کالم

خواتین ڈرائیورز اور حقوقِ مرداں

Share

خواتین ڈرائیورز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ آسمانی ستاروں کی طرح ہوتی ہیں کہ ہم تو انہیں دیکھ سکتے ہیں لیکن وہ ہمیں نہیں دیکھ سکتیں۔ذاتی طور پر میں خواتین کی ڈرائیونگ سے بے حد متاثر بلکہ متاثرہ ہوں۔ ڈرائیونگ کے حوالے سے میں خواتین کی بے پناہ صلاحیتوں سے بخوبی و ” مضروبی“ واقف ہوں ۔سڑک پر گاڑی چلانے کے حوالے سے ان قابل احترام خواتین کے ساتھ سرِراہ اتنی بار مُڈبھیڑ ہو چکی ہے کہ ڈرائیونگ اور بحث میں ان کی بے مثال”مہارتوں“ کا ایک عرصے سے قائل ہوں ۔ وہ کہتے ہیں کہ دودھ کا جلا چھاچھ کو بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ لہذا اب نوبت ایں جا رسید کہ میں جب بھی کہیں دور سے کسی معزز خاتون کو ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان آتا ہوا دیکھتا ہوں تو احتراماً فوری طور پر گاڑی کو سڑک کے ایک طرف بلکہ گنجائش ہو تو کچے میں اُتار لیتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ڈرائیور خواتین کے احترام اور اپنی حفاظت کا اس سے بہتر اور موثر طریقہ کوئی اور نہیں ہے۔اس خاکسار کی رائے میں خواتین محترم کے سفر کے لیے سڑکوں کی بجائے بڑے بڑے وسیع وعریض گراؤنڈز تیار کیے جائیں اور خواتین کو کہیں بھی جانے کے لیے انہی گراؤنڈز کو بطور سڑک استعمال کرنے کا کہا جائے۔ میرا خیال ہے کہ اگرچہ اس اقدام سے حادثات بالکل ختم تو نہیں ہو ں گے البتہ اُن کی شرح میں ایک دو فیصد کمی ہونے کا کافی امکان ہے۔اس حوالے سے ایک اور تجویز یہ بھی ہے کہ وطنِ عزیز کی سڑکوں پر صرف خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت ہو نی چاہیئے۔اس طرح کم از کم باقی خواتین کو بھی پتہ چل جائے گا کہ وہ کیسی ڈرائیونگ کر رہی ہیں۔
خواتین کا کمال یہ ہے کہ وہ ڈرائیونگ کرتے کرتے کئی دوسرے کام بھی بخوبی انجام دے رہی ہوتی ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس دوران ہر کام بڑی مہارت سے کر رہی ہوتی ہیں سوائے ڈرائیونگ کے! ایک ایسی ہی خاتون محترمہ نے ایک دفعہ اپنی گاڑی آگے جاتی گاڑی میں دے ماری۔ نیچے تشریف لائیں اور حسبِ معمول جھگڑا شروع کر دیا۔متعلقہ ٹریفک آفسیر وہاں پر آیا اور اُس نے حالات کا جائزہ لینے کے بعد خاتون موصوفہ سے پوچھا، ”کیا یہ درست ہے کہ حادثے کے وقت آپ ایک ہاتھ سے ”آئی لائینر“ استعمال کر رہیں تھیں۔“ اس خاتون نے پورے اعتماد سے کہا،”جی! یہ بات درست ہے۔۔اور وہ اس لیے کہ میرے دوسرے ہاتھ میں کافی کا مگ تھا“ ۔ اس پر اس ٹریفک آفیسر کو جھٹکا لگا اور اُس نے اپنا سر پکڑ لیا۔ خاتون نے اپنی بات جاری رکھی اور ہمدردی حاصل کرنے کے لیے کہا،” یوں میرے دونوں ہاتھ مصروف تھے اور عین حادثے کے وقت میں نے اپنا موبائل فون بڑی مشکل سے اپنے کان اور کندھے کے درمیان پھنسایا ہوا تھا جس پر بڑی ضروری کال سُن رہی تھی۔لیکن پتہ ہے کیا ہوا !! جیسے ہی ٹکر ہوئی کندھے پر رکھا ہوا میرا موبائل فون اُچھل کر کافی کے مگ میں جا گرا۔ جس سے ایک طرف مہنگے موبائل کا ستیانا س ہو گیا تو دوسری طرف کافی گرنے سے گاڑی کی نئی پوشش تباہ ہوگئی جو میں نے اسی مہینے کروائی تھی۔“خاتون کی دکھ بھری بپتا سنتے ہوئے دوسرے صاحب ہاتھ میں ٹوٹی ہوئی قیمتی بتی پکڑے سوچ رہے تھے کہ اُن دونوں میں سے زیادہ مظلوم کون ہے۔
خواتین کی ڈرائیونگ اور اس کی وجہ سے پیش آمدہ حادثات سے یقینا بعض لوگوں کو پریشانی ہوتی ہوگی لیکن ان سے کئی لوگوں کو فوائد بھی حاصل ہورہے ہیں۔مثلاً ان کے دم سے آٹو مکینکس اور آٹوورکشاپ وغیرہ جیسے کاروبار آبا رہتے ہیں۔اور یوں یہ خواتین ملکی معیشت کی بڑھوتری میں اپنا حصہ متواتر ڈالتی رہتی ہیں۔مذید برآں اپنی دکان سر پر اُٹھائے موٹر سائیکل پر گھومنے والے کئی آٹو مکینکس کی روزی روٹی بھی انہی کے سبب سے چل رہی ہے۔ بلکہ ایک ایسے ہی مکینک صاحب بتا رہے تھے کہ وہ تین چار خواتین کو جانتے ہیں جن میں سے کوئی ایک دو بھی کسی روز گاڑی لے کر باہر نکلیں تو عموماً اُن کی دیہاڑی لگ جاتی ہے۔ایک اور بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہماری پولیس کو Conflict Resolution کے متعلق جو تربیت فراہم کی جاتی ہے اُس کے عملی مظاہرے کے مواقع بھی یہی خواتین فراہم کرتی رہتی ہیں۔ علاوہ ازیں! حادثے کے بعد ہونے والی’علمی‘ بحث اور’فکری‘ مکالمے کے ذریعے عوام الناس کو اکثر ”آن جاب ٹریننگ“ کی سہولت بھی میسّر رہتی ہے۔ ایسے ”مباحث“ میں قوم کو سکھایا جاتا ہے کہ کسی دلیل اور ثبوت کے بغیر اپنے مؤقف پر ناصرف ڈٹے رہنا بلکہ اسے ثابت کرکے چھوڑنا کیسے ممکن ہے۔اگرچہ یہی کام ہمارے ”ٹاک شوز“ بھی بڑی خوش اسلوبی سے انجام دے رہے ہیں۔لیکن جس شدّت اور خلوص کے ساتھ اس کا عملی مظاہرہ ہماری سڑکوں پر ہوتا ہے اس کا بہرطور کوئی مقابلہ نہیں۔
خواتین کی ڈرائیونگ کے حوالے سے کسی متاثرہ شخص نے دل کو چھو لینے والی بات کہی ہے کہ اگر آپ کے آگے کوئی خاتون ڈرائیو کرتے ہوئے جا رہی ہو اور وہ بائیں مڑنے کا اشارہ دے تو محتاط ہو جائیں ہو سکتا ہے کہ وہ بائیں ہی مڑ جائے۔ایک سٹڈی کے مطابق وہ حادثات جو خواتین ڈرائیورز کی وجہ سے پیش آتے ہیں بہت زیادہ خطرناک یا مہلک نہیں ہوتے۔یہ بات درست ہے کہ ایسے حادثات اتنے مہلک نہیں ہوتے لیکن یہ عموماً خوفناک اور گھمبیر لڑائیوں کا سبب بن جاتے ہیں۔ ہمارے ایک بے حد شریف النفس دوست فرمایا کرتے ہیں کہ زندگی بھر اُن کا کسی سے جھگڑا نہیں ہوا تھا اور پھر ایک روز بیگم نے گاڑی سیکھنے اور چلانے کا فیصلہ کر لیا چنانچہ اب روز جھگڑوں کی نوبت رہتی ہے۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ اب انہوں نے ایک معمول بنا لیا ہے کہ جیسے ہی بیگم گاڑی لے کر باہر نکلتی ہیں تو وہ دوسری گاڑی پر تھوڑے فاصلے سے فالو کرتے رہتے ہیں اس کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ جائے حادثہ پر نسبتاً جلدی پہنچ کر صورتِ حال کو زیادہ خراب ہونے سے بچا لیتے ہیں۔
ایک چیز اور مشاہدے میں آئی ہے کہ ٹریفک کے حوالے سے خواتین کی حادثاتی ٹکریں عموماً مردوں کے ساتھ ہی ہوتی ہیں۔چشمِ فلک نے شاید یہ منظر بہت کم دیکھا ہو کہ کسی ٹریفک حادثے میں ’مدعی‘ اور’ملزم‘ دونوں خواتین ہوں۔چنانچہ یہ حسرت ہی رہی کہ کسی روز کسی خاتون کی ٹکر شکر کسی دوسری خاتون کے ساتھ ہو اور اُس کے بعد دو معزّز خواتین کی علمی گفتگو سے ہم بھی مستفید ہوں۔بعض سیانوں کا کہنا ہے کہ افسران کے آگے سے اور گھوڑوں وغیرہ کے پیچھے سے نہیں گزرنا چاہیئے۔تقریباًایسے ہی کچھ دیگر سیانوں کا کہنا ہے کہ اگر معزّز خواتین ڈرائیونگ کر رہی ہوں تو بہتر ہے کہ آگے پیچھے دائیں بائیں کہیں سے بھی نہ گزرا جائے۔ایک ایسے ہی بظاہر لاپرواہی کرنے والے زخمی شخص کو جب ہسپتال لایا گیا تو ڈاکٹر نے اُس سے پوچھا کہ جب تمہیں پتہ چل گیا تھا کہ ایک خاتون ڈرائیوکر کے آ رہی ہیں تو تم سڑک سے ذرا سائیڈ پر ہو جاتے۔اس پر اُس زخمی بے چارے نے ڈاکٹر سے عرض کیا ، ”حضورِ والا! کونسی سڑک !! میں تو پارک میں سویا ہوا تھا۔“