کالم

مزاح کا عہد، مشتاق احمد یوسفی!

Share

یوں تو ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسے ہنسنا اور ہنسانا آتا ہے، درست ہے کہ ”ہنسنا“خوشی کے احساس کا نام ہے، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہر ہنسی خوشی کا اظہار ہوا کرتی ہے، کیونکہ جو لوگ اپنے دکھ درد اپنے دل میں چھپا کر ہنس رہے ہیں ان کی ہنسی، دل لگی اور مذاق کو کیا نام دینا چاہیے۔ صرف ہنسنے اور ہنسانے کا عمل مزاح نہیں، مزاح نہ لطیفہ گوئی ہے، نہ تضحیک نہ طنز۔ اس کے لیے لہجے کی ظرافت، عظمت خیال اور کلاسیکی رچاؤ کے ساتھ مہذب جملوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مزاح وہی ہے جو بظاہر تو ہلکی پھلکی لطافت اور ظرافت میں ڈوبی تحریر لگے لیکن قاری کو لطیفے پر قہقہہ لگا کر بھول جانے کے بجائے یکلخت اس تحریر کی گہرائی میں جا کر سنجیدگی سے اپنے آپ کا جائزہ لینے پر مجبور کر دے۔ رد عمل بجلی کی چمک کی طرح ذہن میں اس طرح کوندے کہ اسے لگے کہ کسی نے اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔اور ایک ایسا مزاح جو جذبات کو مجروح کیے بغیر، اور کسی کی دل آزاری سے عاری ہو وہ صرف مطالعے ہی سے وجود میں آتا ہے۔مشتاق احمد یوسفی کو نفسیات انسانی اور جذبات انسانی کا مکمل شعور تھا، ان کی تحریروں میں طنز اور مزاح اصلاح معاشرہ کے معنوں میں استعمال ہوتا نظر آتا ہے۔ وہ پچھلے کئی برسوں سے اس عرق ریزی کے ذریعے اپنے قارئین و سامعین کو زمانے کی تلخیوں سے روشناس کرواتے رہے ہیں، اور اپنی زندہ جاوید ہستی سے اچھا اور مثبت مزاح تخلیق کرتے رہے ہیں۔ ان کا ہر مضمون ہم جیسے ایک عام آدمی کا ایسا خاکہ ہے جس میں کروڑوں انسانوں ہی کی نہیں بلکہ پوری تہذیب اور ثقافت کی تصویر ملتی ہے۔ مشتاق احمد یوسفی ایک رجحان ساز اور صاحب اسلوب مزاح نگار تھے، انہوں نے نہ صرف اردو ادب کو مزاح کے میدان میں بے پایاں عزت دی بلکہ جدید اسلوب سے اس کی خوبصورت تشکیل بھی کی۔

مشتاق احمد یوسفی 4 اگست1921ء میں ہندوستان کی ریاست ٹونک(راجھستان) میں پیدا ہوئے،ان کا آبائی وطن جے پور جسے ”پنک سٹی“ بھی کہا جاتا ہے تھا جہاں انہوں نے گریجوایشن تک کی تعلیم حاصل کی۔ پھر علی گڑھ یونیورسٹی سے فلسفے میں ایم اے اور ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی، تعلیم سے فراغت کے بعد آئی سی ایس کا امتحان پاس کیا اور 1950ء تک بھارت میں ڈپٹی کمشنرکے عہدے پر فائز رہے۔ تقسیم ہند کے بعد جب ان کے والدین نے پاکستان ہجرت کی تو وہ بھی 1956ء میں کراچی منتقل ہوگئے۔ یہاں انہوں نے بنکاری کے پیشے کا انتخاب کرتے ہوئے مسلم کمرشل بنک سے اپنی ملازمت کا آغاز کیا، جہاں وہ بڑے عہدوں پر فائز رہے اور ترقی کرتے کرتے بینک کے صدر بنے، اور پھر یونائیٹڈ بنک کے بھی صدر رہے، لیکن اعلیٰ عہدوں پر خدمات کے باوجود ان کی اصل پہچان اردو کی مایہ ناز مزاح نگاری بنی۔ مشتاق احمد یوسفی صاحب نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز”مشتاق احمد“ کے قلمی نام سے کیا، 1955ء میں ان کا پہلا باقاعدہ مطبوعہ مضمون ”صنف لاغر“ معروف ادبی جریدے ماہنامہ ”ادب لطیف“ کے مدیر میرزا ادیب نے شائع کیا۔ اردو زبان وادب کے صف اول کے ادیبوں میں شمار کیے جانے والے مشتاق احمد یوسفی کے مزاح کی خصوصیت ان کا منفرد انداز ہے۔ آپ لفظوں سے کھیلتے اور موقع ومحل کی مناسبت سے ان کے خوب صورت بر جستہ استعمال سے ایک نئے معانی عطا کردیتے تھے۔ اور ایک تخلیق کار کی اس سے بڑھ کر کامیابی کیا ہو سکتی ہے کہ وہ جھنجلاہٹ میں مبتلا نہیں ہوتا، بلکہ ہنس ہنس کر اور ہنسا کر زندگی کو گلے لگاتا ہے۔ یوسفی صاحب طنز و مزاح نگاری کے لیے مضمون، آپ بیتی، خاکہ، تاریخ، مرقع، افسانہ، ناولٹ، ناول جیسی اصناف کو استعمال میں لائے اور انہوں نے مزاحیہ نثر میں بدنظمی کا شائبہ تک پیدا نہیں ہونے دیا۔ مزاح کے اس معیار پر جب ہم مشتاق احمد یوسفی کی تحریروں کا جائزہ لیتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ مشتاق احمد یوسفی مزاح کی معراج پرتھے۔ یوسفی صاحب نے پانچ مقبول عام کتابوں، چراغ تلے 1961ء، خاکم بدہن 1969ء، زرگزشت 1976ء، آب گم 1990ء، شامِ شعر یاراں 2014ء، کی صورت میں اردو ادب کو مزاح کے بہترین نمونوں سے نوازا۔ حکومت پاکستان کی جانب سے اردو مزاح میں شاندار خدمات کے اعتراف میں مشتاق احمد یوسفی کو 1999ء میں ستارہ امتیاز اور 2002ء میں ہلال امتیاز سے نواز ا گیا۔ ان کی پر لطف کتابوں کے بارے میں ابن انشا نے لکھا تھا کہ ”یوسفی صاحب کی کتاب منگوائی ہے اور ابھی تک پڑھی نہیں کیونکہ اگر پڑھ لیا تو ختم ہوجائے گی اور اگلے دس سال تک یہ کوئی کتاب نہیں لکھیں گے“۔ اپنی تحریروں میں معاشرتی پہلوؤں کا بغورمشاہدہ اور ان پر بطریق احسن طنز کی طبع آزمائی بھی یوسفی کا کمال خاصہ تھا۔ جب معاشرتی برائیوں کو طنز کی زدمیں لاتے تودلچسپ پہلوؤں پر گدگداتے فقرے جست کرکے حیرت میں ڈال دیتے، بدلتے انسانی رویوں کونشتر مزاح پر اس شائستگی سے رکھتے کہ قاری انکی بات پر مسکرائے اور اثبات میں سر ہلائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ گزشتہ دنوں ان کی دوسری برسی پر یہ یقین ہی نہیں ہوپارہا تھا کہ مزاح کا عہد یوسفی اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے، ان کی وفات سے اردو ادب میں معیاری مزاح نگاری کا خلاء شاید کبھی پر نہ ہوسکے۔