پاکستان

شہباز شریف: منی لانڈرنگ کیس میں درخواست ضمانت مسترد ہونے پر مسلم لیگ نواز کے قائد گرفتار

Share

پاکستان میں لاہور ہائی کورٹ نے قائدِ حزبِ اختلاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی منی لانڈرنگ ریفرنس میں درخواست ضمانت مسترد کر دی ہے جس کے بعد انھیں کمرہ عدالت کے باہر سے حراست میں لے لیا گیا ہے۔

گذشتہ پیشی پر لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے شہباز شریف کے وکلا کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ پیر (آج) تک دلائل مکمل کریں۔

پیر کے روز شہباز شریف کے وکلا کی جانب سے پیش کیے گئے دلائل کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے درخواست ضمانت مسترد کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد نیب اہلکاروں نے قائد حزبِ اختلاف کو کمرہ عدالت کے باہر سے گرفتار کر لیا۔

انھیں کل یعنی منگل کے روز نیب عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ رواں سال جون میں لاہور ہائی کورٹ نے شہباز شریف کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے انھیں پانچ لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کی ہدایت کی تھی۔

شہباز شریف کی گرفتاری پر ردعمل

مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ’شہباز شریف کا صرف یہ قصور ہے کہ اس نے نواز شریف کا ساتھ نہیں چھوڑا۔

’اس نے جیل جانے کو ترجیح دی مگر اپنے بھائی کو ساتھ کھڑا رہا۔ یہ انتقامی احتساب نواز شریف اور اس کے ساتھیوں کا حوصلہ پست نہیں کر سکتے۔ اب وہ وقت دور نہیں جب اس حکومت اور ان کو لانے والوں کا احتساب عوام کرے گی۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’اگر اس ملک میں احتساب اور انصاف ہوتا تو شہباز شریف نہیں، عاصم سلیم باجوہ اور اس کا خاندان گرفتار ہوتا۔‘

مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’آج نیب، نیازی گٹھ جوڑ نے شہباز شریف کو گرفتار کیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سنہ 2018 کے عام انتخابات کی طرح گلگت بلتستان کے الیکشن میں دھاندلی کرنے کا منصوبہ بنا لیا گیا ہے۔

’نیب نے شہباز شریف کو عمران خان کے حکم پر گرفتار کیا کیونکہ وہ ایسی جماعت کو نشانہ عبرت بنانا چاہتے ہیں جنھوں نے اس ملک کے لیے کام کیا۔ یہ ہر مخالف آواز کو بند کرنا چاہتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا یہ شہباز شریف کی گرفتاری حزب اختلاف کی اے پی سی کا ردعمل ہے۔

شہباز شریف

شہباز شریف کی گرفتاری کے موقع پر پولیس اور مسلم لیگ کے کارکنان کے درمیان دھکم پیل بھی ہوئی تاہم نیب اہلکار انھیں بحفاظت وہاں سے نکال کر نیب دفتر لے گئے ہیں۔

عدالتی فیصلے سے ایک دن قبل آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں شہباز شریف کو نیب کے سامنے پیش ہونا تھا تاہم انھوں نے پیش ہونے کے بجائے ایک تفصیلی جواب جمع کروا دیا۔

اس تفصیلی جواب میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ کورونا وائرس اس وقت عروج پر ہے اور نیب کے کچھ افسران بھی کورونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں جبکہ میری عمر 69 سال اور میں کینسر کا مریض بھی ہوں اس لیے نیب تحقیقاتی ٹیم مجھ سے سکائپ کے ذریعے سوالات کر سکتے ہیں۔

اس حوالے سے نیب کی جانب سے کہا گیا تھا کہ شہباز شریف کی پیشی کے لیے کورونا وائرس سے بچاؤ کے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے۔

یاد رہے کہ سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو پاکستان کے قومی ادارہ برائے احتساب (نیب) نے آشیانہ ہاؤسنگ سکیم اور رمضان شوگر ملز کیس سنہ 2018 میں گرفتار کیا تھا تاہم 14 فروری 2019 کو لاہور ہائی کورٹ نے اُن کی ضمانت منظور کی تھی۔

گذشتہ سماعت کے دوران کیا ہوا تھا؟

اس کیس میں ہونے والی گذشتہ سماعت میں نیب پراسیکیوٹر نے کہا تھا کہ شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے اب تک جو فیصلے پیش کیے ہیں وہ ضمانت بعد از گرفتاری کے ہیں جس پر شہباز شریف کے وکیل نے کہا کہ وہ ابھی ضمانت قبل از گرفتاری کی جانب آ رہے ہیں۔

تاہم اس کے بعد شہباز شریف کے وکیل کی جانب سے وقفے کی درخوست کی گئی جو عدالت نے قبول کرتے ہوئے انھیں ضمانت بعد از گرفتاری پر دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کر دی، جس کے بعد سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کر دی گئی تھی۔

شہباز شریف کے وکیل نے اس موقع پر عدالت کے سامنے ضمانت کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ قتل کے کیس میں بھی جب چالان پیش ہو جائے اور فرد جرم عائد ہو جائے، تو پھر بھی ضمانت یا ریلیف مل جاتا ہے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے مؤکل کو ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کیے ہوئے تین ماہ سے زیادہ عرصہ ہو چکا تھا اور اس دوران نیب نے صرف ایک مرتبہ بلایا جس پر وہ پیش ہوئے۔

وکیلِ صفائی نے کہا کہ نیب کے تفتیشی افسر کی جانب سے ان کے مؤکل کو کہا گیا کہ اب مزید تفتیش کی ضرورت نہیں اور جب ضرورت ہو گی آپ کو بتایا جائے گا۔

بعد ازاں شہباز شریف نے عدالت سے بات کرنے کی اجازت حاصل کرکے کہا کہ نیب کا الزام ہے کہ ان کے بچوں کے اثاثے درحقیقت ان کے بے نامی اثاثے ہیں۔ انھوں نے عدالت سے کہا کہ اگر عدالت چاہے تو وہ بینچ کو مکمل بریفنگ دے سکتے ہیں۔

اس پر عدالت نے کہا تھا کہ اگر وہ عدالت کی معاونت کرنا چاہتے ہیں تو اپنے وکیل سے مشورہ کر لیں، اور اگر کوئی بات رہ جائے تو وہ دلائل کی تکمیل کے بعد کر سکتے ہیں۔