کالم

نامور صحافی ـ مصنف ـ مظفر محمد علی

Share

کسی نےکتاب کا، اخبار رسالے کا یا کالم کا نام رکھنا ہوتا تو سب کہتے، ان سے مشورہ کرو۔
ایسا بھی ہوا کسی کتاب کا پہلا ایڈیشن مشکل سے نکلا۔دوسری بار انہوں نے کوئی نیا نام تجویز کردیا اور اس نام سے کتاب مہینوں میں بک گئی۔
انہوں نے خود اپنا نام بھی بدلا۔۔۔ مصلحت کیا تھی، یہ پوچھہ نہیں سکا۔۔
میں مظفر کاظمی کے نام سے ان کی تحریریں پڑھتا آرہا تھا۔۔۔ زیادہ تر سید قاسم محمود کے رسائل میں۔۔ ٹالسٹائی کے مشہور ناول حاجی مراد کا ترجمہ بھی شاید انہوں نےسید قاسم محمود کے ادارے کیلئے کیا تھا۔۔۔۔ پھر انہوں نے اپنا نام مظفر محمد علی کرلیا اور اسی نام سے شہرت اور عزت پائی۔
پہلی ملاقات منو بھائی کے گھر ہوئی تھی۔ جہاں وہ اپنی زندگی کے بے شمار تجربوں میں سے ایک انگریزی میگزین All Artsکا پہلا شمارہ دینے آئے تھے۔ مجھے بھی دیا۔ ان کے آرٹسٹ دوست انیس یعقوب ساتھہ تھے۔ بعد میں بھی اکثر دونوں اکٹھے ملے۔ لگتا ہے انہوں نے سب سے زیادہ وقت انیس یعقوب کے ساتھہ گزارا۔

مظفر 15جون1952 کو پشاور میں پیدا ہوئے۔ گریجویشن وہیں سے کی۔1969 میں یعنی صرف 17 برس کی عمر میں فلمی ہفت روزہ “ممتاز “سے صحافت کا آغاز کیا۔ فلم سے انہیں بہت دلچسپی رہی۔ محض مبصر نہیں رہے،اس دنیا میں خود بھی داخل ہوئے۔ ’’میرا نام ہے محبت‘‘ اور ’’وعدے کی زنجیر‘‘ کی سکرین رائٹنگ میں ہمارے ایک اور لائق اور عزیز دوست ستار طاہر کی معاونت کی۔ ’’افغان سرجیکل‘‘ نامی ایک دستاویزی فلم کی کمنٹری لکھی۔ایڈورٹائزنگ کمپنی بنائی تومختلف مصنوعات کی اشتہاری فلموں کے سکرپٹ لکھے اور ہدایات دیں، ریڈیو،ٹی وی کیلئے پروگرام پروڈیوس کئے۔

ادب میں ان کا شعبہ افسانہ تھا۔ صرف بیس سال کی عمر میں پہلا افسانہ ’’ اشرف المخلوقات‘‘ چھپا تو سید قاسم محمود نے لکھا’’ مبارکباد ! آپ تو چھپے رستم نکلے۔ بے شک آپ مرجائیں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر، لیکن افسانہ نگاری ترک نہ کریں۔ آپ کے اندر اللہ پاک کی قسم ایک بڑا فنکار چھپا ہوا ہے۔ بہت خوب۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ‘‘

“مظفر محمد علی”

چار سال بعد 1976 میں مجموعہ ’’ قسطوں کی موت‘‘ شائع ہوا تو نامور افسانہ نگار غلام عباس نے کہا ’’ یہی تیور رہے توتمہارا شمار مستقبل کے بڑے افسانہ نگاروں میں ہوگا”۔ ممتاز مفتی نے لکھا ’’ان افسانوں کے کردار میرے تخیل، مشاہدے اور تجربے میں آتے تو میں بھی انہیں ایسے ہی لکھنے کی کوشش کرتا”۔ میرزا ادیب نے لکھا” مظفر محمد علی کے ہاں تلخیاں بہت ہیں۔ ان تلخیوں کو اس نے وہ شئے بنا دیا ہے جسے علامہ اقبال ’’ معجزۂ فن کہتے ہیں، ’’قسطوں میں موت‘‘ اردو ادب کو قسطوں میں زندگی دے گی۔ اس کا مجھے یقین ہے‘‘
لیکن مظفر محمد علی پھر تلاش رزق میں ایسے الجھے کہ بہت کم افسانے لکھہ پائے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے حوالےسے لکھا گیا ان کا افسانہ “عکس کا عدم اختلاف” آخری ثابت ہوا۔ لیکن اردو افسانے کا کوئی تذکرہ نگار انہیں نظر انداز نہیں کر سکتا۔
مظفر محمد علی جنگ، نوائےوقت ، مشرق، سیارہ ڈائجسٹ، حکایت سے منسلک رہے ۔ شوخ نوکیلے جملوں والے کالم” سطر پوشیاں” بھی لکھے اور نقاب کشا انٹرویو بھی کئے۔ان کے مجموعے زیر تیاری تھے۔اشاعت کا علم نہیں۔

ان کی زندگی کا اہم حصہ وہ ہے جب وہ جنگ پبلشرز کے انچارج رہے۔ میں بھی جنگ میں آگیا تو تواتر سے ملاقاتیں ہونے لگیں۔ ان کے شعبے کا ماحول بہت دوستانہ تھا۔
جنگ پبلشرز سے انہوں نے ایک لائبریری جتنی عمدہ کتابیں چھاپ ڈالیں۔ پھر مالکان کی توجہ بڑے کاروبار کی طرف ہوگئی تو جنگ پبلشرز تقریبا” ختم ہی ہوگیا۔ شاید مظفر محمد علی کیلئے آخری بڑا صدمہ یہی ہو۔
وہ انتہائی مخلص اور محبت کرنے والے شخص تھے۔’’قسطوں میں موت ‘‘ کا دوسرا ایڈیشن چھپا تو مجھے بھی دیا۔ میں نے کہا آپ نے پہلا ایڈیشن مجھے دیا تھا۔ تو جواب دیا ،ہاں مجھے یاد ہے، لیکن یہ تو ازراہِ محبت ہے۔ ان کی بے شمار خوبیاں یاد آتی ہیں۔۔۔ لیکن ایک خاص طور پر ۔۔ وہ خواتین کی جتنی عزت اور احترام کرتے تھے، ایسا میں نے کم لوگوں میں دیکھا۔
مظفر محمد علی میں مزید بہت کچھ کرنے کا پوٹینشل تھا لیکن زندگی نے زیادہ مہلت نہیں دی۔ 5مارچ2010 کو وفات پائی۔ انہیں بچھڑے آج 10 سال ہوگئے۔