دنیابھرسے

سیٹلائٹ تصاویر: وادی گلوان میں چین کی عسکری سرگرمیوں میں اضافہ

Share

چین نے مغربی ہمالیہ میں بھارت کے ساتھ سرحدی تصادم کے مقام کے قریب نئے ڈھانچے کا اضافہ کردیا۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق تازہ ترین سیٹلائٹ تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چین نے سرحدی مقام پر متعدد نئی تعمیرات کیں جس کے بعد دونوں جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسی ممالک کے مابین جھڑپ کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔

واضح رہے کہ بھارت اور چین کے فوجیوں کے مابین 15 جون کو ہونے والے تصادم میں 20 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔

بعدازاں 22 جون کو دونوں ممالک کی عسکری قیادت کے مابین معاملات طے پاگئے تھے۔

سیٹلائٹ تصاویر میں واضح ہے کہ چینی سرحد پر نئی تعمیرات ہوئیں ہیں۔

فوٹو: الجزیرہ
فوٹو: الجزیرہ

امریکا کی خلائی ٹیکنالوجی کمپنی میکسار ٹیکنالوجیز کی جانب سے جاری کردہ تصاویر میں دکھایا گیا کہ دریائے گلوان کے ساتھ چینی تنصیبات نظر آرہی ہیں۔

آسٹریلیا کے اسٹریٹجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے مصنوعی سیارہ ڈیٹا کے ماہر نیتھن روسر نے کہا کہ اس تعمیر سے پتہ چلتا ہے کہ کشیدگی میں کمی کا کوئی امکان نہیں ہے۔

انہوں نے ٹوئٹ میں کہا کہ وادی گلوان سے 22جون کو سیٹلائٹ کی تصاویر سے معلوم چلتا ہے کہ ‘کیشدگی میں کمی’ وہ لفظ نہیں ہے جسے (بھارتی) حکومت متعدد مرتبہ استعمال کررہی ہے۔

اس سے قبل چین نے وادی گلوان میں جھڑپوں کا الزام ایک مرتبہ پھر بھارت پر عائد کرتے ہوئے وادی سے بھارتی افواج اور آلات و سہولیات کے انخلا کا مطالبہ کیا تھا۔

بھارتی خبر رساں ادارے ‘دی ہندو’ کے مطابق چین کی پیپلز لبریشن آرمی اور وزارت خارجہ کی جانب سے یہ پیغام 6 جون اور 22 جون کو کور کمانڈرز کے درمیان ہونے والی گفتگو میں پہنچا دیا گیا تھا۔

البتہ چین کے بیان یہ خاص طور پر واضح کردیا گیا کہ وادی گلوان میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول کہاں واقع ہے جس پر بھارت ان سے اتفاق نہیں کرتا۔

یہ وادی گلوان اور دریائے شیوک کے سنگم پر شروع ہوتی ہے اور دونوں فریقین جس لائن آف ایکچوئل کنٹرول کو باضابطہ تسلیم کرتے ہیں، وادی میں ان دریاؤں کے سنگم کے مشرق میں واقع ہے۔

واضح رہے کہ چین اور بھارتی فوج کے درمیان جسمانی جھڑپ میں بھارت کے 20 فوجی مارے گئے تھے اور یہ 45 سال کے دوران دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان سب سے خونریز جھڑپ ہے۔

ماہرین کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان براہ راست جنگ کے امکانات انتہائی کم ہیں البتہ کشیدگی میں کمی میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔

چین دعویٰ کر رہا ہے کہ اس کا 90 ہزار اسکوائر کلومیٹر کا علاقہ بھارت میں واقع ہے جس کے جواب میں بھارت نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کا 38 ہزار اسکوائر کلومیٹر کا علاقہ چین کی حدود میں اکسائی چن کے پہاڑی علاقے میں واقع ہے۔