کالم

ممبئی عالمی اردو فیسٹیول 2020

Share

جمعہ 31جنوری کی دوپہر ڈیڑھ بجے ممبئی کے چھتر پتی شیواجی ائیر پورٹ پر وِستارا کا جہاز اپنی آن بان او ر شان سے ہمیں لے کر اتر ا۔ کلکتہ سے مصر کے عین شمش یونیورسٹی کی اسوسئیٹ پروفیسر ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی، ریسرچ اسکالر گلشن آرا، شمیم احمد اور ان کی بیگم شاہدہ صاحبہ، معروف ڈراما نگار اور ہدایت کار سید محمد راشد اور محمد نعیم جیسے ادب دوست اور محبان اردو کا قافلہ ہمارے ساتھ تھا۔ سامان لے کر جب باہر نکلا تو بھائی امتیاز گورکھپوری اور زینب سعیدی ہمارا بے صبری سے انتظار کر رہیں تھے۔امتیاز گورکھپوری خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے تو وہیں زینب سعیدی تمام مہمانوں سے مل کر خوشی سے پاگل ہورہی تھیں۔ کچھ رسمی گفتگو کے بعد ہم اپنی گاڑی کی طرف چل دیے۔
گاڑی ممبئی کے شاہراہوں سے گزر رہی تھی اور ڈرائیور ہمیں اس بات کا دلاسہ دے رہا تھا کہ ہم ہوٹل وقت پر پہنچ جائے گیں۔ اور ڈرائیور نے وقت پر کولابہ میں متعین ہوٹل تک پہنچادیا۔ امتیاز گورکھپوری کا حکم تھا کہ تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد ہمیں انجمن اسلام کے کریمی لائبریری پہنچنا ہے جہاں ممبئی عالمی اردو فیسٹیول 2020کا افتتاح ہونے والا تھا۔ تاہم امتیاز صاحب نے اس بات کا بھی بھروسہ دلا دیا تھا کہ ہوٹل سے انجمن اسلام کا سفر محض دس منٹ کا ہے۔ جس سے کچھ راحت ملی کہ ہمیں لمبی دوری طے نہیں کرنی ہے۔پھر بھی مجھے اس بات کی تشویش تھی کہ پروگرام میں دیر نہ ہو جائے۔
اپنے مقررہ وقت پر ہوٹل سے تیار ہو کر ہم ایک ٹیکسی میں سوارہو کر انجمن اسلام کی طرف چل دیے۔ راستے میں ممبئی کا معروف وی ٹی ریلوے اسٹیشن دِکھا جو لندن کے کِنگ کروس ریلوے اسٹیشن کے جیسا ہی لگ رہا تھا گویا یہ اس کے جیسا ہی تھا۔ مسافر دوڑ دوڑ کر اسٹیشن میں داخل ہورہے تھے اور میں ٹریفک جام کا فائدہ اٹھا کر وی ٹی ریلوے کی عمارت کی تصویر اتارنے میں مصروف تھا۔ ابھی ہم تصویر اتار ہی رہے تھے کہ ڈرائیور نے انجمن اسلام پہنچنے کا اعلان کر دیا۔
ٹیکسی سے قدم باہر رکھا ہی تھا کہ ایک عظیم الشان عمارت پر نظر پڑی۔ میں نے ڈرائیور سے پوچھا کہ یہی انجمن اسلام ہے؟ اس نے کہا:جی ہاں یہی ہے۔ عمارت کی عظمت اور نام میں تال میل نہیں ملا پا رہا تھا۔ کیوں کہ اکثر مسلمانوں کی تنظیم اتنی عالیشان اور صاف ستھری نہیں پائی جاتی۔نام سے ذہن میں روایتی طور پر کچھ اور ہی نقشہ تھا۔انجمن اسلام کی بنیاد 1874میں چند متقی اور ترقی پسند لوگوں نے رکھی تھی جن میں بدرالدین طیب جی کا نام نمایاں ہے۔ بدرالدین طیب جی انڈین نیشنل کانگریس کے تیسرے صدر اور پہلے ہندوستانی تھے جوبمبئی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے۔جنہوں نے مسلمانوں کے لیے تعلیمی اور سماج میں اونچا مقام پانے کی خواہش کی تھی۔
ڈیڑھ سو سال پرانی عمارت کسی بھی زاویے سے اتنی پرانی نہیں لگ رہی تھی۔ آن و شان تو تھا ہی ساتھ ہی نظم وضبط بھی کامل تھا۔ زینوں کو طے کر کے جب پہلی منزل پرپہنچا تو اس عمارت میں موجود کریمی لائبریری دلہن کی طرح سجی ہوئی تھی اور ہال مہمانوں سے کھچا کھچ بھرا ہو اتھا۔ سب سے پہلے معروف نغمہ نگار اور شاعرحسن کمال سے ملاقات ہوئی۔ حال چال پوچھنے کے بعد لندن کا ذکر چھڑا۔ دوست احباب کے علاوہ دیگر امور پر باتیں ہوئیں۔ ساتھ ہی بیٹھے پروفیسر علی احمد فاطمی صاحب سے بھی بغل گیر ہوا۔ فاطمی صاحب نے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب انہیں بتایا گیا کہ فہیم اختر لندن سے آرہے ہیں توانھوں نے امتیاز گورکھپوری سے پروگرام میں شرکت کی حامی بھر لی۔ فاطمی صاحب سے یہ میری تیسری ملاقات ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فاطمی صاحب کو میں برسوں سے جانتا ہوں۔
کچھ دیر بیٹھنے کے بعد اسٹیج پر ہر دلعزیز شفیع ایوب کی آواز نے سبھوں کو اپنی طرف مائل کر لیا۔ شفیع ایوب کا تعلق گورکھ پور سے ہے اور جواہر لعل نہرو یونیورسیٹی میں گیسٹ لیکچرر ہیں۔ ان سے میری پہلی ملاقات 2019میں ہوئی تھی۔ آواز اور انداز دونوں میں جناب کو مہارت حاصل ہے۔ ایمانداری حضرت کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ کسی کا بھی تعارف یا جانکاری ایسا دیتے ہیں کہ سننے والا اس انسان کے بارے میں اتنا جان لیتا ہے کہ مہمانوں سے ملتے وقت ہمیں دوبارہ اپنا تعارف نہیں کروانا پڑتا۔ روانی سے تو بولتے ہی ہیں ساتھ میں اردو کے ایسے خوبصورت لفظوں کا استعمال ایسا کرتے ہیں کہ سننے والا کچھ پل کے لیے ان کی سحر انگیز باتوں میں کھو جاتا ہے۔
پروگرام کی شروعات اقبال کی نظم ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ سے شروع ہوا، جسے انجمن کی چند بچیوں نے اپنے خوبصورت انداز اور آواز سے سنا کر سامعین سے خوب دادو تحسین حاصل کی۔اس کے بعد پروگرام کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ سب سے پہلے منتظمین نے مہمانوں کا استقبال کیا۔ اس کے بعد ناظم نے فیسٹیول کے افتتاح کے لیے حسن کمال صاحب کو مائک پر دعوت دی۔ حسن کمال نے نہایت خوش اسلوبی سے افتتاحی تقریر کی شروعات کی۔ انھوں نے اردو زبان کے حوالے سے امید افزا بات کی اور امتیاز گورکھپوری اور ایاز گورکھپوری کو دلی مبارک باد پیش کرتے ہوئے ممبئی میں پہلی بار اس طرح کے عالمی اردو فیسٹیول کی ستائش کی اور امید ظاہر کی کہ آئندہ اس سے بھی بڑا اور شاندار فیشٹیول کریں گے اور اس میں انھوں نیاپنا بھرپور تعاون پیش کرنے کی پیش کش کی۔ ساتھ اردو والوں سے گزارش کی کہ وہ لوگ اردو کے فروغ کے لیے ان کا ہاتھ مضبوط کریں۔ کم از کم اردو کے نام پر تو متحد ہو جائیں۔ اس کے بعد علی احمد فاطمی صاحب نے اپنی پر مغز تقریر سے ہال میں بیٹھے لوگوں کو کافی محظوظ کیا۔ فاطمی صاحب نے اپنی تقریر میں امتیاز گورکھپوری کو بھتیجا مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کاپروگرام میں شرکت کرنا اس لیے ضروری تھا کہ وہ ان کے والد کو برسوں سے جانتے ہیں اور انہیں اس پروگرام میں شرکت کر کے دلی مسرت ہو ئی۔فاطمی صاحب نے اردو زبان کے حوالے سے کچھ مایوس کن باتیں کیں تو وہیں اس بات پر بھی خوشی جتائی کہ اردو زبان اب بھی ترقی پزیر ہے۔اس کے علاوہ انجمن کے نائب صدر عبداللہ صاحب نے بھی اپنی مختصر تقریر میں ممبئی عالمی اردو فیسٹیول 2020کو کریمی لائبریری میں منعقد ہونے پر خوشی کا اظہار بھی کیا۔ میں نے اپنی مختصر تقریر میں ممبئی عالمی اردو فیسٹیول 2020 کو منعقد کئے جانے پر بھائی امتیاز گورکھپوری، ایازگورکھپوری اور مشیر حسن وغیرہ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ میں نے اردو زبان کو جشن سے جوڑ کر کہا کہ تمام تر دشواریوں کے باوجود اردو زبان بڑے پیمانے پر پوری دنیا میں بولی اور پڑھی جارہی ہے۔ جس کی مثال پروگرام میں شامل مصر کی اسوسئیٹ پروفیسر ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی اور ایران کی زینب سعید ی ہیں۔ ممبئی عالمی فیسٹیول کو ہر سال جاری رکھنے کا مشورہ بھی دیا تاکہ نئی نسل کو اردو زبان کے حوالے سے جشن منانے کا موقع ملے۔پروگرام کے پہلے دن کے آخر میں معروف فکشن رائٹر اور افسانہ نگار ذکیہ مشہدی کو بارہواں صوفی جمیل اختر میموریل ایوارڈ پیش کیا گیا۔ اس کے علاوہ مصر سے تشریف لائی ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی کو ظفر گورکھپوری ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس دوران کئی نامور ادیبوں اور شاعروں کی کتابوں کا اجرا بھی ہوا۔
دوسرے دن متعدد پیپر پڑھے گئے جسے سامعین نے خوب پسند کیا۔ ان میں الہ آباد سے پروفیسرعلی احمد فاطمی، مصر سے تشریف لائی ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی، ایران سے زینب سعیدی۔ دلی یونیورسیٹی سے پروفیسر محمد کاظم، گورکھپور سے ڈاکٹر ساجد حسین، مجروح اکادمی کے سکریٹری جناب مصطفیٰ پنجابی کے ساتھ ساتھ ممبئی، بھیونڈی کے بہت سے اسکالرس نے اپنے مقالے پیش کیے جن میں عالمی منظرنامے پراردو کی صورت حال، نئی نسل اور اردو کے مستقبل پر روشنی ڈالی گئی۔
پروگرام کے آخر میں ’شام ِ غزل‘ کی محفل سجائی گئی جس کا سامعین نے بھر پورلطف اٹھایا۔ اس طرح ’ممبئی عالمی اردو فیسٹیول2020‘ کامیابی سے اختتام پزیر ہوا۔
یہ میراممبئی کا پہلا سفر تھا اس لیے ہم نے دو دن مزید رکنے کا فیصلہ کیا۔ بھائی امتیاز نے کئی مہمانوں کو ممبئی کی کئی معروف جگہوں اور علاقوں کی سیر کرائی۔ جس میں جوہو بیچ، چوپاٹی، گیٹ وے آف انڈیا، میرین ڈرائیو، شاہ رخ خان کا مکان ’منت‘ وغیرہ اہم تھے۔ اس کے علاوہ ممبئی کے معروف عثمان مٹھائی والے کی مٹھائی کا بھی ذائقہ لیا۔اس کے علاوہ ہوٹل بڑے اور گلشن ِ ایران میں بھی ہم نے تمام مہمانوں کے ساتھ کھانے کا خوب مزہ لیا۔
ہندوستان کے ممبئی شہر میں پہلی بار جانا اور ممبئی عالمی اردو فیسٹیول 2020میں شرکت کرنا سچ پوچھیے تو میر ی زندگی کا ایک خوشگوار تجربہ تھا۔ یوں تو میں دنیا کے تقریباً ممالک میں اردو کانفرنس اور سیمنار میں شرکت کر چکا ہوں لیکن نہ جانے کیوں ممبئی عالمی اردو فیسٹیول 2020ایک منفرد اور نئی نسل کی نمائندگی کر تا ہوا پروگرام محسوس ہوا۔اس کی ایک وجہ امتیاز گورکھپوری کی محنت اور ترقی پسند سوچ تھی جس نے اس پروگرام کو کامیاب ہونے میں چار چاند لگا دیا۔
اسی دوران اسی سالہ پرانے انجمن گرلس اسکول جانے کا بھی اتفاق ہوا۔ انجمن گرلس اسکول کی پرنسپل محترمہ شمع تاراپوروالا نے ہمارا پر جوش استقبال کیا اور ہمیں کلاس دس کی طلبہ سے ملوایا۔ ہمارے ساتھ مصر کی ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی، ایران کی زینب سعیدی اور امتیاز گورکھپوری بھی تھے۔ ہم تمام لوگوں نے طلبہ سے بات کی اور ان کی کامیابی کے لیے دعا بھی کی۔ اس موقعہ پر صوفی جمیل اختر لیٹریری سوسائٹی نے انجمن گرلس اسکول کی چالیس طالبات کو اسکالر شپ دینے کا اعلان بھی کیا۔
ممبئی چھوڑتے ہوئے دل کافی افسردہ تھا لیکن لندن پہنچنا بھی اتنا ہی ضروری تھا کیونکہ مجھے ہسپتال جا کر اپنے فرائض کو جاری رکھنا تھا۔ جہاز پر سوار ہو کر میں ممبئی کی باتوں کو سوچ کر کبھی مسکراتا تو کبھی خوش ہوتا کہ اردو زبان کی بے پناہ محبت نے مجھے اس کی خدمت کا ایک اور موقعہ فراہم کیا۔ میں ممبئی کی یادوں میں کھویا ہوا تھا کہ پائلیٹ کے لندن پہنچنے کے اعلان نے ممبئی کی یادوں سے جھنجھوڑ کر باہر نکال دیا۔ اس وقت اب انشا خوب یاد آئے:
ہم بھول سکے ہیں، نہ تجھے بھول سکیں گے
تو یاد رہے گا ہمیں، ہاں تو یاد رہے گا