پاکستانہفتہ بھر کی مقبول ترین

مہمند: خیبرپختونخوا میں سنگِ مرمر کی کان پر پہاڑی تودے گرنے سے کم از کم 18 افراد ہلاک، امدادی کارروائیوں میں مشکلات

Share

’یہاں پورا پہاڑ سرکنے لگا تھا جس کے بعد بڑے بڑے پہاڑی تودے نیچے گرنے لگے اور کان بیٹھ گئی، جب میں موقع پر پہنچا تو مقامی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کام کر رہے تھے اور وہ سخت پریشان تھے۔‘

یہ کہنا ہے کہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی علاقے مہمند ایجنسی کے مقامی صحافی نور سلام کا جو زیارت کلی میں سنگِ مرمر کی کان پر گذشتہ روز پہاڑی تودے گرنے کے بعد جائے وقوع پر سب سے پہلے پہنچنے والے صحافیوں میں شامل تھے۔

زیارت کلی میں واقع اس کان پر پہاڑی تودے پیر کی سہ پہر اُس وقت آن گرے تھے جب یہاں بڑی تعداد میں مزدور کام کر رہے تھے۔

جائے حادثہ پر امدادی کام اب بھی جاری ہے۔ حکام نے اس واقعے میں اب تک 18 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے جبکہ 18 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ مقامی حکام کے مطابق اب بھی ملبے تلے درجنوں افراد موجود ہو سکتے ہیں۔

مقامی لوگوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے اپنی مدد آپ کے تحت فوری طور پر کام شروع کر دیا تھا اور ابتدا میں 10 لاشیں اور ایک شخص کو زخمی ےحالت میں نکال لیا تھا، جس کے بعد ریسکیو اہلکار بھی موقع پر پہنچ گئے تھے۔

کان
،تصویر کا کیپشنعلاقہ مکین اور امدادی کارکن آج بھی امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں

عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ ملبے سے ملنے والی بیشتر لاشیں ناقابلِ شناخت تھیں۔

ریسکیو ٹیم کے معاون ساجد اللہ نے بتایا کہ واقعہ پیش آنے کے بعد انھوں نے قریبی علاقوں سے مزید امدادی ٹیمیں بھی طلب کر لی تھیں۔

مقامی سرکاری ہسپتال میں موجود اہلکار مظفر خان نے بتایا کہ منگل کی صبح تک 12 لاشیں اور چھ زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا گیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ایک شدید زخمی کو پشاور بھیج دیا گیا ہے جبکہ باقی زخمیوں کو مقامی ہسپتال میں ہی طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ چند لاشیں بھاری پتھروں کے نیچے دبنے کی وجہ سے مسخ ہو چکی ہیں اور انسانی اعضا کے چند حصے کپڑوں میں لپیٹ کر لائے گئے ہیں۔

صحافی نور سلام نے بتایا کہ جب وہ یہاں پہنچے تو ایک نوجوان زاروقطار رو رہا تھا اور اس نے بتایا کہ ان کے پاس ایک چھوٹا ٹرک تھا جس میں وہ بھائی سے مل کر ماربل کے ٹکڑے اکٹھے کرتے تھے۔ اس حادثے میں اُن کا بھائی اور گاڑی ملبے تلے دب گئے ہیں۔

کان
،تصویر کا کیپشناس حادثے میں ہلاک ہونے والے چند افراد کی نماز جنازہ آج ادا کر دی گئی ہے

ریسکیو اہلکار ساجد اللہ کے مطابق ملبے کے نیچے سے ایک ٹرک بھی ملا ہے جس میں تین لاشیں بھی تھیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ لوگ سخت پریشانی کے عالم میں ہیں اور یہاں ایک قیامت کا سماں ہے کسی کو کچھ سجائی نہیں دے رہا ۔

صحافی نور سلام کے مطابق اس پہاڑ سے منسلک ماربل کی پانچ سے چھ کانیں ہیں جو مقامی آبادی کے لیے بڑا ذریعہ روزگار ہیں تاہم قبائلی علاقوں کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد سے پیدا ہونے والی قانونی پیچیدگیوں کے باعث اب یہاں بلاسٹنگ پر پابندی ہے تاہم لوگ اپنے طور پر کام کرتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ریسکیو اہلکار پیر کو رات گئے تک امدادی کاموں میں مصروف رہے تھے اور اس دوران بھی چھوٹے پہاڑی تودے گرتے رہے جس کے باعث امدادی کام ملتوی کر دیا گیا اور منگل کی صبح دوبارہ اس کا آغاز کیا گیا ہے۔

پشاورسے بھی ریسکیو اہلکار مہمند ایجنسی میں زیارت کلے پہنچ گئے ہیں۔ ریسکیو اہلکار بلال فیضی نے بی بی سی کو بتایا کہ جب وہ پشاور سے علی الصبح یہاں پہنچے تو اس وقت بھی پہاڑ سرک رہا ہے اور مقامی لوگوں میں سخت و ہراس پایا جا رہا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ اس پہاڑ سے کچھ فاصلے پر رہائشی مکانات بھی ہیں لیکن وہ اب تک محفوظ ہیں۔

بلال یاسر باجوڑ ایجنسی کے رہائشی ہے اور سوشل میڈیا پر کافی متحرک ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان ماربل کی کانوں میں زیادہ تر مقامی نوجوان کام کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان پہاڑوں میں ریت زیادہ ہے اورعام طور پر بارش کے بعد ایک ہفتے تک ان کانوں میں کام نہیں کیا جاتا، لیکن دو روز قبل ہونے والی بارش کے بعد فورا یہاں کام کا آغاز کر دیا گیا تھا۔

کان

بلال یاسر نے بتایا کہ اس کان میں سینکڑوں افراد کام کرتے تھے اور جب تک بھاری مشینری سے ملبہ مکمل طور ہٹا نہیں لیا جاتا تب تک یہ کہنا مشکل ہے ابھی بھی کتنے افراد ملبے تلے ہو سکتے ہیں۔

زیارت کلے اس علاقے کے بڑا دیہات ہے جس کی آبادی چار سے پانچ ہزار نفوس پر مشتمل ہے اور یہ گاؤں اس ماربل کان والے پہاڑ کے ساتھ واقع ہے۔ مہمند ضلع کے صدر مقام غلنئی سے یہ گاؤں 25 کلومیٹر دور ہے۔

مقامی صحافی نور سلام نے بتایا کہ مقامی ریسکیو اداروں کے اہلکار اگرچہ یہاں پہنچ تو گئے تھے مگر ان کے پاس بھاری مشینری نہیں تھی اس لیے وہ بھی مقامی لوگوں کی طرح دستیاب وسائل میں کام کرتے رہے۔ انھوں نے کہا کہ بعدازاں چارسدہ اور پشاور سے امدادی ٹیمیں موقع پر پہنچیں جبکہ آرمی کے اہلکار بھاری مشینری کے ساتھ منگل کی صبح یہاں پہنچے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں بڑی تعداد میں معدنیات کی کانیں ہیں اس لیے یہاں ریسکیو ادارے کی بھاری مشینری کا ہونا ضروری ہے تاکہ اس طرح کے حادثات کے لیے فوری طور پر امداد فراہم کی جا سکے۔