بلاگ

زندگی کو جینا سیکھیں

Share
” مدیحہ ریاض “

اگست2017 ء تا اکتوبر 2018ء میری زندگی کے وہ یاد گار دن جب میں نے زندگی کو کھل کر جینا سیکھا ۔ کیونکہ اس وقت میری زندگی سے شیطانیت کا عمل دخل ختم ہو چکا تھا بلکہ یوں کہیں کہ شیطان ہی دفعان ہو چکا تھا۔ایسا ہرگز نہیں تھا کہ میں نے گھر سے باہر وقت گزارنا شروع کر دیا تھا۔ بلکہ یوں سمجھیں کہ میں نے گھر پر رہنا ہی ان دنوں سیکھا۔زندگی پرسکون ہو گئی تھی۔ میں، میری ماں اور میرا باپ ہم کل تین نفوس رہ گئے تھے۔ہماری زندگی سے غم کے بادل چھٹ چکے تھے۔ ہم تینوں احساس محبت کی ڈوری میں بندھ گئے تھے۔ میں نے ہمیشہ گھر سے باہر پناہ لینے کی کوشش کی۔کبھی اسکول کے بہانے تو کبھی ٹیوشن کے بہانے۔مجھے آج بھی یادہے کہ مدرسے کی چھٹی کے بعد میں اس وقت تک مدرسے میں وقت گزارتی جب تک گیٹ کو تالا نہ لگ جاتا۔ایک مرتبہ میری ماں مجھے مدرسے سے لینے آئیں تھیں کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ مدرسے کی چھٹی تو کب کی ہو چکی ہے اور میں یقینا اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیل رہی ہوں گی۔زندگی دکھ سکھ اور غم اور خوشی کا مجموعہ ہے۔ زندگی میں کبھی خوشی کا دورانیہ بڑھتا ہے تو کبھی غم کا۔میری پچیس سالہ زندگی میں 18 سال غم کے باد ل چھائے رہے۔میری زندگی کا غم جو صرف میں جانتی ہوں یا پھر میرے والدین جانتے ہیں۔ہاں کچھ قریبی عزیز بھی میری زندگی کے اس غم سے واقفیت رکھتے ہیں مگر ہمدردی کی آڑ میں نمک چھڑکنا اور زخم کریدنا نہیں بھولتے۔میرے اندر اتنا حوصلہ نہیں کہ میں اپنا غم آپ دوستوں کے ساتھ گوش گزار کر سکوں ۔نہیں ہے میرے اندر اتنا حوصلہ کہ دامن اٹھا کر پیٹ کو برہنہ کرسکوں۔ مگر جو لوگ اپنا غم آپ قارئین دوستوں کے ساتھ بیان کرنے سے بالکل نہیں جھجھکتے میری نظر میں وہ باہمت لوگ ہیں۔ اپنے غم دوسروں کے سامنے عیاں کرنے کے لئے بھی جگرا چاہیئے ہوتا ہے۔جو کہ میرے پاس قطعا نہیں ہے لہذا میں آپ دوستوں کے ساتھ اپنے ناخوشگوار تجربات کو ٹوٹے پھوٹے انداز میں مصلحت کی چادر میں چھپائے پیش کر رہی ہوں۔میری طرح غم کو اپنے اندر مت پالیں ۔اسے باہر کا راستہ دکھائیں۔اگر اسے باہر کا راستہ نہ دکھایا تو ایک دن یہ آپ کو اندر سے کھوکھلا کر دے گا اس لکڑی کی طرح جسے دیمک لگ چکی ہے اور دیمک لگی لکڑی کاانجام وقت سے پہلے گر جانا ہوتا ہے۔لہذا اپنے آپ کو گرنے مت دیں سر اٹھا کر جیئں۔