ہیڈلائن

فارن فنڈنگ کیس: چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا

Share

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے بطور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار اور تحریک انصاف کے سابق عہدے دار اکبر ایس بابر کی پارٹی رکنیت کے حوالے سے دیے گئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔

چار دسمبر 2019 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے فارن فنڈنگ کیس میں درخواست گزار اور تحریک انصاف کے سابق عہدے دار اکبر ایس بابر کو پی ٹی آئی کا رکن قرار دیتے ہوئے اس کیس کو مزید شنوائی کے لیے واپس الیکشن کمیشن آف پاکستان بھیجنے کا فیصلہ سنایا تھا۔

اب عمران خان نے بطور پارٹی چیئرمین ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ خلاف قانون ہے۔

سنہ 2014 میں دائر ہونے والے فارن فنڈنگ کیس میں اکبر ایس بابر کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ تحریک انصاف نے سنہ 2007 سے سنہ 2012 تک جو پارٹی فنڈز بیرون ممالک سے اکھٹا کیے ان کی تفصیلات الیکشن کمیشن سے چھپائی گئی ہیں۔

سپریم کورٹ میں سنیچر کو دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے برعکس اکبر ایس بابر کا سنہ 2011 سے پاکستان تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں اور ان کی جانب سے پارٹی چھوڑتے وقت پارٹی چیئرمین کو جو ای میل کی گئی تھی وہ ریکارڈ پر موجود ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ آرٹیکل 199 کا اختیار استعمال کرتے ہوئے متنازع حقائق پر فیصلہ نہیں دے سکتی جبکہ اکبر ایس بابر فارن فنڈنگ کیس میں متاثرہ فریق بھی نہیں ہیں۔

پارٹی چیئرمین کی جانب سے یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ دیتے وقت سپریم کورٹ کے اس حوالے سے دیے گئے فیصلوں کو مدنظر نہیں رکھا۔

اکبر ایس بابر
اکبر ایس بابر

درخواست میں کہا گیا ہے کہ اکبر ایس بابر کا اس حوالے سے بننے والی سکروٹنی کمیٹی میں پیش ہونا بھی خلاف قانون ہے اور چونکہ وہ اس کیس میں متاثرہ فریق نہیں ہیں اس لیے الیکشن کمیشن کو ان کی جانب سے دائر کردہ کیس کو سننے کا اختیار بھی نہیں ہے۔

تحریک انصاف کے چیئرمین کی جانب سے سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے اکبر ایس بابر کی رکنیت کے حوالے سے دیے گئے فیصلے کو کالعدم قرار دے۔

فارن فنڈنگ کیس کیا ہے؟

الیکشن کمیشن میں تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کی درخواست تحریک انصاف کے بانی رکن اور سنہ 2011 تک پارٹی کے مختلف عہدوں پر فائز رہنے والے اکبر ایس بابر نے اپنے وکلا سید احمد حسن شاہ اور بدر اقبال چوہدری کے ذریعے دائر کی تھی۔

سنہ 2014 میں دائر ہونے والے اس کیس میں گذشتہ پانچ برسوں کے دوران 70 سے زائد سماعتیں ہوئی ہیں جبکہ تحریکِ انصاف کی جانب سے اس کیس میں التوا کی 30 درخواستیں مختلف عدالتوں اور الیکشن کمیشن میں دائر کی گئی ہیں۔

گذشتہ پانچ برس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریکِ انصاف کو پارٹی اکاؤنٹس کا ریکارڈ جمع کروانے کے لیے 21 نوٹس دیے جا چکے ہیں۔

اکبر ایس بابر کی درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ تحریک انصاف نے سیاسی جماعتوں کے لیے موجود قانون ’پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002‘ کی خلاف ورزی کی ہے اور اس لیے پارٹی چیئرمین عمران خان اور خلاف ورزیوں کے مرتکب دیگر قائدین کے خلاف کارروائی کی جائے۔

درخواست میں کہا کیا کہ تحریک انصاف سال نے سنہ 2007 سے سنہ 2012 تک جو فنڈ بیرونِ ملک سے اکھٹا کیا ہے اس کی تفصیلات الیکشن کمیشن سے چھپائی گئی ہیں۔

درخواست کے مطابق قانون کے تحت ہر سیاسی پارٹی کے لیے ہر سال حاصل کردہ فنڈ، اثاتے اور ان کی آڈٹ رپورٹ پیش کرنا لازمی ہوتا ہے۔ قانون کے مطابق کوئی بھی سیاسی پارٹی کسی بھی غیر ملکی سے کوئی بھی فنڈنگ حاصل نہیں کرسکتی۔ اسی طرح پاکستانی کمپنیوں، این جی او وغیرہ سے بھی فنڈنگ حاصل نہیں کی جا سکتی ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان

کیس میں اب تک کیا پیشرفت ہوئی ہے؟

  • اکبر ایس بابر نے 14 نومبر 2014 کو درخواست دائر کی تھی۔ اس کی ابتدائی سماعت کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس کو سماعت کے لیے منظور کر لیا تھا۔
  • الیکشن کمیشن میں ابتدائی سماعت کے بعد باقاعدہ سماعت ہوئی۔ یکم اپریل 2015 کو الیکشن کمیشن نے حکم جاری کیا کہ تحریک انصاف نے اپنی آڈٹ رپورٹ میں حاصل ہونے والے فنڈز اور ان کے ذرائع کی تمام تفصیلات ظاہر نہیں کیں۔
  • تحریک انصاف نے اس فیصلے کو الیکشن کمیشن کے سامنے ہی چیلنج اور کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ تحریک انصاف کے اکاؤنٹ کا آڈٹ کرے۔
  • الیکشن کمیشن نے 8 اکتوبر 2015 کو تحریک انصاف کی یہ درخواست خارج کردی۔
  • 26 نومبر 2015 کو تحریک انصاف نے اسلام ہائی کورٹ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دائرہ کار اور درخوست گزار اکبر ایس بابر کی حیثیت کو چیلنج کر دیا۔ یہ مقدمہ تقریباً ایک سال تک اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت رہا۔
  • 17فروری 2017 کو یہ کیس دوبارہ الیکشن کمیشن کو اس حکم کے ساتھ بھجوا دیا گیا کہ وہ درخواست گزار اکبر ایس بابر کی حیثیت کی جانچ کریں۔
  • الیکشن کمیشن نے دوبارہ سماعت کی اور انھیں اکبر ایس بابر کو تحریک انصاف سے نکالے جانے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
  • 10 نومبر 2015 کو تحریک انصاف کے فنڈز کی سکروٹنی ہونی تھی جس پر پارٹی نے دوبارہ عدالتوں سے رجوع کیا۔
  • 26 نومبر 2015 کو عمران خان نے پٹیشن دائر کی کہ وہ فنڈز کی سکروٹنی کے حوالے سے عام شہریوں کو جوابدہ نہیں ہیں۔
  • تحریک انصاف کی جانب سے مختلف اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرنے کے سبب الیکشن کمیشن میں سماعت عارضی طور پر رک گئی۔

الیکشن کمیشن میں اب تک کیا پیش رفت ہوئی؟

  • اعلیٰ عدالتوں سے حکم امتناعی خارج ہونے کے بعد دوبارہ الیکشن کمیشن میں سماعت کا آغاز ہوا۔ مارچ 2018 میں فنڈز کی سکروٹنی کے لیے کمیٹی قائم کر دی۔
  • تین جولائی 2018 کو الیکشن کمیشن نے قرار دیا کہ تحریک انصاف ضروری تفصیلات فراہم نہیں کر رہی ہے جس پر سٹیٹ بینک آف پاکستان سے 2009 سے لے کر 2013 تک تحریک انصاف کے بینک اکاوئنٹ طلب کیے گئے۔
  • سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو تحریک انصاف کے 23 بینک اکاوئنٹس کی تفصیلات فراہم کی گئیں جبکہ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے پاس آٹھ اکاوئنٹس کی تفصیلات فراہم کی تھیں۔
  • اکتوبر 2018 میں سکروٹنی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں کارروائی آگے نہ بڑھ سکی۔
  • ایک آڈیٹر کی تبدیلی کے بعد دوسرے آڈیٹر کی نامزدگی کی گئی۔
  • نئی سکروٹنی کمیٹی کا اجلاس مارچ 2019 میں ہوا جس میں تحریک انصاف سے 10 مالیاتی دستاویزات طلب کی گئیں۔
  • مئی میں ایک اور اجلاس ہوا مگر کارروائی آگے نہ بڑھ سکی۔ اسی اجلاس کے دوران تحریک انصاف نے سکروٹنی کمیٹی کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان کو درخواست دائر کی جس میں استدعا کی گئی کہ سکروٹنی کے عمل کو خفیہ رکھا جائے۔
  • اس پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 10 اکتوبر کو تحریک انصاف کو نوٹس لکھ کر تمام اعتراضات مسترد کرتے ہوئے سکروٹنی کمیٹی کو کارروائی جاری رکھنے کا کہا گیا۔
  • 29 اکتوبر 2019 کو کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ تحریک انصاف کے اکاؤنٹنٹ تو پیش ہوئے مگر وکلا نے بائیکاٹ کردیا اور موقف اختیار کیا کہ ان کی ایک درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
  • نومبر 2019 میں بھی اجلاس کی کارروائی نہ چل سکی۔ تحریک انصاف کے وکل کی جانب سے موقف پیش کیا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت جاری ہے۔