ہیڈلائن

سپریم کورٹ کا حکومت کو 3 ماہ میں نیا نیب قانون لانے کا حکم

Share

سپریم کورٹ نے نیب آرڈیننس کی شق 25اے پر ازخود نوٹس کیس سماعت کرتے ہوئے حکومت کو 3ماہ میں نیب کا نیا قانون لانے کا حکم دے دیا ہے۔

2016 میں اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے 1999 کے قومی احتساب آرڈیننس کی 25اے پر سوموٹو نوٹس لیتے ہوئے اٹارنی جنرل آف پاکستان، تمام صوبائی ایڈووکیٹ جنرل، چیئرمین نیب، نیب کے تمام ڈائریکٹرز جنرل اور تمام صوبائی پراسیکیوٹر جنرل سے جواب طلب کیا تھا۔

آج (بدھ کو) نیب آرڈیننس کی شق 25 اے پر لیے گئے سوموٹو نوٹس کے مقدمے کی سماعت ہوئی جس میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن اور سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیے۔

عدالت نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ توقع کرتے ہیں کہ حکام نیب قانون سے متعلق مسئلے کو حل کرلیں گے اور نیب قانون کے حوالے سے مناسب قانون پارلیمنٹ سے منظور ہوجائے گا۔

عدالت نے کہا کہ اٹارنی جنرل کے مطابق فاروق ایچ نائیک نیب قانون میں ترمیم کا بل پارلیمنٹ میں پیش کرچکے ہیں اور حکومت نیب قانون میں ترمیم کے لیے تمام سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

عدالت نے نیب قانون لانے کے لیے 3 ماہ کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ 3 ماہ میں مسئلہ حل نہ ہوا تو عدالت قانون اور میرٹ کو دیکھتے ہوئے کیس کا فیصلہ کرے گی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے سوال کیا کہ کیا 25 اے کے معاملے پر ترمیم ہوگئی ہے، کیا یہ معاملہ اب ختم ہوگیا ہے؟

عدالت عظمیٰ کے بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الحسن نے سوال کیا کہ نیب آرڈیننس کا سیکشن 25 اے ختم ہوا یا اس میں ترمیم ہوئی جس پر سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں نیب آرڈیننس سے متعلق میرا پرائیویٹ ممبر بل موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ سینیٹ کمیٹی سے منظوری کے بعد معاملہ ایوان میں جائے گا اور بل کے مطابق نیب کے آرڈیننس 25 اے کو مکمل طور پر ختم کیا جارہا ہے۔

اس موقع پر درخواست گزار اسد کھرل نے کہا کہ 2016 سے یہ کیس عدالت میں زیر سماعت ہے، 15 تاریخیں ہوچکی ہیں لیکن معاملہ جوں کا توں ہے جبکہ عدالت کا آخری حکم 23 مئی 2019 کو آیا تھا۔

چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے سوال کیا کہ کیا آپ اس معاملے پر بحث کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ہم تو معاملہ نمٹانے لگے ہیں لیکن اگر آپ نے بحث کرنی ہے تو نیب آرڈیننس کے سیکشن 25 اے کو آئین سے متصادم ثابت کریں۔

جسٹس گلزار احمد نے سوال کیا کہ کیا آپ کا مؤقف ہے کہ رضاکارانہ رقم کی واپسی کرنے والا شخص اپنا جرم بھی تسلیم کرے؟، کیا رضاکارانہ طور پر رقم واپس کرنے والے شخص کو سزا یافتہ تصور کیا جائے؟، کیا نیب آرڈیننس کے سیکشن 25 اے سے اب بھی کوئی مستفید ہورہا ہے۔

اسد کھرل نے جواب دیا کہ عدالت کے حکم امتناع کے باعث سیکشن 25 اے غیر فعال ہے اور حکومت اب نیا نیب آرڈیننس لے آئی ہے۔

جسٹس اعجازالحسن نے ریمارکس دیے کہ نیب کے بہت سے قوانین ہیں اور آپ کا مقدمہ 25اے سے متعلق ہے، اس حوالے سے بل حکومت کا نہیں بلکہ فاروق ایچ نائیک کا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کا قانون ہے کہ پہلے انکوائری ہوگی پھر تحقیقات اور 200 گواہ بنیں گے، اس طرح تو ملزم کے خلاف زندگی بھر کیس ختم نہیں ہوگا، لوگوں کا پیسہ ہڑپ کر لیا جاتا ہے، کرپشن کی رقم واپس کرنے والوں کو نتائج کا سامنا بھی کرنا پڑے گا، سپریم کورٹ نیب کو پلی بارگین سے روک چکی ہے اور پارلیمنٹ کی جانب سے قانون سازی تک یہ اختیار استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ حکومت نے نیب آرڈیننس کے ذریعے نیب کے پر کاٹ دیے ہیں، نیب میں تو دس دس سال کیس پڑے رہتے ہیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے مزید ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جب تک پارلیمنٹ قانون سازی نہیں کر لیتی یہ اختیار استعمال نہیں ہو گا اور حکومت نیب قانون کے معاملے کو زیادہ طول نہ دے کیونکہ نیب قوانین میں ترامیم پارلیمنٹ کا کام ہے، سپریم کورٹ نے نیب کی کسی دفعہ کو غیر آئینی قرار دیا تو نیب فارغ ہو جائے گا، کیا حکومت چاہتی ہے کہ نیب کے قانون کو فارغ کر دیں؟

عدالت نے نیا نیب قانون لانے کے لیے 3ماہ کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ اگر 3 ماہ میں مسئلہ حل نہ ہوا تو میرٹ کے مطابق فیصلہ سنا دیں گے۔