کالم

ریٹائرمنٹ

Share

یہ نئی پرانی کتابوں کی ایک چھوٹی سی دکان تھی میں حسبِ عادت کتابوں کی ونڈو شاپنگ میں مگن تھا۔ میرے بالکل ساتھ ہی لحیم شحیم اور بے تحاشہ تن و توش کے مالک ایک صاحب کھڑے میرے والا کام ہی کر رہے تھے۔ میں نے ایک کتاب اُٹھائی تو انہوں نے میری طرف دیکھا۔ پھر بڑی گھمبیر آواز میں بولے۔ ”بھئی واہ! کیا ذوق پایا ہے“۔ کیسی عمدہ کتاب اُٹھائی ہے میں نے بہت عرصہ پہلے پڑھ رکھی ہے۔بس یوں سمجھئیے مصنف نے قلم توڑ دیا ہے۔“ میں نے ورق گردانی کے لیے کتاب اُٹھائی تھی لیکن اُس ”انسان پلس“ نُما مخلوق نے جس جارحانہ انداز سے اس کتاب کی تعریف کی اور وہ بھی دکاندار کے سامنے، مجھے کتاب خریدنی پڑ گئی۔ اس سے پہلے کہ کوئی اور کتاب یوں میرے پیٹے پڑتی میں نے اس کتاب کی قیمت ادا کی اسے شاپنگ بیگ میں ڈلوایا اور نکلنے ہی والا تھا کہ اُن صاحب نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا اورمیرے قریب آنے لگے۔مجھے لگا کہ گوشت کا ایک پہاڑ میری طرف بڑھ رہا ہے۔ وہ مرحلوں میں میری طرف آ رہے تھے اُن کا کچھ حصّہ میرے پاس پہلے پہنچ گیا جب کہ باقی جسم قدرے دیر بعد پہنچا۔ وہ میرے قریب پہنچے تو مجھے اندازہ ہوا کہ انہیں ایک نظر میں مکمل دیکھنا ممکن نہیں تھا میرے خیال میں کوئی دو اڈھائی سو کلو وزن تو لازماً ہو گا۔ میرے قریب آ کر انہوں نے اپنا ہاتھ میرے کاندھے پر رکھا مجھے لگا جیسے سو کلو وزن میری طرف شفٹ ہو گیا ہے۔میں جیسے نیچے دبنے لگا۔ میں نے کتابوں کی ٹیبل کا سہارا لے کر بمشکل تمام اپنے آپ کو کھڑے رکھا۔ ”برخوردار ! کہاں ہوتے ہو ؟“ اُس ”جاپانی ریسلر“ کی بھاری بھرکم آواز مجھے سنائی دی۔ میرا دل کیا کہ انہیں بتاؤں کہ اس وقت تو کسی بلڈوزر کے نیچے ہوں۔ خیر! میں نے گھُٹی ہوئی آواز میں اپنی ملازمت اور شعبے کے متعلق بتایا۔ میری ملازمت کا جان کر اُن صاحب نے خوشی کا اظہار کیا اور بظاہر ایک قہقہہ لگایا لیکن مجھے لگا جیسے چھ سات ریکٹر سکیل کا بھونچال آگیا ہے۔قہقہہ وہ لگا رہے تھے لیکن میں سر سے پاؤں تک کانپ رہا تھا۔ بھونچال کی شدت میں قدرے کمی آئی تو وہ فرمانے لگے کہ وہ خود ایک سرکاری ملازمت سے گریڈ بائیس میں فلاں سیکرٹری کے طور پر ریٹائر ہوئے ہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ گریڈ بائیس کا ذکر کرتے ہوئے میرے کندھے پر اُن کی گرفت مذید مضبوط ہو گئی تھی۔ مجھے کہیں ضروری پہنچنا تھا اور جانا بھی جلدی تھا لیکن فی الحال’گرفتار ِ مروّت‘ ہونے کی بنا پر یہاں سے فوری نکلنے کا امکان نظر نہیں آرہاتھا۔انہوں نے دوبارہ اس کتاب اور میرے انتخاب کی تعریف سے بات شروع کی۔ اب تو میرے انتخاب پر مجھے باقاعدہ افسوس ہونے لگا تھا ۔ دو تین جملوں کے بعد ہی پہلے انہوں نے اپنے اعلیٰ ذوقِ مطالعہ اور پھر ساتھ ہی اپنی افسری اور مختلف تعیناتیوں کے قصّے شروع کر دیئے۔ اُن کی ہر بات کی تان اس پر ٹوٹتی تھی کہ آج اگر بیوروکریسی میں کچھ بہتری نظر آتی ہے تو اس میں اگر زیادہ نہیں تو کوئی نوے فیصد حصّہ اُن کا ہے۔ اُن کے مطابق اُن کے ورُود سے پہلے سول سروس کا نقشہ زمانہ قبل از تاریخ کے کسی جنگل بیابان سے زیادہ بہتر نہیں تھا۔ گفتگو طویل ہو رہی تھی ۔ بزرگوار کافی دیر باتیں کرتے رہے۔ پھر فرمانے لگے کہ برخوردار ایسا کرتے ہیں کہ کہیں بیٹھ کر بات چیت کرتے ہیں تو گویا پچھلے آدھے گھنٹے سے ہم باتوں کے علاوہ کچھ اور کررہے تھے۔میں نے جہاں پہنچنا تھا اس میں کافی تاخیر ہو چکی تھی اور اب وہاں پہنچنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا مزید بر آں اب مجھے یہ صاحب کئی حوالوں سے بہت منفرد اور خاصے دلچسپ لگ رہے تھے۔ سو میں نے بھی کہیں بیٹھ کر باتیں کرنے سے اتفاق کیا۔ موصوف نے دو کتابیں پسند کی تھیں اب ان کے لیے دکاندار سے جو بھاؤ تاؤ شروع ہوا تو اُن کا ایک نیا روپ میرے سامنے آیا۔ دکان دار جس قیمت کا تقاضا کر رہا تھا اور جو وہ دینے پر آمادہ تھے اس کے بیچ کوئی تیس چالیس روپے کا فرق تھا اور کم و بیش اتنے ہی منٹ اس مسئلے کے سُلجھانے میں لگے۔ موصوف کا روئے سخن جو اس دکاندار کی طرف ہوا تو اس بیچارے کو دن میں تارے نظر آنے لگے۔ وہ اسے مخاطب کر کے فرما رہے تھے کہ آجکل اگر مطالعہ میں کمی کا رجحان ہے تو اس کے ذمہ دار اس جیسے لوگ ہیں اُن کے مطابق صرف مطالعے میں کمی پر ہی کیا موقوف ہے غربت،بے روزگاری، جرائم میں اضافہ بد اخلاقی اور تہذیبوں کے تصادم جیسے مسائل انہی لوگوں کے پیدا کردہ ہیں اور پھر جب انہوں نے گرجتے ہوئے دکاندار سے پوچھاکہ کیا اسے پتہ ہے کہ سقوطِ ڈھاکا کا اصل سبب کون لوگ تھے تو دکاندار گھبرا گیا اور اس نے جلدی سے کتابیں ان کی پیش کردہ قیمت پر دے دیں۔دکان سے نکلے تو صاحب موصوف کا انداز بڑا فاتحانہ تھا۔ اب ہم چاہ رہے تھے کہ کسی قریب چائے خانے میں بیٹھ کر گپ شپ ماریں۔ لیکن لاہور میں اچھا چائے خانہ تلاش کرنا بھی ایسے ہی جیسے کسی صاحب دانش کو تلاش کرنا۔ہم اُن کی گاڑی میں بیٹھ گئے راستے میں کہیں سپیڈ بریکر پر ہلکا سا جمپ لگا تو ڈرائیور بیچارے کی شامت آگئی۔بزرگوار موصوف نے اس کی ناقص ڈرائیونگ پر اس کے شجرہ نسب کو دھر لیا۔ صاحب گفتگو کے دوران کوئی اٹھانوے فیصد انگریزی بولتے تھے اور باقی دو فیصد میں دوسری دو تین زبانیں البتہ گالی وہ صرف پنجابی میں دے رہے تھے۔ چائے خانہ پر چائے کا آرڈر دے کر ہم بیٹھ گئے۔صاحب نے ڈرائیور کو کوئی چیز لانے بازار بھیج دیا۔ اور پھر باتوں کا ایک نیادور شروع ہوا۔ انہوں نے اہم تعیناتیوں کی ایک طویل لسٹ گنوائی۔اور پھر ہر تعیناتی کی تفصیل بتاتے ہوئے واضح کرنے کی کوشش کی کہ وہ کس قدر اہم آفیسر تھے۔ انہیں غالباً ایک عرصے بعد کوئی بہتر سامع میسر آیاتھا۔ میں ایک سوال اُن سے پوچھنے کی کافی دیر سے کوشش کر رہا تھا لیکن موقع نہیں مل رہا تھا ایک مرتبہ وہ کہیں سانس لینے کو رکے تو مجھے موقع ملا اور میں نے اُن سے پوچھا کہ اپنی پینتیس سالہ سروس میں انہوں نے کسی غریب مسکین کی کوئی ایسی مدد کی ہو جو آج اُن کے لیے باعث تسکین ہو۔ وہ خاموش ہوگئے اور انہیں اپنے پینتیس سالہ سروس میں کسی ایک ایسے کام کی نشاندہی کرنے کے لیے کوئی پینتیس سیکنڈ لگے لیکن ایسا کچھ بھی انہیں یاد نہ آیا۔ پھر وہ جھنجھلا کر فرمانے لگے غریبوں کی مدد وغیرہ تو نچلے دفاتر کا کام ہوتا ہے ہم لوگ تو پالیسیاں بناتے تھے۔یہ بات تو انہوں نے کر دی تھی لیکن لگ رہا تھا کہ وہ پریشان ہو گئے ہیں اب ان کی گفتگو میں سکتے آنا شروع ہوگئے تھے۔ وہ بیچ میں رُک کر ایک دو لمحے توقف کرتے۔مجھے لگ رہا تھا کہ وہ ابھی بھی کوئی ایسا لمحہ، ایسا موقع تلاش کر رہے ہیں جب انہوں کسی کی مدد کر کے تسکین حاصل کی ہو۔ مجھے عباس تابشؔ یاد آ رہے تھے کیا پتے کی بات کی ہے۔۔۔۔گزر چکا ہے کم و بیش عرصہ ہستی کہیں کہیں کوئی لمحہ دکھائی دیتا ہے

لیکن انہیں ایسے کوئی لمحہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ڈرائیور وہ چیز لے کر آگیا جو انہوں نے منگوائی تھی اور ایک بار پھر اُن کا پارہ آسمان پر چڑھ گیا۔ مجھے کہنے لگے، ’ دیکھیئے! اس نالائق کو یہ بھی نہیں پتہ کہ مسٹرڈ پیسٹ کس کمپنی کا اچھا ہے۔ میں نے عرض کی، ”اس ضمن میں یہ اکیلا نالائق نہیں شاید ایک دنیا آپ کو اس جیسی ملے گی۔ اور دوسرا اس نے ڈرائیونگ کی تربیت لی ہے کسی شیف کی نہیں جو اسے ایسی چیزوں کا علم ہو۔ آپ اسے لکھ کر دیتے“۔کہنے لگے میں نے انہی حماقتوں کی وجہ پچھلے دو مہینے میں تین ڈرائیور بدلے ہیں لیکن یہ سب ایک جیسے ہیں۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا ایک بار مالک کو بدل کر بھی دیکھ لیں ہو سکتا ہے افاقہ ہو۔ ایک لمحے کو سکتا آیا اور پھر وہی زور دار قہقہہ۔۔اس بار بھونچال کی شدّت پہلے سے زیادہ تھی۔