منتخب تحریریں

خوبصورت پاکستان کو بدصورت بنانے والے

Share

صبح گھر سے نکلیں تو چاروں طرف فقیر ہی فقیر نظر آتے ہیں، کوئی اپنی ٹِنڈ دکھا کر بھیک مانگتا ہے، کوئی کسی کم سن بچی کے کاندھے پر ہاتھ رکھے، کالی عینک لگائے آپ کے سامنے ہاتھ پھیلا دیتا ہے، کوئی گڑگڑاتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوجاتا ہے، کوئی زمین پر گھسٹتا ہوا آتا ہے اور بھیک کا طالب ہوتا ہے، کئی عورتیں بڑی بوڑھیوں والا برقع پہنے اپنے جوان بازو آپ کے سامنے پھیلا دیتی ہیں، کئی بچے ایک میلا سا کپڑا آپ کی کار کی اسکرین کے ساتھ لگا کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور آنکھوں ہی آنکھوں میں بھیگ مانگتے ہیں۔ کچھ نے ہاتھ میں ایکسرے پکڑا ہوتا ہے اور دوا کے لئے پیسے طلب کررہے ہوتے ہیں، کسی مسافر کی جیب کٹی ہوتی ہے اور وہ اپنے گاؤں تک کا کرایہ مانگ رہا ہوتا ہے، کوئی آپ سے موٹر سائیکل یا کار پر لفٹ مانگتا ہے اور دوران سفر اپنی درد کی داستان سنا کر خیرات کا طالب ہوتا ہے، کوئی بچہ اپنا خوانچہ سڑک پر الٹا دیتا ہے جس میں بسکٹ وغیرہ ہوتے ہیں اور سڑک کے کنارے بیٹھ کر رونا شروع کر دیتا ہے اور یوں لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرکے ان سے مدد لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ کوئی گھر کی گھنٹی بجاتا ہے اور آپ باہر آتے ہیں تو وہ آپ کے سامنے ہاتھ پھیلا دیتا ہے۔ کوئی کاندھوں پر کدال رکھے آپ کے پاس آتا ہے کہ گاؤں سے مزدوری کے لئے آیا تھا لیکن مزدوری نہیں ملی، کوئی پورے کنبے کو ساتھ لئے پھرتا ہے کہ یہ صبح سے بھوکے ہیں، ان کیلئے ایک وقت کی روٹی کے پیسے دے دیں۔

یہ بھیک مانگنے والے آپ کو صرف گلیوں اور بازاروں ہی میں نظر نہیں آتے یہ لوگ زندگی کے مختلف شعبوں میں موجود ہیں اور اپنے اپنے انداز میں بھیک مانگتے ہیں۔ یہ فقیر آپ کو سرکاری دفتروں میں بھی مل جاتے ہیں اور آپ سے فائل کا پہیہ چلانے کیلئے نوٹ مانگتے ہیں، یہ فقیر دانشوروں میں بھی موجود ہیں۔ اس طبقے کے افراد اخبارات کے دفاتر میں بھی پائے جاتے ہیں۔ بھکاریوں کی کثیر تعداد نام نہاد مشائخ میں بھی موجود ہے، انہیں خفیہ فنڈ سے بھیک ملتی ہے، کچھ لوگ دوست اور دشمن ممالک سے بھیک وصول کرتے ہیں، محکمہ خارجہ اور اکنامک ڈویژن کے پالیسی ساز بھی امریکہ کے بھکاری ہیں۔ انہیں بہت سائنسی طریقے سے بھیک دی جاتی ہے اور یہ اتنے ہی سائنسی طریقے سے پاکستان کی خارجہ اور معاشی پالیسیاں پاکستان کی بجائے امریکہ کے مفاد میں تیار کرتے ہیں۔ وزیر، مشیر اور مقتدر طبقے کے ارکان بھی بھکاریوں میں شامل ہیں۔ یہ بڑے بڑے سودوں میں اپنی بھیک بطور کمیشن وصول کرتے ہیں یہ تو وہ طبقہ ہے جو گنے کی ایک پور کے لئے کماد کا پورا کھیت اجاڑ دیتا ہے، ان کے بچے امریکہ میں امریکہ کے خرچ پر پڑھتے ہیں، ان کی بیویاں امریکہ میں امریکہ کے خرچ پر شاپنگ کرتی ہیں اور یہ خود امریکہ کے خرچ پر پاکستان خرچ کر دیتے ہیں، یہ لوگ محب وطن بھی کہلاتے ہیں۔

بھیک مانگنے والوں میں کئی ایم پی ایز اور ایم این ایز بھی شامل ہیں، یہ وزارتوں، ٹھیکوں اور قرضوں کی بھیک مانگتے ہیں، کوئی سیاسی بحران پیدا ہو تو حکومت یا اپوزیشن سے کروڑوں کے بدلے اپنا ضمیر فروخت کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ شاید اس لئے ایک صاحب زر نے کہا تھا کہ موجودہ اسمبلی کی قیمت چند ارب روپے سے زیادہ نہیں، بہرحال ان اسمبلیوں میں سب نہیں کچھ فقیر ایسے ہیں جو حکومتیں بنانے اور گرانے کے لئے دست طلب اور زبان طمع دراز کرتے ہیں اور اپنے ساتھ اپنے ساتھیوں کو بھی بدنام کرتے ہیں۔ بھیک مانگنے والے صاحبان حزبِ اختلاف میںبھی ہیں، یہ الیکشن کے دنوں میں ووٹوں کی بھیک مانگتے ہیں جب اس بھیک کے نتیجے میں انہیں حکومت ملتی ہے تو یہ بائیس کروڑ عوام کو بھکاری بنادیتے ہیں، انہیں آٹے اور چینی جیسی بنیادی ضرورتوں کے حصول کے لئے بھی لٹیروں کو ڈبل قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ ان کے ہاتھوں میں نوکریوں کی درخواستیں تھما دی جاتی ہیں جو ان کی زبانوں میں ہکلاہٹ پیدا کر دیتی ہیں، اتنی خوبصورت قوم کو بدصورت بنانے والے جب قیامت کے روز اللہ کے حضور پیش ہوں گے تو کیا ان کا اقتدار ان کی پیشانیوں پر داغ نہیں دیا جائے گا؟ قوم کو بھکاری بنانے والے یہ لوگ قوم کو قومی ہی نہیں بین الاقوامی بھکاری بھی بناتے ہیں۔ جب کوئی اللہ کا بندہ یہ کشکول توڑنے کا عزم کرتا ہے تو امریکہ کی بھیک پر پلنے والے طبقے اپنے آقاؤں سے مل کر اس کے خلاف سازش کرتے ہیں۔ بھکاری سیاستدانوں، بھکاری مولویوں، بھکاری صحافیوں اور بھکاری دانشوروں کا تعاون حاصل کرتے ہیں اور اسے اٹھا کر اقتدار سے باہر پھینک دیتے ہیں تاکہ ملک کا نقشہ آقاؤں کے دیے ہوئے نقشے سے تبدیل کردیا جائے۔

سو مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ یہ جو ہمیں ہر طبقے میں فقیر ہی فقیر نظر آتے ہیں، یہ فقیر ہیں کہ میر جعفر اور میر صادق؟ اگر یہ میر جعفر اور میر صادق ہیں تو پھر یہ ہم لوگوں میں حب الوطنی کی سندیں کس حیثیت سے بانٹتے ہیں اور ہم ان سے یہ سندیں کس حساب میں وصول کرتے ہیں؟