منتخب تحریریں

لالی وڈ اور اِسلُو

Share

بدلتی دنیا کے جدید فنکی (Funki) اسلوب میں لاہور کو لالی وڈ اور اسلام آباد کو اِسلُو کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ لاہور دو ہزار سال پرانا شہر ہے۔ 10صدیوں سے یہ ہنستا، بستا اور آبادشہر رہا ہے، اسلام آباد کی عمر ابھی چند دہائیاں ہے، اس لئے دونوں کی تہذیب و ثقافت، رسم و رواج اور نشست و برخاست میں واضح فرق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں شہروں کے سیاسی مزاج میں بھی زمین آسمان جتنا فرق ہے۔

حتیٰ کہ لاہور اور اسلام آباد میں دیے گئے بیانات تک میں تضاد نظر آتا ہے۔ لاہور میں بیان دیا گیا کہ بزدار بےخوف ہوکر کام جاری رکھیں۔ پنجاب میں کوئی تبدیلی نہیں آ رہی۔ دوسری طرف اسلام آباد کے شہرِ بےوفا میں پنجاب کے متبادل امیدواروں کے حوالے سے میٹنگز جاری ہیں۔ گویا لاہور میں جو کچھ کہا گیا وہ غلط ہے یا جو کچھ اسلام آباد میں ہو رہا ہے وہ غلط ہے۔

سب کا اتفاق ہے کہ حتمی فیصلے کا اختیار وزیراعظم کے پاس ہے۔ تبدیلی کا فیصلہ بھی انہوں نے کرنا ہے اور متبادل کو بھی انہی نے چننا ہے، افواہیں بہت ہیں مگر بزکش کا روحانی کلہ مضبوط ہے روحانی تشریح یہ ہے کہ اگر پنجاب سے عین (عثمان) جاتا ہے تو پھر مرکز کے عین (عمران) کو بھی خطرہ ہوگا اس لئے پنجاب کو نہ چھیڑا جائے ورنہ مرکز میں بھی ہل چل مچ جائے گی۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ بزدار کی تبدیلی کے حوالے سے چودھریوں نے انوکی لاک لگا رکھا ہے۔

ان کے قریبی حلقے کہتے ہیں کہ یا بزدار یا پھر چودھری، تیسرا کوئی نہیں آئے گا۔ دوسری طرف عمران خان چودھری کو اقتدار دینا نہیں چاہتے وہ خائف ہیں کہ چودھری وزیراعلیٰ بن گیا تو خیمہ پھر صرف اونٹ کا ہوگا، باقی سب فارغ ہو جائیں گے۔ کچھ عرصہ پہلے اس مفروضے پر بھی غور کیا گیا کہ اگر (ق) لیگ کو تحریک انصاف میں ضم کر دیا جائے تو چوہدری تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ کے طور پر لائے جا سکتے ہیں۔

اس حوالے سے قانونی ماہرین سے مشورہ کیا گیا تو پتا چلا کہ اگر ایسا ہوا تو نااہلی کا ڈر ہے یا پھر پرانی پارٹی سے استعفیٰ دے کر نئے سرے سے الیکشن لڑنا ہوگا۔ چوہدری پہلے بھی تیار نہ تھے کہ بڑی مشکل سے انہوں نے پارٹی کو کھڑا کیا ہے اس رائے کے بعد (ق) لیگ کے تحریک انصاف میں ضم ہونے کا باب ہی بند ہو گیا۔

تحریک انصاف کے ایک اہم صوبائی رکن کا خیال ہے کہ اگر آج الیکشن ہو تو (ن)لیگ سوائے چند نشستوں کے سارا پنجاب جیت جائے گی کیونکہ (ن)لیگ کے مقابلے کے لئے سرے سے کوئی سیاسی حکمت عملی بنائی ہی نہیں گئی، اس رکن کا خیال ہے کہ اگر (ن) لیگ کا مَکو ٹھپنا ہے یا اس کو مقابلہ میں ہراناہے تو پھر ہر صورت چوہدری پرویز الٰہی کو لانا ہوگا کیونکہ ایک صرف وہی ہے جو پنجاب کے نو ڈویژنوں اور 36اضلاع کے بلدیاتی انتخابات میں حکومت کو کامیابی دلا سکتا ہے اور اگلے عام انتخابات کی ایسی حکمت عملی بنا سکتا ہے جس سے تحریک انصاف اور اس کے اتحادی جیت سکیں۔ تاہم عمران خان اور تحریک انصاف کے اکثریتی حلقے چوہدری کو وزارتِ اعلیٰ کسی صورت دینے کے حق میں نہیں ہیں۔

یادش بخیر میاں نواز شریف جب پنجاب کے وزیراعلیٰ ہوتے تھے تو پہلے یہ خبر لیک کی جاتی تھی کہ صوبائی کابینہ میں ردوبدل ہونے والا ہے۔ وزراء میں ہل چل مچ جاتی، فوراً سرکاری طور پر تردید کی جاتی کہ کابینہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہو رہی اور پھر ایک دو ہفتے بعد خاموشی سے کابینہ میں تبدیلی کر دی جاتی۔ ا

ب بھی یہی ہوا کہ پنجاب میں تبدیلی کی خبر نکل گئی تو تبدیلی کو موخر کر دیا گیا، تبدیلی میں تاخیر سے حالات میں بہتری کی بہرحال گنجائش نہیں۔ وزیراعظم کے دورے کے دن صرف یہ کہا گیا کہ بزدار کہیں نہیں جا رہے مگر اس کے اگلے دن سے جو خبریں سامنے آئی ہیں ان سے تو ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم تو بزکش کے پَر کاٹنے آئے تھے، اسد کھوکھر بیچارے اس کا نشانہ بن گئے، اُن کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ بزکش کے نفسِ ناطقہ بنے ہوئے تھے۔

پہلے وہ وزیراعلیٰ شکایت سیل کے سربراہ بنے، وہاں سے ہٹا دیئے گئے یا انہوں نے خود ہی اسے چھوڑ دیا پھر ان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کیا گیا کہ انہوں نے بزکش پر مہربانیاں کی ہیں جس کے بدلے وہ وزیر بنائے گئے ہیں، اب وزیراعظم نے نہ صرف اسد کھوکھر کی وزارت سے استعفیٰ لے لیا ہے بلکہ وزیراعلیٰ کے لگائے گئے دو اعلیٰ انتظامی افسروں کو بھی فارغ کر دیا گیا ہے۔ گویا مکمل تبدیلی تو نہیں آئی مگر پنجاب میں وزیراعلیٰ کو کٹ ٹو سائز ضرور کر دیا گیا ہے۔

پنجاب کے حوالے سے حقائق بڑے تلخ ہیں، جون میں ختم ہونے والے گزشتہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ کا صرف 44فیصد خرچ ہوا ہے جبکہ 56فیصد فنڈ بغیر استعمال ہوئے واپس خزانے میں چلا گیا ہے۔ کسی بھی حکومت کی کارکردگی ایسی ہو کہ وہ اپنے ہی تفویض کردہ بجٹ کو استعمال نہ کر سکے تو اسے کسی بھی طرح مثالی نہیں قرار دیا جا سکتا۔

گزشتہ دو برسوں میں پنجاب کے 33اضلاع میں ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہوا ہے۔ میانوالی، تحصیل تونسہ اور ضلع چکوال میں البتہ بہترین صورتحال رہی ہے اسی لئے ارکانِ صوبائی اسمبلی مناسب ترقیاتی بجٹ نہ ملنے پر شکایت کناں نظر آتے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے مطابق یہ چھ ماہ سمت متعین کرنے کے ہیں یعنی ڈیلیوری شروع ہو جانی چاہئے، اس کے لئے صوبائی شاخوں اور حکومتوں کا کردار سب سے اہم ہے۔ پنجاب کے ترقیاتی فنڈز کے استعمال کی شرح کے بعد آپ خیبر پختونخوا کے بارے میں جانیں گے تو اور بھی پریشان ہو جائیں گے وہاں ترقیاتی بجٹ کا صرف 35فیصد استعمال ہوا ہے جبکہ 65فیصد حصہ بغیر استعمال ہوئے واپس سرکاری خزانے میں چلا گیا ہے۔

اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبے بہت اہم ہیں اس لئے صوبوں کو چلانے والے وزرائے اعلیٰ باصلاحیت ہونے چاہئیں جو سیاست اور انتظامیہ دونوں کو بہتر طور پر چلائیں۔ اگر ملک نے ترقی کرنی ہے تو صوبوں کی صلاحیت میں بہتری لانی ہوگی، اس کے بعد اضلاع کی سطح پر صلاحیتوں کو بہتر کرنا ہوگا تبھی ملک میں یکساں ترقی ہو سکے گی وگرنہ سیاست اور ترقی کا پہیہ لالی وڈ اور اِسلُو کے گرد ہی گھومتا رہے گا۔