پاکستان

عمران فاروق قتل کیس: پس پردہ کیا کیا ہوا اور اس کہانی کا ایک کردار تمغہ شجاعت کا حقدار کیسے ٹھہرا؟

Share

’الطاف حسین کا اس قتل میں براہ راست تعلق نہیں بلکہ وہ سازش میں ملوث ہیں، میں اُن کا نام براہ راست قتل میں ملوث ملزم کے طور پر نہیں ڈال سکتا۔‘

ایف آئی اے میں تعینات پولیس افسر نے وزیراعظم ہاؤس میں اُس وقت کے وزیر اعظم کے خصوصی معاون بیرسٹر ظفراللہ، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد چوہدری عبدالرؤف اور آئی ایس آئی کے اسلام آباد میں تعینات سیکٹر کمانڈر کے سامنے جب یہ بات کی تو دسمبر کے سرد موسم میں کمرے میں ہیٹر لگا کر کی گئی مصنوعی حدت اور بھی شد ت اختیار کر گئی۔

اُس وقت کے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان آئی ایس آئی کے افسران سے ملاقاتوں کے بعد اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ عمران فاروق قتل کیس میں متحدہ کے بانی سربراہ الطاف حسین کا ہاتھ ہے۔

سارے متفقہ طورپر چاہتے تھے کہ عمران فاروق قتل کیس کی ایف آئی آر میں الطاف حسین کو براہ راست نامزد کیا جائے تاکہ وہ ایسی گرفت میں آئیں کہ نکل نہ سکیں۔

اسی مقصد کے لیے قانونی حوالوں سے مشاورتوں کا سلسلہ جاری تھا۔ وزیر اعظم ہاؤس میں اس حوالے سے ایک حتمی مشاورتی اجلاس ہوا جس میں اِس پولیس افسر نے الطاف حسین کا نام ایف آئی آر میں براہ راست لکھنے کی بجائے بالواسطہ لکھنے کا کہہ کر نیا مسئلہ کھڑا کر دیا تھا۔

یہ پولیس افسر کوئی اور نہیں بلکہ اس وقت ایف آئی اے میں تعینات ڈائریکٹر مظہرالحق کاکا خیل تھے۔ اس اجلاس میں موجود ایک سینیئر سرکاری افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اُس اہم اجلاس کی تفصیلات بتائی ہیں۔

اس بارے میں جب مظہر الحق کاکا خیل سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے اس واقعے کی تفصیل میں جائے بغیر کہا کہ ’آپ اس معاملے پر بہت گہرائی میں چلے گئے ہیں۔ سرکاری طور پر ایسے اجلاس ہوتے رہتے ہیں لیکن سرکاری افسر کے طور پر ان پر تبصرہ کرنا میرے قانونی دائرہ کار میں شامل نہیں۔‘

جنازہ
،تصویر کا کیپشنکراچی میں عمران فاروق کی نماز جنازہ جس میں ایم کیو ایم کے ہزاروں کارکنوں نے شرکت کی تھی (فائل فوٹو)

عمران فاروق قتل کیس کی گتھی آخر کیسے سلجھی اور ملزمان کیسے گرفتار ہوئے اس کی تفصیلات ہم آگے چل کر بیان کریں گے، مگر یہاں بتانا ضروری ہے کہ اس کیس کو کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچانے پر حکومت پاکستان آج (یعنی 14 اگست کو) مظہر الحق کاکا خیل کو تمغہ شجاعت دے گی۔

کاکا خیل ماضی میں شدت پسندوں کے حملوں کا سب سے زیادہ شکار ہونے والے صوبہ خیبر پختونخوا میں سوات جیسے مشکل علاقے میں پولیس فورس کی کمانڈ کرتے رہے ہیں اور خود بھی ایک بم حملے میں زخمی ہوئے تھے۔

وہ فیلڈ میں پولیس کو درپیش قانونی پیچیدگیوں اور مشکلات سے آگہی کے ساتھ ساتھ سابق وزیراعلی حیدر خان ہوتی کے سٹاف افسر کی حیثیت سے سرکاری نزاکتوں کا تجربہ بھی رکھتا تھے۔

کاکا خیل کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشتگردی کے نئے سربراہ کے طور پر تعینات کیے جانے کا امکان تھا۔ اس وقت ایک اور سینیئر پولیس افسر انعام غنی اس شعبے کے سربراہ تعینات تھے، جو اب معمول کی ٹرانسفر پر جا رہے تھے۔

وزیرِ داخلہ چوہدری نثارعلی خان کی طرف سے اس اہم عہدے پر کاکا خیل کی تعیناتی کے لیے حتمی فیصلہ کرنا ابھی باقی تھا، مگر کاکا خیل کی طرف سے ایف آئی آر میں براہ راست الطاف حسین کی نامزدگی سے انکار نے ان کی ایف آئی اے میں اس اہم پوسٹ پر تعیناتی کو بھی مشکوک بنا دیا تھا۔

کاکا خیل کا خیال تھا کہ اس کیس میں جان ہے وہ اس کیس کو اِسی حالت میں منطقی انجام تک پہنچا دیں گے اور یہ کہ کیس میں کسی طرح کی غلط بیانی کیس خراب کرے گی۔

مندرجہ بالا واقعے کے دوسرے روز کاکا خیل کی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار سے ملاقات ہوئی۔ چوہدری نثار علی خان کے سامنے افسران کی پیشی اس لیے بھی مشکل ہوتی تھی کہ وہ (چوہدری نثار) اپنی ناک پر مکھی تک نہ بیٹھنے دیتے تھے، بال کی کھال اتارتے اور اگر کوئی افسر لکیر سے ہٹے تو اسے سختی سے ڈانٹ دیتے۔

وزیر داخلہ کے سٹاف افسر وقار چوہان نے چوہدری نثار کے سامنے کاکا خیل سے پوچھا کہ آپ الطاف حسین کا نام براہ راست ایف آئی آر میں درج کیوں نہیں کر رہے؟ اس پر کاکا خیل بولے ’جناب ایسا کرنا جھوٹ ہو گا۔ آج میں جھوٹ پر مبنی ایف آئی آر کاٹوں گا تو کل اسے عدالت میں ثابت نہیں کر سکوں گا، کیس خارج ہو جائے گا اور میں اگلی حکومت میں آپ کو بُرا بھلا کہنے پر مجبور ہو جاؤں گا، اس لیے جو سچ ہے وہی لکھا جائے تاکہ ہر دور میں اس پر قائم بھی رہا جا سکے۔‘

کمرے میں موجود چوہدری نثار نے پولیس افسر کی بات سنی اور فوری اتفاق کیا اور ساتھ ہی وقار چوہان کو حکم دیا کہ مجھے یہ افسر پسند ہے اور میں انعام غنی کے بعد اسی کو انسداد دہشتگردی ونگ کا سربراہ تعینات کر رہا ہوں، کیونکہ اس میں اتنی جرات ہے کہ وہ چوہدری نثار سے بھی اختلاف کر سکے۔

اس بات کے بعد یہ ملاقات ختم ہو گئی۔

اگلے روز پانچ دسمبر کو پنجاب میں لوکل گورنمنٹ انتخابات کی کوریج کے سلسلے میں میں ٹیکسلا میں تھا کہ مجھے ایف آئی اے انسداد دہشتگردی ونگ کے نمبر سے موبائل فون پر بتایا گیا کہ عمران فاروق قتل کیس میں الطاف حسین، محمد انور، افتخار احمد، خالد شمیم، معظم علی، محسن سید اور کاشف کامران کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

محسن علی
،تصویر کا کیپشنمحسن علی

اگلے چند لمحوں میں یہ خبر پاکستان اور برطانیہ کی شہ سرخیوں کا حصہ بن چکی تھی۔

یوں تو متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما عمران فاروق کا قتل ستمبر 2010 میں لندن میں ہوا تھا مگر اس کیس پر پاکستان میں سنجیدگی سے کارروائی کا آغاز سنہ 2015 کے آغاز میں اُس وقت شروع ہوا تھا کہ جب اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو برطانوی حکومت کی طرف سے اس قتل کیس میں معاونت کی درخواست کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔

اس سے قبل پیپلز پارٹی کی حکومت کے دورمیں اس کیس پر کوئی پیشرفت نہ ہو سکی تھی۔ اس کی ایک بڑی وجہ پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان ایک سیاسی اتحاد تھا جو یوں تو پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری اور ایم کیو ایم کے بانی سربراہ الطاف حسین کے درمیان تھا، لیکن عملی طور پر اس اتحاد کی نگرانی اس وقت کے وزیر داخلہ سینیٹر رحمان ملک کر رہے تھے۔

سینیئر تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ’وزارت داخلہ اور گورنر سندھ کی سطح پر ایک اتفاق تھا کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان اتحاد قائم رہے کیونکہ اس وقت تک گورنرسندھ ڈاکٹر عشرت العباد لندن اور رحمان ملک کے درمیان ایک اہم رابطہ تھے۔ میرے خیال میں اس وقت پاکستان میں کیس نہ چل پانے کی دو بڑی وجوہات تھیں ایک رحمان ملک اور دوسری ہماری اسٹیبلیشمنٹ جسے برطانوی پولیس پر اعتماد نہیں تھا کہ وہ سنجیدگی سے یہ کیس برطانوی عدالتوں میں چلائے گی۔‘

مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں ابتدا میں تو وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کی اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام سے اچھی شناسائی تھی مگر دھرنوں کے باعث حکومت اور آئی ایس آئی چیف میں دوریاں ظہیر الاسلام کی آئی ایس آئی سے فراغت کا باعث بنی اور رضوان اختر آئی ایس ائی کے نئے سربراہ بن گئے۔

چوہدری نثار علی خان کی رضوان اختر سے ڈی جی رینجرز کراچی کے دنوں سے اچھی شناسائی تھی۔ وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر پنجاب ہاؤس میں اکثر گھنٹوں بیٹھتے اور ملکی سیاسی و داخلی امور سمیت اہم موضوعات پر تبادلہ خیال کرتے۔

برطانوی حکومت کی طرف سے اس قتل کیس کی بازگشت اور دو مبینہ قاتلوں محسن علی سید اور کاشف کامران کی پاکستان موجودگی کے بارے میں وزیر داخلہ کو سن گن پہلے ہی تھی۔ ایک روز چوہدری نثار اور آئی ایس آئی کے سربراہ کے درمیان یہ معاملہ بھی زیر بحث آ گیا۔

اس وقت وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے سٹاف کے طور پر خدمات سرانجام دینے والے ایک سینیئر سرکاری افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ ’چوہدری نثار اور جنرل رضوان کے درمیان ہونے والی ملاقاتیں عام طور پر ون آن ون ہی ہوتی تھیں تاہم یہ بات درست ہے کہ پنجاب ہاؤس میں اس کیس پر وزیر داخلہ کو آئی ایس آئی کی طرف سے بریفنگز دی جاتی رہی ہیں۔‘

لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر اس کیس کے بارے میں دو حوالوں سے خوب آشنائی رکھتے تھے۔ اول یہ کہ وہ خود مارچ 2012 سے ستمبر 2014 تک کراچی میں ڈی جی رینجرز سندھ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے چکے تھے اور اسی دورانیے میں انھوں نے ایم کیو ایم پر بڑا کام بھی کیا تھا اور وہ عمران فاروق قتل کیس کے کچھ بنیادی امور سے واقف تھے۔

دوئم یہ کہ عمران فاروق کو جن دو افراد یعنی محسن علی سید اور کاشف خان کامران نے مبینہ طور پر قتل کیا تھا وہ پاکستان آمد کے بعد سے آئی ایس آئی کی حراست میں تھے اور رضوان اختر کو اس بات کا علم تھا۔

رضوان اختر
،تصویر کا کیپشنعمران فاروق کو جن دو افراد یعنی محسن علی سید اور کاشف خان کامران نے مبینہ طور پر قتل کیا تھا وہ پاکستان آمد کے بعد سے آئی ایس آئی کی حراست میں تھے اور رضوان اختر کو اس بات کا علم تھا (فائل فوٹو)

وزیرِ داخلہ چوہدری نثار معاملے کو قانون کے مطابق آگے لے جانا چاہتے تھے۔ اول تو وہ ملزمان کو برطانیہ کے حوالے کرنا چاہتے تھے دوسرا یہ کہ اگر برطانیہ ان ملزمان کی حراست نہ لے تو وہ ازخود پاکستان میں ان کے خلاف کیس کرنے پر بھی آمادہ تھے۔

ظاہر ہے اس سارے معاملے میں بھی انھیں آئی ایس آئی کی معاونت درکار تھی۔

لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر وزیر داخلہ سے متفق تھے۔ مگر اس سارے معاملے میں دو چیلنجز بڑے اہم تھے اول یہ کہ اب تک عمران فاروق کے مبینہ قاتلوں محسن علی سید اورکاشف کامران جبکہ کراچی میں ان کی معاونت کرنے والے ساتھی خالد شمیم کی آئی ایس آئی کے پاس موجودگی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی۔

دوسرا یہ کہ دو ملزمان میں سے ایک یعنی کاشف کامران حراست کے دوران مبینہ طور پر مارا گیا تھا۔ اس حوالے سے متضاد اطلاعات ہیں تاہم آج تک کاشف کامران کی ہلاکت کی باضابطہ سرکاری سطح پر تصدیق نہیں ہوئی ہے اور اسی لیے کاشف کا نام عمران فاروق قتل کیس کے سزا پانے والے مجرموں کی فہرست میں شامل ہے، تاہم سزا پانے والے دیگر مجرم اپنے خاندان کے افراد کو کاشف کامران کی دوران حراست مبینہ ہلاکت کی خبر ضرور دیتے ہیں۔

یہ ملزم جس سول افسر کی نگرانی میں تھے ان کے بارے میں اطلاع ہے کہ مبینہ طور پر وہ بھی آج کل برطانیہ میں سیاسی پناہ حاصل کر کے خاموشی کی زندگی گذار رہے ہیں، تاہم حکام نے اس کی بھی باقاعدہ تردید یا تصدیق نہیں کی ہے۔

دراصل دس ستمبر 2010 کو جب دونوں ملزمان محسن علی سید اور کاشف کامران نے عمران فاروق کا لندن میں مبینہ طور پر قتل کیا تو اگلے چھ گھنٹوں کے دوران دونوں برطانیہ سے سیدھے پاکستان آنے کی بجائے سری لنکا جانے کے لیے کولمبو جانے والی پرواز پر محوِ سفر تھے۔

معظم علی خان
،تصویر کا کیپشنمعظم علی خان

کولمبو میں دونوں لڑکوں نے ایک ہفتہ گزارا۔ اس دوران برطانوی پولیس نے موقع پر ملنے والی چھری سے ان کے فنگر پرنٹس لے کر محسن علی کی شناخت کر لی گئی۔ موقع پر چونکہ دو قاتل دیکھے گئے تھے اور یہی دو افراد اکٹھے پاکستان آئے اور اکٹھے واپس جا رہے تھے لہذا پتا چل گیا کہ دوسرا شخص کاشف کامران ہے۔

سارے معاملے کی اطلاع پاکستان کو بھی کر دی گئی تھی۔ ایک ہفتہ بعد جونہی آئی ایس آئی کو ملزمان کے کولمبو سے کراچی آنے کا پتہ چلا تو 18 ستمبر 2010 کو کراچی ایئر پورٹ پر ملزمان کا مسافر طیارہ لینڈ ہونے کے بعد ایک ٹیم طیارے کے اندر گئی اور دونوں کو گرفتار کر کے ایئرپورٹ سے ہی نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا۔

شاید انھیں ڈر تھا کہ کراچی میں دونوں ملزمان کو ایم کیوایم کی طرف سے ہلاک کر کے کیس کے اصل سراغ ہی ختم نہ کر دیا جائے۔

محسن علی سید اور کاشف کامران کی گرفتاری کے بعد پانچ جنوری 2011 کو ایک بینک کی اے ٹی ایم استعمال کرتے ہوئے خالد شمیم نامی شخص کو بھی حراست میں لیا گیا تھا۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ملازم خالد شمیم پر الزام تھا کہ انھوں نے عمران فاروق کے قتل کے لیے محسن علی سید اور کاشف کامران کو ٹارگٹ دینے اور ٹارگٹ تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

خالد شمیم ہی وہ شخص تھا جس نے عمران فاروق کے قتل کے بعد کراچی کے ایک نمبر سے دونوں مبینہ قاتلوں سے فون پر بات کی تھی۔ خالد شمیم کی حراست بھی آئی ایس آئی عمل میں لائی مگر اس کی بھی کوئی قانونی حیثیت سرے سے موجود نہیں تھی کیونکہ اس عمل میں بھی پولیس اور ایف آئی اے کو نظر انداز کیا گیا تھا۔

مگر اب چوہدری نثار کی مداخلت پر معاملات کو قانونی شکل دی جا رہی تھی۔

قتل کے تین کرداروں میں سے ایک تو مبینہ طور پر ہلاک ہو گیا تھا جبکہ باقی دو بدستور آئی ایس آئی کے پاس تھے، اس مسئلے کے حل کے لیے وزیرِ داخلہ اور ڈی جی آئی ایس آئی میں طے پایا کہ محسن علی سید اور خالد شمیم کو منظر عام پر لایا جائے اور انھیں ایف آئی اے کے سپرد کر دیا جائے تاکہ اس دوران ان کی برطانیہ حوالگی کا عمل باقاعدہ طور پر شروع ہو۔

اسی دوران ایک اور شخص یعنی معظم علی کو بھی اس معاملے میں شامل کیا گیا کیونکہ معظم علی کی کمپنی دونوں مبینہ قاتلوں کے برطانیہ جانے میں استعمال کی گئی تھی ۔ اسی لیے معظم کو بھی 11 اپریل 2015 کو کراچی سے حراست میں لے لیا گیا۔

غیرقانونی حراست کو قانونی شکل اس طرح ملی کہ چند روز بعد ایک سرکاری پریس ریلیز جاری کر کے بتایا گیا کہ دونوں ملزمان پاک افغان سرحد سے گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ اسی دوران 26 جون 2015 کو ایف آئی اے شعبہ انسداد دہشتگردی ونگ کے سربراہ انعام غنی نے انکوائری درج کر کے تحقیقات کا آغاز کر دیا، جس کی تصدیق اس کیس کے عدالتی دستاویزات سے بھی ہوتی ہے۔

اس دوران انعام غنی نے وزارت داخلہ کی منظوری سے برطانوی پولیس کے دو افسران کے ہمراہ ملزمان سے ایک اہم ملاقات کی۔ ملزمان جن میں سب سے اہم محسن سید تھا کو عمران فاروق کی لاش، موقع سے برآمد اینٹ اور چھری دکھائی گئی۔

انعام غنی نے محسن سے انگریزی میں پوچھا بتاؤ اس کام پر کوئی شرمندگی تو نہیں؟ جس پر محسن نے انگریزی میں برطانوی پولیس اہلکاروں کے سامنے کہا کہ ’نہیں مجھے کسی قسم کی کوئی شرمندگی نہیں میں نے یہ سب عقیدت میں کیا ہے اور اگر مجھے دوبارہ موقع ملا تو دوبارہ بھی ایسا ہی کروں گا۔ یہ سب کچھ حیران کُن تھا۔‘

مظہرالحق کاکا خیل
،تصویر کا کیپشنمظہرالحق کاکا خیل آج کل موٹروے پولیس میں تعینات ہیں

ابتدائی طور پر محسن سید، خالد شمیم اور معظم علی کو تحفظ پاکستان ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا، اِس امید پر کہ برطانوی حکومت ان تینوں ملزمان کو حراست میں لینے کے لیے پاکستان سے درخواست کرئے گی۔

اس غرض سے برطانوی سکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کے افسران نے اسلام آباد کے کم و بیش تین سے زائد دورے بھی کیے۔ برطانوی حکام ایف آئی اے حکام اور ملزمان سے ملاقاتیں کرتےاور واپس چلے جاتےاور واپسی پر جا کر پاکستان سے صرف محسن علی سید کی حوالگی کا مطالبہ کرتے۔

ان کا کہنا یہ تھا کہ باقی دوملزمان یعنی خالد شمیم اور معظم علی ’غیر متعلقہ‘ ہیں اور ان کا برطانوی کیس میں کوئی اتنا کردار نہیں لیکن اُدھر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اس بات پر ڈٹے رہے کہ اگر برطانیہ نے ملزمان کو لینا ہے تو وہ تینوں ملزمان کو لے۔

اس معاملے میں ایک چیلنج یہ بھی تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان ملزمان کی حوالگی کا باقاعدہ کوئی معاہدہ نہیں تھا۔ وزیرداخلہ نے اس بارے میں معاہدہ کرنے کی کوشش بھی کی مگر برطانیہ کی طرف سے پاکستان میں سزائے موت پر اعتراض کیا گیا اور کہا گیا کہ پاکستان سزائے موت کو ختم کرے۔ اس لیے یہ معاملہ بھی آگے نہ بڑھ سکا اور ایک وقت آیا کہ ملزمان کی برطانیہ حوالگی سے متعلق تمام امیدیں دم توڑ گئیں۔

دوسری طرف تینوں ملزمان بدستور تحفظ پاکستان ایکٹ کے تحت زیر حراست تھے اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب تحفظ پاکستان ایکٹ کی مدت بھی پوری ہونے لگی اور برطانیہ سے ان ملزمان کی حوالگی کے حوالے سے کوئی اطلاع بھی نہ آئی۔ چونکہ ایف آئی اے نے تیاری مکمل کر لی تھی لہذا پانچ دسمبر 2015 کو عمران فاروق قتل کیس کی ایف آئی آر کے اندراج کے بعد تینوں ملزمان کو ایف آئی اے کے حوالے کر دیا گیا۔

یوں ایک نئے سلسلے کا آغاز ہو گیا۔

تینوں ملزمان کے لیے امید پیدا ہوگئی کہ اب وہ عدالت کے سامنے انصاف کے لیے پیش ہوں گے۔ اس دوران مجسٹریٹ کے سامنے ملزمان کے اعترافی بیانات ریکارڈ ہوئے۔ ایف آئی اے نے عدالت میں پہلے عبوری اور پھر حتمی چالان پیش کیا اور سب سے اہم بات یہ کہ برطانیہ نے باہمی تعاون کے تحت پاکستان کو کچھ ثبوت بھی فراہم کیے اور ایف آئی اے کے ساتھ ایک مبینہ تحریری معاہدہ بھی کر لیا گیا کہ اگر پاکستانی عدالت میں برطانوی حکام کو بلایا گیا تو وہ ضرور حاضر ہوں گے۔

برطانوی حکام نے معاہدے کی پاسداری کی اور وہ انسداد دہشتگردی اسلام آباد کی عدالت میں پیش بھی ہوئے۔

برطانیہ کے ساتھ پاکستانی عدالت میں پیش ہونے کا معاہدہ طے کرنے کے بعد ایف آئی اے شعبہ انسداد دہشتگردی ونگ کے سربراہ مظہرالحق کاکا خیل کا تبادلہ بھی ہو گیا۔ جس کے بعد اس شعبے کا نیا سربراہ مقرر کر دیا گیا تاہم کیس عدالت میں معمول کے مطابق آہستہ آہستہ چلتا رہا اور 18 جون کو اس کیس کا فیصلہ آ گیا اورالطاف حسین سمیت تمام افراد کو سزا سنا دی گئی۔

حیران ُکن بات یہ ہے کہ سزا پانے والوں میں کاشف کامران کا نام بھی شامل ہے کیونکہ ایف آئی اے کی طرف سے اس شخص کی مبینہ ہلاکت کے بارے میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا لیکن کراچی میں کاشف کامران کے اہلخانہ کو خاموشی سے ان کے بیٹے کی ہلاکت کی اطلاع دے دی گئی ہے، جس پر وہ ابھی تک یقین کرنے کو تیار نہیں۔

دوسری طرف اس کیس کو آگے لے جانے والے اصل کردار چوہدری نثار علی خان اس کیس سمیت نجانے کتنے رازوں کو اپنے دل میں سموئے راولپنڈی میں خاموشی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ شاید ایسے کرداروں کے لیے کسی ایوارڈ کی ضرورت بھی نہیں ہوتی!