پاکستانمعیشت

قطر کے ساتھ نئے مذاکرات میں ایل این جی کی درآمد میں کمی پر غور کا امکان

Share

اسلام آباد: اقتصادی سست روی سے توانائی کی طلب میں کمی کے باعث پاکستان کی جانب سے قطر سے طویل المدتی معاہدے کے تحت مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی فراہمی میں کمی کی درخواست کیے جانے کا امکان ہے۔

 رپورٹ کے مطابق کا ذرائع نے بتایا کہ 28 نومبر کو کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے اجلاس میں پنجاب میں حویلی بہادر شاہ اور بلوکی میں نیشنل پاور پارکس منیجمنٹ کمپنی (این پی پی ایم سی) 2650 میگاواٹ کے 2 ایل جی این پلانٹس کی نجکاری کے باعث خطرات میں کمی کے قطر سے حالیہ مذاکرات کی تجویز پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

وزارت پیٹرولیم میں موجود ذرائع کے مطابق وزیراعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی جانب سے قطر سے مذاکرات کی تجویز پیش کی گئی تھی۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر نے ای سی سی کو آگاہ کیا اس سے قبل قطر نے اعلیٰ سطح پر ایل این جی کی قیمتوں میں کمی کی کوشش کو قبول نہیں کیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ رواں برس کے آغاز میں دوحہ میں وزیراعظم کے دوران اس وقت کے وزیر خزانہ اسد عمر نے قطر سے 15 سالہ معاہدے کے تحت پاکستان کو سپلائی کی جانے والی ایل این جی کی قیمت میں کمی کی درخواست کی تھی۔

ندیم بابر نے کہا کہ قطری حکام نے کہا تھا کہ دیگر ممالک کے ساتھ اسی طرح کے 26 معاہدے ہیں اور ایل این جی کی قیمت میں کمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

تاہم قطری حکام پاکستان کے خسارے میں کمی کے لیے کسی اور منصوبے پر غور کرنے کے لیے تیار تھے لہٰذا 2 آپشنز پر غور کیا گیا تھا جس میں پاکستانی بینکوں میں قطر کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر اور کم نرخ پر ایل این جی کی اضافی مقدار کی سپلائی شامل ہیں۔

ان میں ایل این جی کی اضافی سپلائی کے آپشن کو اس وقت کے وزیر پیٹرولیم غلام سرور خان نے مسترد کیا تھا۔

ڈاکٹر حفیظ شیخ نے پیٹرولیم ڈویژن کو قطر کے ساتھ ایل این جی سپلائز کے معاہدے میں تبدیلی کے نئے آپشنز اٹھانے کی ہدایت اور پاکستان قیمتوں کے فرق کو منظور کرنے کے لیے تیار ہوگا۔

توانائی ڈویژن نے 2 پاور پلاںٹس کی نجکاری کو آسان بنانے کے لیے ان کو دی گئی ضمانتی 66 فیصد ایل این جی آف ٹیک سے استثنیٰ دینے کی پیشکش کی۔

اقتصادی رابطہ کمیٹی کے کچھ ارکان نے نشاندہی کی کہ 300 ارب روپے میں دونوں پاور پلانٹس کو فروخت اور ان پاور پلانٹس کے لیے ایل این جی کی قیمت کے فرق کے لیے سالانہ 117 ارب روپے کی سبسڈی غیردانشمندانہ فیصلہ معلوم ہوتی ہے۔

پاکستان اسٹیٹ آئل اور سوئی گیس کی 2 کمپنیوں نے بھی سالانہ 66فیصد ایل این جی آف ٹیک سے دستبرداری کی مخالفت کی اور کہا کہا کہ اس حوالے سے یکے بعد دیگرے کیے گئے معاہدے پاورسیکٹر کے استعمال پر مبنی ہیں اور وہ دیوالیہ ہوجائیں گے۔

مخالفت کے بعد ای سی سی نے 8 نومبر کو فیصلہ کیا تھا کہ این پی پی ایم سی ایل کے نجکاری پلان کو فوری طور پر حتمی شکل دے کر عملدرآمد کیا جاسکتا ہے۔

تاہم کمپنیوں کی جانب سے تحفظات کے اظہار پر وفاقی کابینہ نے 19 نومبر پر اس مسئلے پر نظر ثانی کی اور ای سی سی کے فیصلے میں ترمیم کی۔

وفاقی کابینہ نے حکم دیا کہ این پی پی ایم سی ایل کے نجکاری مںصوبے کو فوری طور پر حتمی شکل دے کر اس پر توانائی کی خرید اور ایندھن سپلائی کے موجودہ معاہدوں کی بنیاد پر عملدرآمد کیا جاسکتا ہے۔