دفتر خارجہ کی سابق کینیڈین وزیر کے پاکستان سے متعلق بیان کی مذمت

اسلام آباد: دفتر خارجہ نے سابق کینیڈین وزیر کے ریمارکس پر سخت اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا بیان افغان امن عمل کی سمجھ کے فقدان کے ساتھ ساتھ زمینی حقائق سے لاعلمی ظاہر کرتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایک ٹوئٹ میں دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ 'ہم سابق کینیڈین وزیر کرس الیگزینڈر کی جانب سے افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار سے متعلق بے بنیاد اور گمراہ کن دعوؤں پر مشتمل غیر ضروری تبصرے کی شدید مذمت کرتے ہیں'۔
We strongly condemn the unwarranted comments by former Canadian Minister Chris Alexander, making unfounded & misleading assertions about 🇵🇰’s role in #AfghanPeaceProcess. Such remarks betray a complete lack of understanding of the issue as well as ignorance of facts on ground.1/3
— Spokesperson 🇵🇰 MoFA (@ForeignOfficePk) August 1, 2021
دفتر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح کے ریمارکس معاملے کی سمجھ کے مکمل فقدان اور زمینی حقائق سے لاعلمی ظاہر کرتے ہیں'۔
خیال رہے کہ ایک ٹوئٹر پیغام میں کرس الیگزینڈر نے کہا تھا کہ طالبان جنگجو پاکستان سے سرحد پار کر کے افغانستان میں داخلے کا انتظار کر رہے ہیں، جو بھی اب تک اس بات کی نفی کر رہا ہے کہ پاکستان، افغانستان کے خلاف جارحیت کے عمل میں مصروف ہے وہ جنگی جرائم اور پراکسی وار میں ملوث ہے۔
Taliban fighters waiting to cross the border from Pakistan to Afghanistan: anyone still denying that Pakistan is engaged in an ‘act of aggression’ against Afghanistan is complicit in proxy war & war crimes.#SanctionPakistan #EndProxyWar pic.twitter.com/2Nas7VhQBI
— Chris Alexander (@calxandr) August 1, 2021
ایک بیان میں ترجمان دفتر خارجہ نے بتایا کہ پاکستان نے مذکورہ معاملہ کینیڈین حکومت کے ساتھ اٹھایا ہے، ہم نے کینیڈین حکام پر زور دیا ہے کہ اس بدنیتی پر مبنی مہم سے نمٹنے کے لیے اقدامات اٹھائیں۔
ترجمان دفتر خارجہ نے افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم جو باتیں طویل عرصے سے کہہ رہے تھے بین الاقوامی طاقتوں نے انہیں سراہنا شروع کردیا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ 'اب جبکہ دنیا وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کو تسلیم کر رہی ہے کہ افغانستان کا کوئی عسکری حل نہیں ہے اور ایک جامع و وسیع البنیاد سیاسی تصفیے کی ضرورت ہے، ایسے میں اس قسم کا بلا ضرورت تبصرہ قابل افسوس ہے'۔