کالم

موٹروے سانحہ اور ورلڈ کرائم انڈیکس میں ہمارے شہر

Share

یہ کہنا کہ جہاں انسان بستے ہیں وہاں کوئی جرم نہیں ہو گا، حقائق کے خلاف ہے اور انسانی فطرت کے بھی۔ قتل جیسے جرم کی داستاں ہم تخلیق آدم کے ساتھ ہی سنتے ہیں جب آدم ؑ کے فرزند قابیل نے اپنے بھائی کو قتل کر ڈالا۔ سو لاکھوں برسوں پر محیط انسان کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ کسی بھی انسانی معاشرے کو مکمل طور پرجرائم سے پاک نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ جرم کو انسانی فطرت کا تقاضا سمجھ کر ریاستیں، حکومتیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور جان و مال کے تحفظ کے ذمہ دار لوگ اپنے فرائض سے غافل ہو جائیں۔ ان اداروں پر عوام کے ٹیکسوں کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ آئین ان کی بنیادی ذمہ داری قرار دیتا ہے کہ وہ خلق خدا کو جرائم پیشہ عناصر سے محفوظ رکھیں اور اگر کوئی ہولناک سانحہ پیش آجائے تو مجرموں تک پہنچیں اور انہیں قرار واقعی سزا دلانے کیلئے دن رات وقف کر دیں۔
شیخوپورہ موٹروے پر پیش آنے والے ہولناک اور شرمناک جرم نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس واردات کا تصورکرتے ہوئے بھی دل بیٹھنے لگتا ہے اور آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں۔ قوم ابھی اس سانحے کے شدید صدمے سے دوچار تھی کہ لاہور میں متعین ہونے اور لمبے ہاتھوں کی شہرت رکھنے والے ایک اعلیٰ پولیس افسر کے غیر ذمہ دارانہ تبصرے نے عوام کے زخموں پر نمک چھڑک دیا۔ عوام کے ٹیکس سے بھاری بھرکم تنخواہ وصول کرنے والے سرکاری افسر کا یہ تبصرہ اور طرز عمل بھی کسی سانحے سے کم نہیں۔ اب سوشل میڈیا بلکہ روائتی میڈیا پر اصل سانحے سے کہیں ذیادہ اس پولیس افسر کے رویے کا ذکر ہو رہا ہے اور سول سوسائٹی، بالخصوص خواتین سراپا احتجاج بنی ہوئی ہیں۔ اگر ہم جذباتیت کو ایک طرف رکھتے ہوئے ٹھنڈے دل اور دماغ سے سوچیں تو بلا شبہ ہر شہری کو احتیاط کے تقاضے ملحوظ رکھنے چاہیں۔ جیسے ہم رات کو احتیاط سے اپنے گھروں کی کنڈیاں چڑھاتے یا تالے لگاتے ہیں، رات کو باہر نکلنے سے گریز کرتے ہیں، زیورات پہن کر تقریبات میں جانے سے پہلے بہت کچھ سوچتے ہیں، اپنے بچوں کو مغرب کے بعد باہر نہیں جانے دیتے، اپنی گاڑیوں میں خفیہ یعنی چور بٹن لگا لیتے ہیں، موٹر سائیکلوں کو زنجیر ڈال کر تالا لگا دیتے ہیں یا حال ہی میں کرونا وبا کے حوالے سے سو سو احتیاطیں کرتے ہیں، اسی طرح ہمارے ہاں کے عمومی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی خاتون بلکہ کسی مرد کا بھی آدھی رات کو سفر کرنا خطرے سے خالی نہیں۔ لیکن جان و مال کے کسی محافظ کا یہ کام نہیں کہ وہ دل دہلا دینے والے ایسے خوفناک سانحے کے بعد، ساری توجہ اپنی ذمہ داری پر مرکوز رکھنے اور اس بھیانک جرم پر نادم ہونے کے بجائے بھاشن بازی کرئے اور نصیحتوں پر اتر آئے۔ اور نصیحتیں بھی ایسی جن میں طنز اور طعنہ زنی کا پہلو پایا جائے۔ مثلا یہ کہ خاتون رات کو اکیلی، بچوں کو لئے کیوں نکلی، اس نے یہ غیر محفوظ راستہ کیوں اختیار کیا، اور کیا تو گاڑی کا پٹرول کیوں چیک نہیں کیا اور پھر یہ خنجر کی طرح دل میں اترنے والا طعنہ کہ اسے پتہ ہونا چاہیے تھا کہ یہ فرانس نہیں پاکستان ہے۔ یہ سب باتیں، قومی میڈیا کے سامنے اس وقت ہو رہی تھیں جب شرمناک درندگی کا شکار خاتون اپنے گھر میں پڑی شدید صدمے کی حالت میں ہوش و حواس گنوا بیٹھی تھی۔ اس کے بچے بھیانک خواب سے نکلنے نہیں پائے تھے اور اس کے پیارے غم کی تصویر بنے سوچ رہے تھے کہ یہ کیا ہو گیا۔
پولیس افسر کے ریماکس نے اس درندگی کو بالواسطہ جواز دینے کی کوشش کی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ حادثے کا شکار کوئی زخمی شخص، جاں بہ لب حالت میں ہسپتال پہنچے۔ اس کا خون بہہ رہا ہو اور ڈاکٹر فوری طبی کاروائی کے بجائے یہ کہنے لگے۔۔”اچھا خاصا جوان آدمی ہے۔اسے عقل نہیں تھی کہ سڑک پار کرتے ہوئے دائیں بائیں دیکھ لے۔ اس کی آنکھوں پہ پردہ پڑگیا تھا”۔پوری قوم کو پولیس افسر کے رویے سے بجا طور پر صدمہ پہنچا ہے لیکن اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے والے اعلیٰ حکام شاید اس مسئلے کی شدت سے ابھی تک آگاہ نہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس بابت کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔
پنجاب میں جرائم کا اوپر اٹھتا ہوا گراف بھی بہت سے سوالات اٹھا تا ہے۔ جولائی 2019 میں چھ ماہ کے عرصے میں ہر نوع کے جرائم میں اضافہ دیکھا گیا۔ خود پولیس رپورٹ بتاتی ہے کہ چھ ماہ میں سولہ ہزار سے زائدافراد قتل کر دئیے گئے۔ اغوا کی 5862 وارداتیں ہوئیں۔ عصمت دری کے 1445 واقعات ہوئے۔ 6700 ڈاکے پڑے۔ مختلف نوعیت کے جرائم کی تعداد دو لاکھ سے زائد رہی۔ ورلڈ کرائم انڈیکس، دنیا میں جرائم کی شرح پر نظر رکھنے والا ایک معتبر ادارہ ہے۔ اس جائزے کے مطابق پنجا ب کی صورتحال میں تیزی سے بگاڑ آیا ہے۔ ورلڈ کرائم انڈیکس نے دنیا بھر کے 319 بڑے شہروں کا جائزہ لیا جن میں پاکستان کے تین شہر اسلام آباد، لاہور اور کراچی شامل تھے۔ رپورٹ میں حیران کن انکشاف کیا گیا کہ جرائم میں اضافے کے حوالے سے لاہور پہلے نمبر پر رہا اور اس نے کراچی کو بھی مات دے دی۔ امن عامہ کی صورتحال کے ضمن میں اسلام آباد چھ درجے اور کراچی گیا رہ درجے نیچے آیا۔جبکہ لاہور کی گراوٹ 36 پوائنٹ رہی۔ عالمی جرائم درجہ بندی میں ایک سال قبل 2018 میں لاہور 138 ویں نمبر پر تھا جبکہ 2019 میں جرائم کی شرح میں اضافے کے باعث 174 نمبر پر آگیا۔

دسمبر 2019 میں جاری ہونے والی ایک اور رپورٹ بتاتی ہے کہ سال کے پہلے دس ماہ میں پنجاب میں ہر نوع کے جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا اور مجموعی طور پر چار لاکھ سے ذیادہ جرائم سر زد ہوئے۔ گزشتہ سال (2018) کی نسبت جرائم کی تعداد میں میں تقریبا 75000 کا اضافہ ہوا۔ لاہور میں واقع امریکی قونصل خانے نے، پنجاب کی صورتحال کے حوالے سے جاری کردہ اپنی ایڈوائزری میں کہا۔۔۔The US department of state has assessed Lahore as being a high threat location for crime.۔۔۔ (امریکی ڈیپارٹمنٹ آف سٹیٹ نے لاہور کو جرائم کے حوالے سے شدید خطرے کا حامل شہر قرار دیا ہے)۔ آگے چل کر یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ صرف لاہور میں جرائم میں مجموعی طور پر دو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس رپورٹ میں 2018 اور2019 میں ہونے والے جرائم کا تقابلی جائزہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ ادھر پولیس کے اپنے ریکارڈ کے مطابق 2020 کے پہلے چھ ماہ میں جرائم میں اضافے کی شرح 18.7 فیصد رہی۔
ان اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ پنجاب، بالخصوص اس کے دارلحکومت، لاہور کی صورتحال اچھی نہیں۔ سیاسی پراپیگنڈے اور اپوزیشن کے الزامات سے ہٹ کر دو سال کے عرصے میں چھٹے انسپکٹر جنرل پولیس کی تعیناتی بھی کوئی اچھا اشارہ نہیں دیتی۔ اس سے یہ پرانا تاثر گہرا ہوتا ہے کہ پولیس کو سیاست سے پاک نہیں کیا جا سکا۔حقیقت یہ ہے کہ سیاسی نعرے بازی تو ہوتی رہی مگر ابھی تک اصلاحات کا کوئی موثر عمل شروع ہی نہیں ہو پایا۔ آج بھی پولیس کے افسران اور اہلکار من پسند جگہوں اور عہدوں پر تعیناتی کیلئے سیاسی پشت پناہی کا سہارا لیتے ہیں۔کارکردگی اور اہلیت شاید کسی گنتی شمار میں نہیں آتی۔
موٹروے سانحے کے بعد اس پولیس افسر کی محض باتیں ہی نہیں، بہت سے ایسے معاملات اور سرکاری ریکارڈ بھی سامنے آیا ہے جسے سانحہ ہی کہنا چاہیے۔ یہ بات بھی کسی سانحے سے کم نہیں ہے کہ کوئی ایکشن لینے کے بجائے حکومتی وزیر اور مشیر میڈیا پر پولیس افسر کی ذات اور انکے بیانات کا دفاع کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اگر سانحہ ساہیوال ہی کی طرح، شیخوپورہ موٹروے کی درندگی بھی پولیس اورا رباب اختیار کے عمومی رویے کا شکار ہو گئی اور حقیقی مجرموں کا سراغ لگا کر انہیں نمونہ عبرت نہ بنایا جا سکا، تو یہ رونما ہونے والے سانحے سے بھی بڑا سانحہ ہو گا۔