پاکستان

وزیرستان میں لڑکیوں کا قتل: پولیس کا دو ملزمان گرفتار کرنے کا دعویٰ

Share

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع جنوبی وزیرستان کی پولیس نے لیک ہو جانے والی ویڈیو کے باعث غیرت کے نام پر قتل کی جانے والوں دو کم سن لڑکیوں کے قتل میں دو ملزمان کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

وزیرستان پولیس کے مطابق گرفتار کیے گئے ملزمان میں ایک لڑکی کا بھائی امین خان اور دوسرا ملزم دوسری لڑکی کا والد رسول خان ہیں۔ وزیرستان پولیس کا کہنا ہے کہ دنوں ملزمان سے تفتیش کی جائے گی جبکہ واقعہ میں ملوث مزید ملزموں کا تعین کر کے انھیں بھی جلد گرفتار کیا جائے گا۔ وزیرستان پولیس نے اس کارروائی کو غیرت کے نام پر قتل کی واردات میں بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع جنوبی وزیرستان کی پولیس کے مطابق دو کم عمر لڑکیوں کو ایک ویڈیو لیک ہو جانے کی وجہ سے غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا تھا۔

وزیرستان پولیس کے مطابق درج کیے گئے مقدمے کے مطابق علاقہ شام پلین گڑیوم میں 16 اور 18 برس کی دو لڑکیوں کو ان کے چچا زاد بھائی نے فائرنگ کر کے قتل کیا۔

درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ دونوں لڑکیاں آپس میں کزن ہیں اور چند دن قبل ان کی ایک وڈیو لیک ہوئی تھی جس میں موجود مواد کی وجہ سے انھیں غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا۔

ڈسڑکٹ پولیس افسر جنوبی وزیرستان شوکت علی نے بی بی سی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعہ کے بارے میں انھیں کچھ اطلاعات ملی تھیں کہ تحصیل شکتو کے علاقے میں یہ واقعہ پیش آیا ہے جس پر مقامی تھانہ رزمک کو تفتیش اور ضروری کاروائی کا کہا گیا ۔

مقامی تھانے کہ اہلکار ابتدائی تفتیش کے بعد مقدمہ درج کرکے ملزماں کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہے ہیں۔

انسانی حقوق کی کارکن گلالئی اسماعیل کے مطابق غیرت کے نام پر قتل ہونے والی لڑکیاں انتہائی کم عمر ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس واقعہ کی بنیاد ایک وڈیو کو بنایا گیا ہے جس میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ ان کے چہروں پر واضح طور پر خوف ہے۔

’وہ خوف زدہ ہیں اور یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ وڈیو میں موجود ایک لڑکی وڈیو سے بچنے کی کوشش بھی کررہی ہے۔ عملاً ان لڑکیوں کو ہراساں کیا گیا ہے۔ ‘

قتل و غیرت
پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کی تحقیق کے مطابق غیرت کے نام پر قتل میں تقریباً ہمیشہ مقتول خواتین کے شوہر اور بھائی ملوث پائے جاتے ہیں

گلالئی اسماعیل کے مطابق وڈیو میں تین لڑکیاں نظر آرہی ہیں جن میں سے دو کو قتل کر دیا گیا ہے البتہ ایک لڑکی ابھی تک زندہ ہے اور غائب ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس تیسری لڑکی کو تلاش کرکے اس کی زندگی کو محفوظ بنایا جائے۔

مزید برآں وزیرستان کے رہائشی بادشاہ خان نامی شخص نے اپنی ایک وڈیو اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر پوسٹ کی ہے جس میں وہ پشتو میں بات کرتے ہوئے لڑکیوں کی ویڈیو کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘ان لڑکیوں کو سزا دی جائے گی اور ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ مزید کسی کو ایسا کرنے کی جرات نہ ہو اور ہماری عزت و آبرو محفوظ رہے۔’

ڈسڑکٹ پولیس افسر شوکت علی کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر بادشاہ خان نامی شخص کی جانب سے قتل پر اکسانے کے حوالے سے بھی کچھ مواد سامنے آیا ہے مگر اس پر ابھی صرف تفتیش کی جا رہی ہے۔

خواتین کے حقوق کی تنظیم کے خدشات

دوسری جانب خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ وزیرستان میں دو کم عمر لڑکیوں کے غیرت کے نام پر قتل کے واقعے میں شاید انصاف کے تقاضے پورے نہ ہو سکیں۔

وومن ڈیموکریٹ فرنٹ کی ترجمان طوبیٰ سید نے بی بی سی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیرستان میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعہ کی اصل وجہ مقامی رسم و رواج اور ان کی معاشرے پر مضبوط ترین گرفت ہے۔ مقامی طور دو لڑکیوں کے قتل پر غم وغصہ پایا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیرستان سے کچھ لوگ اس مسئلے پر بات کرنا چاہتے ہیں مگر غیرت کے نام پر قتل کو تحفظ دینے کے لیے علاقے کے انتہائی بااثر افراد سمیت تمام لوگ متفق ہو جاتے ہیں۔ جس کے باعث یہ خدشہ ہے کہ ملزمان کو مقامی طور پر تحفظ فراہم کیا جائے گا اور وہ قانون کی گرفت میں نہیں آسکیں گے۔

طوبیٰ سید کا کہنا تھا کہ ’اس سے قبل کوھستان ویڈیو سکینڈل کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے جس میں حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے مناسب کارروائی نہیں کی گئی اور معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افضل کوہستانی جو اس معاملے کو منظر عام پر لایا تھا اور جس نے انصاف مانگا تھا وہ بھی اپنے بھائیوں سمیت قتل ہو گیا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ صورتحال یہ ہے کہ افضل کوہستانی کے قتل میں بھی انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیرستان کا معاملہ اس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ ابھی ایک لڑکی کا کچھ پتا نہیں ہے وہ کہاں ہے حکومت اور انتظامیہ اس لڑکی کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات اٹھائے اور ملزمان کو فی الفور گرفتار کیا جائے۔

’ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہو تاکہ غیرت کے نام پر قتل کا یہ سلسلہ رک سکے۔‘ طوبیٰ سید کا کہنا تھا کہ وومن ڈیموکریٹک فرنٹ انصاف کے تقاضے پورے کروانے کے لیے فورم پر جائے گی۔

سوشل میڈیا پر ردعمل

جنوبی وزیرستان کی کم عمر لڑکیوں کے غیرت کے نام پر قتل کے واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر بھی صارفین نے اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے اس جرم میں شریک افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔

شیزل ملک نامی ایک صارف نے اس واقعہ پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’وزیریستان میں آج تین کم سن لڑکیوں کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا ہے کیونکہ ان کی 50 سکینڈ کی ایک ویڈیو انٹرنیٹ پر لیک ہو گئی تھی، میں ان خواتین کو نہیں بھول پا رہی جنھیں ایسے ہی ایک واقعے کے بعد کوہستان میں قتل کیا گیا تھا اور اسی وجہ سے قندیل بلوچ کو بھی مارا گیا۔ ایک مرد کی غیرت کتنی کمزور ہے کہ ایک ویڈیو اس کو توڑ کر رکھ دیتی ہے۔‘

ملالہ یوسف زئی کے والد ضیالدین یوسف زئی نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’میں شدید صدمے میں ہوں، میں غیرت کے نام پر دو کم سن لڑکیوں کو قتل کرنے کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ مجرمان کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔ ان تمام مردوں کو شرم آنی چاہیے جو اس غیر انسانی پدرشاہی رواج پر خاموش ہیں یا اس کا تحفظ کرتے ہیں۔

ٹوئٹر

پاکستان کی اداکارہ اور ماڈل میرا سیٹھی نے بھی اس پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’وزیریستان میں دو کم سن لڑکیوں کے قتل کی بری خبریں پڑھی ہیں، اب ہمیں ’غیرت کے نام پر قتل‘ کی اصطلاح کی دوبارہ تشریح کرنے کا وقت ہے جس کا اصل مطلب قتل ہے لیکن اس کو عزت کے نام پر قرار دینے سے ہم مسلسل اس جرم کو مجرم کی نگاہ سے دیکھتے ہیں نہ کہ متاثرہ شخص کی نظر سے۔

جبکہ لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائسنز (لمز) کی معلمہ ندا کرمانی نے اس پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ’ ان جرائم کے ساتھ عزت کا تصور جوڑنے سے ایسے جرائم کو مزید بڑھاوا ملتا ہے، ان جرائم کو عزت کے نام پر قتل کہنے سے اس حقیقت کو کم کر دیا جاتا ہے کہ یہ ایک قتل ہے اور اسے پدرشاہی مسئلہ کے بجائے معاشرتی معاملہ سمجھ لیا جاتا ہے، اور ایک اور تناظر میں مردانہ انا بھی اسی طرح ہوتی ہے