دنیابھرسے

لداخ سرحدی تنازع: گلوان میں انڈین اور چینی افواج کے پیچھے ہٹنے کا مطلب کیا ہے؟

Share

انڈیا اور چین کے درمیان مشرقی لداخ کی سرحد پر فی الحال کشیدگی کم کی جا رہی ہے۔ انڈیا اور چین دونوں کا کہنا ہے کہ تناؤ کو کم کرنے کے لیے دونوں ممالک میں اتفاق ہوا ہے۔

سوموار کو چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے کہا: ‘چینی اور انڈین فوجیوں نے 30 جون کو کمانڈر سطح کے مذاکرات کا تیسرا دور منعقد ہوا۔ دونوں فریقوں نے اتفاق کیا کہ وہ اس سے قبل کمانڈر سطح کے منعقدہ مذاکرات کے دو ادوار میں ہونے والے معاہدے کو عملی جامہ پہنائیں گے اور ہم نے سرحد پر کشیدگی کم کرنے کے لیے موثر اقدامات کیے ہیں۔’

ایسے میں بہت سے سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔ پہلا اہم سوال یہ ہے کہ اگر انڈین فوج اپنی ہی سرزمین پر تھی تو وہ پیچھے کیوں ہٹ رہی ہے؟

آخر ہوا کیا ہے؟

انڈین عہدیداروں نے پیر کو بی بی سی کو بتایا تھا کہ چینی فوج نے گلوان، گوگرا اور ہاٹ سپرنگس کے علاقوں سے ہٹنا شروع کردیا ہے۔

یہ کہا جا رہا ہے کہ اب فوجی اس پوزیشن میں نہیں ہیں جسے پہلے ‘آئی بال ٹو آئی بال کی صورتحال’ کہا جا رہا تھا۔ لیکن کشیدگی کم کرنے کا کام ابھی بھی محدود سطح پر ہی جاری ہے۔ حکام نے بتایا کہ یہ کام تین جگہوں پر جاری ہے اور یہ مقامات گلوان، گوگرا اور ہاٹ اسپرنگس ہیں۔

بی بی سی کو معلومات دینے والے افسر نے واضح کیا تھا کہ وہ ڈیپسانگ یا پینگونگ تسو جھیل کی بات نہیں کررہے ہیں۔ ایک اور افسر نے کہا تھا: ‘خیمے اور عارضی ڈھانچے دونوں جانب سے ہٹائے جارہے ہیں اور فوجی پیچھے ہٹ رہے ہیں۔’

انھوں نے کہا: ‘یہ اس عمل کا آغاز ہے جس کا فیصلہ 30 جون کو چسول میں دونوں فریقین کے کمانڈروں کی میٹنگ میں کیا گیا تھا۔’

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے پیر کو بیجنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ ‘دونوں فریق سرحد پر تناؤ کم کرنے پر متفق ہیں اور اپنی فوج کو سرحد سے ہٹا رہے ہیں۔’

گذشتہ اتوار کو انڈیا کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال اور چینی وزیر خارجہ وانگ یی کے درمیان ٹیلیفون پر بات چیت ہوئی۔ اس کے بعد انڈیا میں چینی سفیر سن ویڈونگ نے اس گفتگو کی تفصیلات جاری کر دی ہیں۔

اجیت ڈوبھال اور چینی وزیر خارجہ
انڈیا کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال اور چینی وزیر خارجہ وانگ یی کی گفتگو میں بنیادی طور پر مندرجہ ذیل چار چیزوں پر اتفاق کیا گیا ہے
  1. دونوں ممالک کے مابین ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ دونوں نے سرحدی علاقوں میں امن کے ساتھ ساتھ ترقی کے لیے طویل عرصے تک مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
  2. دونوں ممالک آپسی سمجھوتے کے مطابق مشترکہ طور پر سرحد پر تناؤ کو کم کرنے کی کوشش کریں گے۔
  3. خصوصی نمائندوں کے مابین ہونے والی گفتگو کے ذریعے دونوں فریق باہمی رابطے کو بہتر بنائیں گے۔ انڈیا اور چین کے درمیان سرحدی معاملات میں مشورے اور ہم آہنگی کے لیے ورکنگ میکانزم کے نظام کو باقاعدگی سے بہتر بنایا جائے گا۔ اس سے دونوں فریقوں کے مابین باہمی اعتماد کو تقویت ملے گی۔
  4. دونوں فریقوں کے درمیان حالیہ منعقدہ کمانڈر سطح کے اجلاس میں متفقہ چیزوں کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔ یکم جولائی کو کمانڈر سطح کے اجلاس میں فریقین نے سرحد پر تناؤ کو کم کرنے پر اتفاق کیا۔

اسی کے ساتھ انڈین وزارت خارجہ نے بھی اپنے سرکاری بیان میں کہا ہے کہ دونوں فریقوں کو ایل اے سی (لائن آف ایکچول کنٹرول) پر جاری ڈس انگیجمنٹ کا عمل جلد مکمل کرنا چاہیے۔

لیکن بیانات اور امن کی طرف بڑھنے کی مثبت خبروں کے درمیان انڈین وزارت خارجہ کی جانب سے اس سوال کا کوئی واضح جواب نہیں آیا ہے کہ کیا انڈین فوجی بھی اس معاہدے کی بنیاد پر پیچھے ہٹ رہے ہیں۔

اور اگر ایسا ہو رہا ہے تو پھر یہ کیوں ہو رہا ہے جب کہ چینی فوجی پینگونگ تسو جھیل سے پیچھے نہیں ہٹ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ چینی فوجی دیپسانگ کے علاقے میں بھی موجود ہیں۔

انڈیا، چین

گلوان میں چینی فوجی کیوں پیچھے ہٹ رہے ہیں؟

پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چینی فوجی گلوان خطے میں کیوں پیچھے ہٹ رہے ہیں۔

سینیئر صحافی اور چین پر متعدد کتابوں کے مصنف پریم شنکر جھا کا کہنا ہے کہ اس سوال کا جواب وزیر اعظم مودی کے لیہہ کے دورے میں پوشیدہ ہے۔

انھوں نے کہا: ‘چین کے بارے میں ایک بات واضح ہے کہ وہ اشاروں کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی لیہہ گئے اور اپنی فوج کی حوصلہ افزائی کی لیکن انھوں نے چین کا نام نہیں لیا۔ چین نے اس کا یہ مطلب نکالا کہ انڈیا جنگ نہیں چاہتا۔ ڈپلومیسی میں اشارے بہت خفیف ہوتے ہیں اور انھیں سمجھنا ہوتا ہے۔ چین اس اشارے کو سمجھ گیا لیکن ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہ معاملہ کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ ایک آغاز ہے۔’

دوسری جانب چین اور انڈیا تعلقات پر نگاہ رکھنے والے جے این یو کے پروفیسر سوورن سنگھ کا کہنا ہے کہ اس وقت بس اتنا کہا جا سکتا ہے کہ دونوں فریق مذاکرات کا رویہ دکھا رہے ہیں، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔

سوورن سنگھ نے کہا: ‘دونوں ملکوں کے نمائندوں سے لے کر لداخ بارڈر پر بریگیڈ کمانڈر اور کور کمانڈر کی سطح تک بات چیت جاری ہے۔ دونوں فریقوں کا کہنا ہے کہ وہ بات چیت میں یقین رکھتے ہیں۔ لیکن اسی دوران فوج اور فوجی سازوسامان کی آمد کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ لہذا جب تک حکومت کی طرف سے بیان جاری نہیں ہوتا تب تک صورتحال مبہم اور تناؤ کا شکار رہے گی۔اس وقت صورتحال وہ ہے جسے ڈاکٹر کہتے ہیں ‘سٹیبل بٹ کریٹیکل’ یعنی صورتحال متوازن ہے۔ لیکن خطرہ باقی ہے۔’

وادی گلوان

پینگونگ تسو اور دیپسانگ میں چینی فوجی کیوں ہیں؟

جب سے وادی گلوان میں انڈیا اور چینی فوجیوں کے مابین بڑھتے ہوئے فاصلے کی خبر موصول ہوئی ہے اس وقت سے سوشل میڈیا سے لے کر میڈیا رپورٹس تک ایک مثبت رجحان ہے۔ لیکن پریم شنکر جھا کا ماننا ہے کہ اسے مسئلے کے خاتمے کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے کیونکہ چینی فوجی اب بھی ڈیپسانگ اور پینگونگ علاقے سے پیچھے نہیں ہٹے ہیں۔

انھوں نے کہا: ‘ڈپسانگ میں ان کی موجودگی سے پتہ چلتا ہے کہ وہ قراقرم کے بارے میں بہت فکر مند ہیں۔ عسکری حکمت عملی کے مطابق چین نے پینگونگ جھیل کے اس علاقے میں اپنی پوزیشن مستحکم کر لی ہے جس پر اب تک اس کا دعوی تھا۔ اور وہ اس وقت تک وہاں سے پیچھے نہیں جائے گا جب تک دونوں ممالک کے مابین ایک نئی فہم پیدا نہ ہوجائے۔’

‘انڈیا اینڈ چائنا’ کے مصنف پریم شنکر جھا کا کہنا ہے کہ ‘چینی فوج نے پینگونگ جھیل کے علاقے میں فنگر 4 پر قبضہ کرلیا ہے جس پر وہ پہلے اپنا دعویٰ کرتے تھے۔ اسی کے ساتھ انڈیا فنگر 8 تک ادعوی کرتا ہے۔ اس طرح چین نے چار پہاڑی سلسلوں میں اپنی پوزیشن مستحکم کر لی ہے جو اب تک متنازع علاقے تھے۔ ایسے میں مودی نے ٹھیک ہی کہا کہ چینی انڈین سرحد میں نہیں آئے ہیں کیونکہ وہ جہاں آئے وہ ایک متنازعہ جگہ ہے۔’

انڈیا، چین

زمینی حالات میں تین مہینوں میں کیا فرق تھا؟

جغرافیائی طور پر دیکھیں تو دیپسانگ کے میدانی علاقوں اور پینگوگ جھیل کے علاقے میں چینی فوجیوں کی موجودگی پہلے کی نسبت زیادہ مضبوط ہوئی ہے لیکن پریم شنکر جھا کا خیال ہے کہ اس کو معاملے کو صرف زمین پر قبضے کے نقطہ نظر سے نہیں دیکھا جانا چاہیے۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘دونوں ممالک کے پاس زمین کی قلت نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں زمین کے تعلق سے یہ دیکھنا مناسب نہیں ہوگا کہ کتنے قدم آگے بڑھا لیے ہیں۔ میرے خیال سے اسے اسٹریٹجک پیغامات کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ انڈیا اور چین کے مابین سنہ 2014 سے پہلے آپسی سمجھ بہت بہتر تھی۔ لیکن پچھلے کچھ سالوں میں انڈین حکومت کے اقدامات نے چین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے کہ وہ اس طرح کے اقدامات کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔’

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے پریم شنکر جھا نے کہا: ‘حکومت ہند کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 370 پر فیصلہ کرنا، لداخ کو مرکزی خطہ بنانا اور ایک نیا نقشہ جاری کرکے اس میں اکسائی چین کو شامل کرنا وغیرہ ایسے فیصلے ہیں جو چین کو ناگوار گزرے۔ اس کے بعد چین پاکستان کے ساتھ اپنے اقتصادی منصوبے سیپیک کی سلامتی کے بارے میں متفکر ہوگیا ہے، کیونکہ اس میں اس نے اس قدر سرمایہ کاری کی ہے تاکہ اگر مغربی ممالک کبھی اس کے تجارتی سامانوں کے لیے سمندری راستے میں رکاوٹ ڈالیں تو وہ اپنا سامان اس بیک ڈور سے پہنچا سکے۔

‘لیکن انڈیا کی حالیہ سرگرمیوں سے چین کے اس حوصلہ مندانہ منصوبے کا مستقبل پریشانی کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ اسی لیے چین پہلے بات چیت کے اشارے بھیج رہا تھا کہ یہ سب ٹھیک نہیں ہورہا ہے اور اب وہ فوجی انداز میں اشارہ ہے۔ بھیج رہا ہے۔’

وادی گلوان

انڈیا کیوں پیچھے ہٹ رہا ہے؟

نیپال میں تری بھوون یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر اور بین الاقوامی امور کے ماہر پشپ ادھیکاری کا خیال ہے کہ اگر انڈین فوج پیچھے ہٹی ہے اس کے پس پشت بین الاقوامی دباؤ بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے۔

ادھیکاری نے کہا: ‘اولا تو میں یہ نہیں مانتا کہ گلوان کے بارے میں میڈیا رپورٹس میں جو کچھ آرہا ہے وہ مکمل طور پر درست ہے۔ لیکن اگر ایک لمحے کے لیے یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ ہو رہا ہے تو پھر میرے مطابق بین الاقوامی دباؤ اس کے لیے ذمہ دار ہوسکتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ انڈیا یہ سمجھنا چاہتا ہو کہ اس کی عسکیر صلاحیت کتنی ہے، اس کی وجہ سے انڈین حکومت یہ قدامات لے سکتی ہے۔’

وہ کہتے ہیں: ‘اس وقت پورے برصغیر میں تعطل کی فضا تیار ہو رہی ہے اور یہ کسی کے بھی حق میں نہیں ہے۔ اور کیا دنیا کی دو بڑی معیشتوں اور آنے والے سپر پاور کو آپس میں ٹکرانا چاہیے؟ یہ دونوں ممالک جانتے ہیں۔

‘موجودہ صورتحال کے پیش نظر ایسا نظر آتا ہے کہ انڈیا چین تعلقات کے معاملے میں ایک نیم تعطل ہے اور آنے والے وقت میں اس میں کئی موڑ نظر آ سکتے ہیں۔’