کالم

لاک ڈاؤن کے مردوں پہ اثرات

Share

  صاحبو کورونا لاکھ مہلک سہی مگر بلا خوف تردید عرض ہے کہ کئی لوگ ایسے بھی ییں کہ جو کورونا وائرس سے زیادہ خطرناک ہیں … بلکہ ان میں چند تو ایسے بھی ہیں کہ ان کے ممکنہ لواحقین ان کے بدلے کورونا وائرس لینے تک بھی تیار ہوچکے ہیں ۔۔۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جو گھر میں کچن کے عین سامنے کمرے یا لاؤنج میں دھرے نت نئی فرمائشیں کرتے نہیں تھک رہے – بس پڑے پڑے کھاتے ہیں اور وہیں ذرا دیر کو لڑھک پڑھک جاتے ہیں پھر چند گھنٹے بعد مجبوراً‌ ذرا بیت الخلاء کا چکر لگا آتے ہیں کہ پیٹ کے لحمیاتی گودام میں کچھ اسٹاک آؤٹ کرکے نئے کی گنجائش پیدا کرسکیں اور نئی فرمائش کے لیئے پھر سے تازہ دم ہوسکیں‌  ۔۔۔ اس لاک ڈآؤن سے  زیادہ برا حشر ان بیویوں کا ہوا ہے کہ جو شادی سے پہلے کبھی اپنے شوہروں کی محبوبہ کے درجے پہ فائز رہ چکی ہیں اور جنہیں بعد از شادی تاعمر اس حماقت عظمیٰ یعنی متروک محبت کا تاوان بھرنا پڑتا ہے ورنہ ایسے پلنگ نشین صآحب بہادر کو ایسے طعنوں سے کلیجہ چھلنی کرنے میں بھلا کیا دیر لگتی ہے کہ ‘ تم اب وہ پہلے جیسی نہیں رہیں۔۔’ اس لاک ڈاؤن کے زمانے میں وہ وفا کی ُپتلیاں اب شب و روز وفا کے خمیازے بھگت بھگت کے محض ‘ َپتلیاں ‘ بن کے رہ گئی ہیں ۔۔۔۔
 
اس لاک ڈاؤن کے زمانے میں ایک تاریخی حوالہ بھی ذہن میں گونجنے لگا ہےاور وہ یہ کہ بابائے قوم نے قوم کو تلقین کی تھی ‘کام کام اور صرف کام’ لیکن چونکہ اس تلقین میں کام کی نوعیت واضح نہیں تھی اور لغت و قوائد کی رو سے کوئی بھی فعل ایک کام ہے اس لیئے ان دنوں ہماری قوم دن رات آرام کا کام کرنے میں مصروف ہے ۔۔  ہر گھر کا ہر کمرہ بلکہ لاؤنج اور برآمدے بھی آرام باغ بنے ہوئے ہیں اورلاک ڈاؤن سے سب سے زیادہ سبق تو زیادہ تر نئے ازدواجی جوڑے نے سیکھا ہے کہ اب انکے کمروں میں رات کا چند گھنٹوں کا لاک ڈاؤن دن دن بھر چلتا دیکھا جا رہا ہے ۔۔۔ اب ہر گھر میں زیادہ تر وقت لڑکے بالے اور بالیاں موبائل میں ڈوبے پڑے رہتے ہیں ۔۔۔ اکثر کے والدین انکے پاس جاکے خوب ڈانٹ پلاتے ہیں جس سے عاجز آکے وہ کوئی کتاب تو اٹھا لیتے ہیں لیکن جلد ہی پھر سو جانے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں اور یوں والدین کو بھی راحت کی کچھ بے خطر گھڑیاں پھر میسر آجاتی ہیں کوئی اسے اولاد کی اس غفلت کا فائدہ اٹھانا سمجھے تو یہ اسکی مرضی جو چاہے سمجھے لیکن مجھے قوی خدشہ ہے کہ مستقبل قریب میں اس طرح کے بےتحاشا خشوع و خضوع سے کیئے گئے کاموں اور غفلتوں کی اساس پہ کی گئی ہوشیاریوں کے نتائج صرف تنہا محکمہء بہبود آبادی ہی نہیں پوری قوم بھگتے گی کیونکہ میں آج کل جابجا اگتے ان بیشمار قرنطینہ کیمپوں کو چند ماہ میں ‘لیبر روموں ‘ میں بدلتے دیکھ رہا ہوں  

مجھے کامل یقین ہے کہ کورونا ہم اہل جذبات کو کبھی شکست نہیں دے سکتا خصوصآً جبکہ اس جیسے دجالوں  سے لڑنے کےلیئے نیا لشکر جرار میدان میں اتارنے کی وافر فراغت بھی فراہم کردی گئی ہے ۔۔۔۔  کیا ہماراغنیم نہیں جانتا کہ ہم میں ‌سے اکثر تو وہ ہیں کہ اک ذرا فرصت ملنے کی دیر ہے۔۔  پورے لشکر کا انتظام کرنے کے لیئے آناً فاناً جٹ جاتے ہیں اور جھٹ پٹ بستر پہ ہی میدان جنگ سجاکے کشتوں کے پشتے لگا ڈالتے ہیں ۔۔۔ دیکھنا ، کچھ ہی دنوں کی بات ہے۔۔۔ حمل و نقل کا اژدہام دور نہیں ، بہتیرے گھروں سے تو ابھی سے الٹیوں‌ کی صدائیں گونجنے بھی لگی ہیں ۔۔۔۔۔ تاہم میرا معاملہ ذرا مختلف ہے ۔۔۔۔ خانگی محاز پہ 6 مورچے کھڑے کرنے کے بعد یکایک اپنا واٹر لو آگیا ہے کیونکہ تیر اور تفنگ کی بجائے قلم بھاگیا ہے ۔۔۔ لیکن کوئی پڑھے لکھے بھی تو کبتک اور کہاں تک ۔۔۔ میں بھی آج کل گھر پڑے پڑے خود کو بہو بیٹی سا محسوس کرنے لگا ہوں ، املی سواد دینے لگی ہے ۔۔ ڈر ہے کہ چند دن اور یونہی گزرے تو کہیں بات بڑھ کر سر پہ آنچل رکھنے تک نہ پہنچ جائے اور رائٹنگ پیڈ  چھوڑ کے میں پگلا یملا کسی اور طرح کے پیڈ تلاش نہ کرتا پھروں –

لاک ڈاؤن میں اتنے دنوں گھر گھسنا بنے رہنے کے بعد عالم یہ ہے جیسے میرا ناک ڈاؤن ہوگیا ہے کہ مزاج کا سب طنطنہ رخصت ہوا اور رہی زبان تو وہ تو اب ہر وقت جھنجھنا سی بجنے پہ اتارو ہے ۔۔۔ سچ مانو ہر وقت ادھر ادھر کی کن سوئیاں لینے اور ڈھیروں چغلیاں کرنے کو من کرتا ہے  ۔۔۔ نجانے کیوں اکثر بے وجہ روٹھ جاتا ہوں اور منائے بغیر ہی مان بھی جاتا ہوں کیونکہ جانتا ہوں‌ کوئی نہ منائے گا کہ اب گھریلو پیار کی پیاز کے سب چھلکے اتر چکے ہیں ۔۔۔ کیا بتاؤں کہ کرونائی محاصرے کے اس قیدی کے طور اطوار کچھ ایسے بدلے ہیں‌ کہ جنریشن گیپ ہی نہیں جینڈر گیپ بھی خطرے میں محسوس ہورہا ہے ۔۔۔  ان تعطیلات میں اک بڑی خرابی یہ ہوئی ہے کہ دفتر کا تو جیسے پتا ہی بھول سا گیا ہوں ۔۔۔ اب تو آرام سے ایسی الفت ہوئی ہے کہ اب کسی کام کو دل نہیں کرتا ۔۔۔ اور اگر کبھی کوئی کام کربھی لوں تو اسے کام ماننے کا بیگم کا دل نہیں کرتا ۔۔۔  اب تو کئی دن لاک ڈاؤن میں رہ چکنے کے بعد یوں لگتا ہے کہ جیسے طبیعت آوارگی کی طرف مائل ہے کیونکہ نہ کہیں آنا نا جانا ۔۔۔ پیروں ۔ وڈیروں اور حاملاؤں کی مانند گھر میں پہروں ایک ہی جگہ دھرا رہتا ہوں ۔۔۔  صبح و شام  ایک سی صورتیں دیکھ کر عجب سوگواری بلکہ بیزاری سی فضاء میں چھائی محسوس ہوتی ہے ایسے میں کیا کیا جائے ۔۔۔ پڑوس سے بھی چنداں جانفزاء راحت کی کمک نہیں مل سکتی کیونکہ پڑوسی بھی تو لاک ڈاؤن کی وجہ سے  آج کل گھر پہ ہی ہے نا ۔۔۔