ہے اور اندر تمام سکرینیں اور بٹن بالکل صاف شفاف ہیں۔

مولین امریکی ایئر فورس کے اس جنگی بیڑے کا حصہ تھے جس نے ویتنام کی جنگ میں حصہ لیا تھا۔ وہ شٹل پر کام کرنے والے پہلے ملازمین میں شامل ہیں۔ اس مشن کے لیے انھوں نے چھ برس تک تربیت حاصل کی ہے۔ مگر وہ مشکل ہی سے سو پائے یا ناشتے میں کچھ کھا پائے۔ انھوں نے احتیاطاً زندگی کا بیمہ بھی کروایا ہے اور تین الگ الگ بیمہ پالیسیاں خرید رکھی ہیں۔

گذشتہ روز آخری 20 منٹ کے دوران کمپیوٹر کی خرابی کے سبب لانچ کی کوشش ترک کیے جانے کے بعد عملہ امید و بیم کی کیفیت سے دو چار ہے۔ چھ خلابازوں میں سے صرف کمانڈر ہینک ہارٹسفیلڈ نے اس سے قبل خلائی سفر کیا ہے۔ باقی سب کو، جن میں دوسری امریکی خاتون خلاباز جوڈی ریسنِک بھی شامل ہیں، یہ اعزاز پہلی مرتبہ حاصل ہو رہا ہے۔

مولین نے مجھے بتایا: ‘کاکپِٹ کے اندر مجھ پر دو طرح کے احساسات حاوی ہوئے۔ ایک موت کا خوف تھا، آپ جان کے جانے کا خطرہ محسوس کرتے ہیں، مگر دوسرا احساس لا متناہی مسرت کا تھا کیونکہ کسی بھی خلاباز کے لیے خلا میں اڑان بھرنا ایک دیرینہ خواب کی تکمیل ہوتی ہے۔’

اپنی خود نوشت میں مولین لکھتے ہیں کہ ان کی خواہش تھی کہ اگر شٹل کو پھٹنا ہی ہے تو وہ 50 میل اوپر جا کر پھٹے تاکہ انھیں سرکاری طور پر تسلیم شدہ ایک خلاباز کی حیثیت سے موت آئے۔

ڈسکوری
سب سے پہلے ریٹائر ہونے والی سپیس شٹل یا خلائی گاڑی ڈسکوری تھی

جب الٹی گنتی دس سیکنڈ تک پہنچی اور راکٹ میں ایک ہزار پاؤنڈ ایندھن چڑھا دیا گیا تو مولین کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ چھ بجے انجن بیدار ہو گئے۔ ڈسکوری لانچ پیڈ کے شکنجے سے نکلنے کو بیتاب تھی۔

صرف راکٹ سے بندھے دو راکٹ بوسٹروں کے اندر آگ لگنا باقی تھا جس کے بعد واپسی کا کوئی امکان نہ رہتا۔ خلا بازوں کو معلوم تھا کہ اگر کچھ گڑبڑ ہوئی تو شٹل سے نکلنے اور آگ کے شعلوں سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘آپ کو ایک ایسے راکٹ میں بیٹھے ڈر تو لگتا ہے جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہو، مگر ساتھ ہی یہ اطمینان بھی ہوتا ہے کہ کئی لوگوں نے اس مشین کو محفوظ بنانے کے لیے وہ سب کچھ کیا ہے جو انسانی بس میں ہے۔’

اور پھر آخری گھنٹی بجتی ہے

خلابا‍‍‍زوں کے اہل خانہ لانچ پیڈ سے پانچ کلومیٹر دور لانچ کنٹرول سینٹر کی چھت پر بیتابی سے یہ منظر دیکھ رہے ہیں۔ اچانک ایک جھماکا ہوا اور ایسا لگا جیسے لانچ پیڈ کو شعلوں نے اپنی لیپٹ میں لے لیا ہو۔

انجن کے خاموش ہوتے ہی کاکپٹ کے اندر ارتعاش ختم ہو گیا مگر راکٹس کا کیا بنا؟ اگر راکٹ میں ایندھن جل اٹھا تو خلائی گاڑی پھٹ جائے گی۔

مولین کہتے ہیں ‘مجھے نہیں معلوم کہ کتنے لمحوں کے بعد، مگر میں نے مواصلاتی نظام پر سنا کہ گاڑی کے نیچلے حصے میں آگ لگ گئی ہے۔ ہماری توجہ اس حقیقت کی جانب مبذول ہوگئی کہ ہم ایک ایسے راکٹ پر بیٹھے ہوئے ہیں جس میں 40 لاکھ پاؤنڈ ایندھن بھرا ہوا ہے۔’

ناسا
‘کرؤ ڈریگن سپیس ایکس’ مئی میں خراب موسم کی وجہ سے اڑان نہیں بھر سکی تھی

لانچ کنٹرول سے پیغام آیا کہ خلائی گاڑی کے ایک جانب ہائیڈروجن کی آگ پہنچ سکتی ہے لہذا عملہ چوکنا بیٹھے اور اگلی ہدایات کا انتظار کرے۔ شٹل پر ہر چہار طرف سے پانی برسنے لگا۔ بالآخر عملہ گاڑی سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ بھیگے ہوئے خلاباز افسردہ تھے مگر اپنی کیفیت کا اظہار کیمروں کے سامنے نہیں کیا۔ خلا میں جانے کے لیے اب انھیں کسی اور دن کا انتظار کرنا تھا۔

خلائی پرواز کے لیے چھ برس تک انتظار کرنے کے بعد مولین اب کچھ اور انتظار بھی کر سکتے تھے۔ بالآخر تین ماہ بعد چوتھے لانچ پر ڈسکوری زمین سے نکل کر آٹھ منٹ کے بعد اپنے مدار میں داخل ہوگئی ہے۔

مولین بتاتے ہیں کہ ‘جب گاڑی کو زمین پر جمانے والے بولٹ ٹوٹ گئے اور راکٹوں میں آگ جل اٹھی تو اس وقت شدید شور اور ارتعاش پیدا ہوا۔ جیسے ہی کشش ثقل کو رد کرنے والی قوت پیدا ہوتی ہے تو آپ کو لہریں سی اٹھتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں جیسے آپ ہوا میں ہاتھ چلا رہے ہوں۔ پھر جب بوسٹر الگ ہو جاتے ہیں تو بالکل خاموشی اور سکون چھا جاتا ہے۔’

سپیس شٹل کے پروگرام سے ثابت ہوگیا ہے کہ خلائی سفر کبھی معمول کی بات نہیں بن سکے گا
سپیس شٹل کے پروگرام سے ثابت ہوگیا ہے کہ خلائی سفر کبھی معمول کی بات نہیں بن سکے گا

مگر اس بار بھی ڈسکوری حادثے سے بال بال بچی تھی۔ جو بات عملے کے علم میں نہیں تھی وہ یہ ہے کہ جب راکٹ بوسٹروں میں ایندھن جلایا گیا تو وہ فیل ہونے لگے۔ اور گرم گیس نے راکٹ کے حصوں میں داخل ہو کر ربڑ کی سیلوں کو پگھلانا شروع کر دیا تھا۔ اگر چند منٹ اور یہ ہی حال رہتا تو بوسٹر پھٹ جاتے اور خلائی گاڑی تباہ ہو جاتی۔

صرف 18 ماہ بعد ایسی ہی خرابی کی وجہ سے چیلنجر تباہ ہوگئی تھی جس میں جوڈی ریسنِک سمیت سات خلاباز ہلاک ہوگئے تھے۔

1988 میں مولین کے دوسرے مشن کے دوران سپیس شٹل میں ایک اور نقص کا انکشاف ہوا۔

زمین سے بلند ہونے کے بعد ایک بوسٹر راکٹ کی نوک الگ ہو کر خلائی گاڑی کے مرکزی حصے کے اندر گھس گئی۔ کنٹرول روم نے مدار میں عملے کو یقین دہانی کروائی کہ مسئلہ بڑا نہیں اور پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ مگر زمین پر موجود انجنیئر اس نقصان کے بارے میں بہت زیادہ پریشان تھے۔

اگر یہ ٹکڑا خلائی گاڑی کے کسی دوسرے حصے کو نقصان پہنچاتا تو مولین اور ان کے ساتھی ہلاک ہو چکے ہوتے۔ سنہ 2003 میں سپیس شٹل کولمبیا کے حرارت روکنے والے ٹائلز کو جب نقصان پہنچا تو فضا میں واپس آنے کی کوشش میں وہ تباہ ہوگئی اور اس پر سوار سات خلا باز جان سے گئے۔

سپیس شٹل بناتے وقت خیال تھا کہ ہر چند ماہ بعد مدار میں جانا ایک معمول کی بات ہوگی۔ مگر چیلنجر اور کولمبیا کے حادثوں کے بعد یہ خیال غلط ثابت ہوا اور پتا چلا کہ ہر پرواز ہی ایک آزمائشی پرواز ہو گی۔ ان سانحات نے ناسا کے حفاظتی اور انتظامی طریقۂ کار میں موجود مشکلات کو بھی اجاگر کیا۔

یکے بعد دیگرے مشنوں کے بعد یہ بات سامنے آئی کے مدار میں پہنچنے کے بعد خلائی گاڑی بالکل ٹھیک طور پر کام کرتی رہی ہے۔ اس نے ہبل خلائی دور بین کے لانچ اور مرمت، انٹرنیشنل سپیس سٹیشن کی تعمیر اور کئی دوسری ایجادات میں اہم کردار ادا کیا۔ مگر اس کے ڈیزائن میں سب سے بڑی خرابی اس کا لانچ کے وقت ایک بہت بڑے فیول ٹینک اور دو بوسٹروں سے جڑا رہنا، اور حادثے کی صورت میں اس کے اندر بیٹھے خلابازوں کے بچ نکلنے کے لیے راستے کا نہ ہونا تھا۔ اسی سبب سے ہر بار لانچ کرنے کا مرحلہ سب سے زیادہ خطرناک ہوتا تھا۔

سپیس شٹل

امریکہ سے آخری بار خلائی شٹل روانہ ہونے کے نو برس بعد اس بار پھر امریکی خلابازوں کو تاخیر کی وجہ سے مایوسی کے کرب سے گزرنا پڑا۔

مگر سپیس ایکس کی ڈریگن خلائی گاڑی، شٹل سے بہت مختلف ہے۔ اس کی تعمیر میں جدید علم اور ساز و سامان کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس میں لانچ کے وقت کسی حادثے کی صورت میں خلابازوں کے بحفاظت نکلنے کا خاص اہتمام کیا گیا ہے۔

اس کے باوجود کریو ڈریگن کا لانچ ایک آزمائشی پرواز ہی تھی اور اس کے عملے میں شامل خلاباز باب بینکین اور ڈاؤگ ہرلے کو، جو شٹل پر بھی کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں، لانچ کے خطرات اور تاخیر سے پیدا ہونے والی مایوسی کا بخوبی اندازہ ہو گا۔

مولین کا کہنا ہے: ‘میں فالکن راکٹ کے اوپر نصب ڈریگن کیپسول میں بیٹھ کر زیادہ آرام دہ محسوس کرتا۔ پھر بھی مجھے یقین ہے کہ وہاں بیٹھے خلابازوں کے محسوسات وہی ہوں گے جو خلائی پروگرام شروع ہونے کے بعد سے کسی بھی خلا نورد نے محسوس کیے ہوں گے۔ سب ہی لوگ تقریباً ایک جیسا ہی محسوس کرتے ہیں چاہے راکٹ کوئی بھی ہو۔’

مولین نے اپنا آخری مشن سنہ 1990 میں مکمل کیا تھا جس کے بعد جلد ہی انھوں نے ناسا کو چھوڑ دیا تھا۔ مگر ان کی خواہش ہے کہ ایک مرتبہ پھر وہ کاکپٹ میں بیٹھ کر لانچ کے وقت کی دہشت اور لا متناہی مسرت کو محسوس کریں۔ وہ کہتے ہیں: ‘خلائی سفر شروع کرنے والوں پر مجھے رشک آتا ہے۔’