منتخب تحریریں

نوازشریف سے نفرت کیوں؟

Share

عمران خان صاحب کو نوازشریف صاحب سے اتنی نفرت کیوں ہے؟
اس سوال کا تعلق علمِ نفسیات سے ہے مگر اس کے مضمرات سیاسی ہیں۔خان صاحب نے اس نفرت کو وائرل کر دیا اورایک سیاسی بیانیے میں بدل ڈالا۔تحریکِ انصاف کابیانیہ مثبت نہیں منفی ہے۔وہ مسائل کاتجزیہ اورحل منفی اسلوب میں کرتے ہیں۔ان کامقدمہ یہ ہے کہ کرپشن کے خاتمے سے مسائل حل ہوں گے اور اس کے مجرموں کوسزا دلانا ان کی پہلی ترجیح ہے۔
اس کے برعکس،مثبت بیانیہ یہ ہے کہ ملک میں معاشی سرگرمی بحال ہو۔ سرمایہ گردش میں رہے تاکہ وہ مزید سرمایہ پیدا کرے۔اس سے معاشی سرگرمی بڑھے اور لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں۔’منفی‘ اور ‘مثبت‘ یہاں غلط یا صحیح کے معنوں میں نہیں۔اس سے ایک حکمتِ عملی کی توضیح اور نقطہ ہائے نظر کا فرق واضح کرنامقصود ہے۔
خان صاحب کایہ منفی بیانیہ نوازشریف کے گردگھومتا ہے۔دو دن پہلے انہوں نے قومی اسمبلی سے جو خطاب کیا،اس سے بھی واضح ہے کہ ان کو آج بھی اپنے موقف پر اصرارہے۔انہوں نے سیاسی پروپیگنڈے کا جو نظام کھڑا کیا ہے ،اس کی اساس بھی یہی ہے ۔لوگوں کے ذہنوں پر مسلسل اس بات کا ہتھوڑا برستا رہے کہ ملک کے مسائل کا اصل ذمہ دار شریف خاندان ہے۔اس کیلئے انہوں نے ایک ‘ہتھوڑا گروپ‘ ترتیب دیا ہے جومسلسل اس کام میں لگاہوا ہے۔ وزیر اعظم کے ترجمان سے لے کر سوشل میڈیا کے ایک عام کارکن تک، سب کے ہاتھ میں یہی ہتھوڑا ہے ا ور وہ مسلسل عوام کے ذہن پر برسا رہے ہیں۔
خان صاحب نے کہا تھا کہ انہیں نوے دن دیے جائیں۔اس کے بعد ان سے سوال کیا جائے۔ان کی بات کا مفہوم یہ تھا کہ اس کے بعد ان کی مثبت سیاست شروع ہوگی۔پھر وہ عوام کو بتا سکیں گے کہ انہوں نے کیا کیا۔دوسال بعد بھی،لیکن ان کا بیانیہ منفی ہے۔آج بھی وہ سابقہ حکمرانوں کی غلطیوں کا ذکر کرتے اورانہیںاپنی ناکامیوں کا ذمہ دارٹھہراتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کا بالعموم اور حکومت کے شعبہ اطلاعات کا بالخصوص وظیفہ یہ ہوتا ہے کہ نرم لب و لہجے میں بات کرتے ہیں۔حکومت میںدلوں کی تسخیر اورمخالفین کو ساتھ لے کر چلنا پہلی ترجیح سمجھا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت ایک دن بھی اس کی قائل نہیں رہی۔پہلے ہی دن سے مخالفین کو کچلنااور ان کا تمسخر اڑانا اس کی ابلاغی حکمتِ عملی کی اساس ہے۔یہ حکمتِ عملی اتنی گہری ہے کہ خان صاحب ایک مدت کے بعد اسمبلی سے خطاب کرتے ہیں اور مخالفین کو گوالمنڈی اور سائیکل کی دکان کا طعنہ دیتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایک ایسے مرحلے میں ہو رہاتھا جب حکومت کو اپوزیشن کے تعاون کی ضرورت تھی اور وہ اس کے ساتھ مذاکرات کررہے تھے۔
اس طرزِ عمل کا نفسیاتی تجزیہ کیجیے تو نوازشریف کے خلاف نفرت انتہاؤں کو چھوتی دکھائی دیتی ہے۔وہ اگر چہ زرداری صاحب کا بھی ذکر کرتے ہیں لیکن یہ برائے وزنِ بیت ہے۔ان کا اصل ہدف نوازشریف ہی ہیں۔یہی نفرت نچلی سطح پر ان کے غالی معتقدین تک سرایت کر چکی۔اب دوسری طرف بھی ایسی ہی نفرت پیدا ہو چکی۔اس کا نتیجہ یہ کہ سیاسی جماعتوں کی ابلاغی حکمتِ عملی صرف منفی بیانیوں پر مشتمل ہے۔یہ نفرت آخر اتنی گہری کیوں ہے کہ اس نے ملک کی سیاست کو ایک بھنور میں پھنسادیا ہے؟
نوازشریف اور عمران خان کے تعلقات کی تاریخ بہت خوشگوار ہے۔ شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر میں بھی اس کا بھرپور اظہارہوا۔بطور وزیراعلیٰ نواز شریف صاحب نے سرکاری زمین دی اور میاں محمد شریف صاحب نے پچاس کروڑ روپے کا عطیہ دیا۔عمران خان صاحب بتا چکے کہ اس وقت ہسپتال کا کل بجٹ ستر کروڑ روپے تھا۔نوازشریف صاحب نے کبھی اس کا ذکر نہیں کیا؛تاہم خان صاحب اپنے انٹر ویوز میں اس کااظہار کر چکے ہیں۔
اس کے علاوہ بھی بہت سے واقعات بیان کیے جا سکتے ہیں کہ کیسے نوازشریف صاحب اورعمران خان صاحب کا تعلق باہمی احترام پرمبنی تھا۔اس میں ہمیشہ پیش رفت نوازشریف کی طرف سے ہوئی۔پھر ایسا کیا ہوا کہ احترام تو دور کی بات،نفرت بھی اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔یہاں تک کہ نوازشریف سے نفرت خان صاحب کا بیانیہ بن گئی۔
میں جب غور کر تا ہوں تو ایک واقعہ ملتا ہے جو خان صاحب کیلئے ذاتی طور پر صدمے کا باعث بنا۔یہ جمائمہ کے خلاف قیمتی ٹائلیںغیر قانونی طور پر باہر لے جانے کا مقدمہ ہے۔وہ اس پر ناراض ہوئے اور اس کااظہار بھی کیا۔اس کے علاوہ میرے علم میں کوئی ایسی بات نہیں جو انسانی تعلقات کو اتنا کشیدہ یاتلخ بنا سکتی ہے۔ان کی سیاست کے راستے میں بھی کوئی ایسی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی جو ان کیلئے مشکلات کا باعث بنتی۔پھر ایسا کیوں ہے؟
عمران خان‘ ہم جانتے ہیں کہ بہت پُرجوش آد می ہیں ،جس کام کی ٹھان لیتے ہیں پھراس کے لیے جان لڑا دیتے ہیں۔ان کی توجہ کا مرکز ہمیشہ ان کی ذات رہی ہے۔ اس کے راستے میں وہ کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کرتے۔انسانی تعلقات اور رشتے داریاں بھی اگر حائل ہوں تو وہ انہیں بھی خاطر میں نہیں لاتے۔وہ سیاست میں آئے تو ظاہر ہے کہ وزیراعظم بننے کے لیے۔ اس کے لیے ان کی پے درپے کوششیں ناکام ہو ئیں۔یہاں تک کہ انہوں نے جانا کہ ان کے راستے کا اصل پتھر نوازشریف ہے۔ اس سے ان کی طبیعت میں جھنجھلاہٹ پیدا ہو ئی کہ یہ راستے سے کیوں نہیں ہٹتا؟ یہ جھنجھلاہٹ تدریجاً نفرت میں بدل گئی۔
دوسری طرف مقتدر قوتوں کے ساتھ نوازشریف کے تعلقات خراب ہونے لگے تو انہیں متبادل کی تلاش ہوئی۔ نظر ِ انتخاب خان صاحب پر پڑی۔ یوں دو نفرتیں جمع گئی۔ عمران خان نے مقتدرہ کے خلاف اپنے بیانیے کولپیٹا اور موقع سے فائدہ اٹھایا۔اس میں وہ کامیاب رہے۔آج بھی انہیں اندازہ ہے کہ مستقبل میں اگرچیلنج درپیش ہونا ہے تو وہ نوازشریف اور مریم نواز کی طرف سے۔ یوں وہ اُن کے اقتدار ہی کا خاتمہ نہیں چاہتے، اس جگہ پہنچادیناچاہتے ہیں جہاں سے ان کی واپسی کی امید ختم ہو جا ئے۔
عمران خان تدریجاً اس نتیجے تک پہنچے۔انہوں نے سب سے پہلے گجرات کے چودھریوں کو ہدف بنایا۔ان کے بارے میں جو کچھ کہا‘ میں یہاں دہرانا نہیں چاہتا۔پھر انہیں خیال ہوا کہ اس کا کوئی سیاسی فائدہ نہیں۔ اس کے بعد الطاف حسین کے خلاف تحریک شروع کی اور اعلان کیا کہ وہ لندن تک ان کاپیچھا کریں گے۔ شاید ان کا خیال تھا کہ وہ کراچی کے پڑھے لکھے،کرکٹ کے شیدائی نوجوانوں کا انتخاب بن جا ئیں گے ا ور پھر اس کی بنیاد پر پورے ملک کے نوجوانوں کا۔
یہ بات بنتی دکھائی نہ دی تو ان کا بھول گئے بلکہ اب تو ان کے ایک جاں نثار کو اپنا وزیر قانون بنا لیا۔اس کے بعدجنرل مشرف پر شدیدتنقیدکی لیکن اس میں بھی کوئی فائدہ دکھائی نہ دیا۔اب تو ان کا نام بھی نہیں لیتے۔ یوں ان کی توجہ کا مرکز نوازشریف بن گئے۔ نوازشریف صاحب کی مخالفت میں انہیں غیبی تائید بھی میسر آگئی اور اب وہی ان کا اصل ہدف ہیں۔ اے پی سی سے نوازشریف کا خطاب سننے کے بعد،میرا اندازہ ہے کہ نوازشریف کے خلاف نفرت پر مبنی یہ اتحاد مزیدجاری رہے گا۔
سوال یہ ہے کہ سیاست میں مفادات کی جنگ جا ری رہتی ہے۔لیکن کیا ہمیں اسے نفرت میں بدل دیناچاہیے؟اے پی سی کاایک سبق یہ ہے کہ اہلِ سیاست کواتنے دور تک نہیں جاناچاہیے کہ دوبارہ ملتے ہوئے ایک دوسرے سے شرمندہ ہوتے رہیں۔خان صاحب کی افتادِ طبع لیکن ایسی نہیں۔انہوں سے سیاسی مخالفت کو نفرت میںبدل دیا۔ وہ صرف سولو پرواز کرنے کے قائل ہیں۔ عام زندگی میں بھی اور سیاست میں بھی۔