منتخب تحریریں

وفا داری بشرط استواری

Share

پیرو مرشد کی اہل ایمان پر کڑی شر ط، پائیدار، مستحکم اور ہمہ وقت و فاداری ’’اصل ایمان‘‘ بتایا۔ سید منور حسن کہیں آگے۔ اقامتِ دین کیلئے جب اپنے آپ کو وقف کیا تو تحریکی کارکن سے امیر جماعت اور پھر امیر جماعت سے کارکن وفاداری محکم ومسلم رہی۔

تحریک احیائے دین کا بھاری پتھر جب چوم کر اُٹھایا تو آخری سانس تک کندھادیئے رکھا۔رخصت ہوئے تو عہد و اقرار سے وفاداری ضرب المثل بن چکی تھی۔ لگ بھگ 5دہائیوں سے واقفیت،اتنا ہی عرصہ جانچ پڑتال جاری رکھی کہ قرآن کا کونسا مطالبہ جو سید صاحب سرانجام دینے سے قاصر رہے۔ دوستوں، واقفان حال، قریبی ساتھیوں سے معلومات لیں، چھان بین کی۔

آج گواہی دینے کے قابل کہ ’’سید صاحب کا کردار، گفتار کے عین مطابق جبکہ گفتار، کردار کا عکاس رہا۔ ذاتِ اللہ تعالیٰ کے علاو ہ کسی کا ڈرنہ رہا۔ جابر ترین حکمران کو بغیر ہچکچائے للکارا۔ سیاست کو دین سے جب جوڑتے تو جاہ و جلال، غلبہ، دلیری، قہر،صداقت،دیدنی تھا۔

دین و آخرت کی فکر میں خشوع خضوع، ڈر، خوف،عاجزی،انکساری نے کپکپاہٹ طاری رکھی۔ عادت اور خصلت میں قرآن کا وارث اور امین پایا۔ تقویٰ، پرہیز گاری، ایمان، اعتقاد کا ایسامعیار قائم رکھا کہ مثالیں ختم نہ ہوں۔ ذاتی،نجی،عائلی اور مالی معاملات پاک سازی، سادگی، خاکساری اور عاجزی سے آراستہ پیراستہ رکھے۔

حسِ لطافت اور مزاح رچا بسا،برادرِ محترم مجیب الرحمٰن شامی صاحب کے ذاتی دوست،انکی نجی محفلوں کو زعفران کا کھیت بنا دیتے۔شامی صاحب کے ہاںبے تکلف معصوم چلبلاپن اپنے جوبن پر نظر آتا۔ پہلی دفعہ دیدار ستر کی دہائی کے اوائل میں اسلامی جمعیت طلبہ کی مرکزی تربیت گاہ میں ہوا۔

امیربنے تو میرے لیے انکی شفقت اور محبت میں مزید اضافہ ہوا۔ ملکی مسائل اور سیاسی معاملات پر گاہے بگاہے گفتگو کے لیے بلا لیتے، باوجودیکہ ان دنوں میں تن من دھن کے ساتھ عمران خان کی سیاست کو پروان چڑھانے، آگے بڑھانے کے لیے جُتا تھا۔ فراخدلی کہ اعتماد کرتے اور بے تکلفی سے سیاسی معاملات و فیصلوں پر رائے لیتے۔

میری خوش قسمتی کہ قاضی حسین احمدسے جو شفقت اور محبت ملی، سید صاحب میں منتقل ہوگئی۔ سکتہ طاری کر نے والے ایک واقعہ کا ذکر ضروری،1995ء میں عمران خان نے سیاست کا ارادہ باندھا تو اپنے تئیں عمران خان کو قاضی صاحب سے قریب رکھنے کے لیے ملاقاتوں کا شعوری سلسلہ شروع کروایا۔ نومبر 2007ء میںسانحہ پنجاب یونیورسٹی پر، جمعیت کے ہاتھوں عمران خان کی توہین پر کھٹائی ضرور آئی،جماعت سے رابطے کسی نہ کسی طور قائم رہے۔

سید منور حسن کو جماعت کی سیاسی حدود و قیود کا کما حقہ ادراک تھا۔سید صاحب کاخیال تھا کہ ’’2013ء کے انتخابات میں کسی بڑی سیاسی جماعت، امکانی طور پر تحریک انصاف سے الحاق کے بغیر الیکشن میں جانا سعی لاحاصل رہے گا‘‘۔

الیکشن جوں جوں قریب آیا، میں بھی مستعد،جماعت اسلامی اور عمران خان کے رابطے بڑھے۔ عمران خان مع چند مشیروں کے اور منور حسن جماعت اسلامی کی سینئر قیادت کے ساتھ منصورہ زمان پارک آتے جاتے رہے۔

2012ء کے آخری مہینوں میں کسی ملاقات میں طے پایا کہ دونوں پارٹیاں تین تین افراد کو نامزد کریں جو الیکشن اسٹرٹیجی اور مشترکہ لائحہ عمل بنائیں۔

جماعتِ اسلامی نے لیاقت بلوچ صاحب، پروفیسر ابراہیم صاحب اور شاید ڈاکٹر کمال صاحب یا فرید پراچہ صاحب نامزدکیے جبکہ عمران خان نے میرا،جاوید ہاشمی اور ڈاکٹر عارف علوی کا نام دیا۔اس تبصرے کے ساتھ کہ ’’حفیظ !تحریک انصاف میں آپ ہی کی نمائندگی کرتا ہے‘‘،جو ایک چالاک بیان تھا۔

عرصہ قدیم سے عمران خان کو اند رباہر سے جانچنے پرکھنے کی سہولت بدرجہ اُتم موجود،شروع دن سے پتہ تھا کہ عمران خان تہہ دل سے جماعت اسلامی کو فقط وعدہ فردا اور ٹال مٹول پر مصروف رکھنا چاہتے تھے۔ الیکشن الحاق و اشتراک کے بارے میں سنجیدہ نہیں، محض ٹرخانا مقصد ہے۔ جاوید ہاشمی زیرک،گھاگ سیاستدان، بھانپ چکے تھے، چھوٹتے فرما دیا، ’’ جماعت کو خوار کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، اس عمر میںدھوکہ دینااور وقت ضائع کرنابنتا نہیں‘‘۔

جماعت اسلامی کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ ہماری پہلی میٹنگ کا اہتمام ہوا۔ جاویدہاشمی نے معذرت کر لی،ڈاکٹر عارف علوی نے فون پر اپنی دستیابی بتائی۔ پہلی اور آخری ایسی میٹنگ میں نے اکیلے اٹینڈ کی۔ منور صاحب بنفس نفیس موجود، گوش گزارکیا آپ کو دھوکے میں رکھ کر، چالبازی مقصدہے۔ منورصاحب ساتھیوں کی موجودگی میں میرے انکشاف پرششدر رہ گئے۔

ایک ہی جملہ ادا کر پائے، ’’آخر کیوں؟‘‘ چہرے پر اُمڈی تکلیف آج تک میری آنکھوں میں محفوط ہے۔ اس میٹنگ کے چند دن بعد تحریک انصاف کا ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا۔پشاور تا کراچی سارے چیدہ چیدہ رہنما شریک تھے۔ مجھے خاص طور پراسلام آباد طلب کر کے میٹنگ (جو کبھی ہوئی نہ تھی ) کی رپورٹ پیش کرنے کو کہا گیا۔مجھے بے مقصد اجلاس سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔

چنانچہ لاہور سے نکلا ہی نہیں۔ عمران خان کے بہت اصرار پر لاہور سے اسکائپ پر شریک ہوا۔ اجلاس شروع ہوتے ہی عمران خان اور درجنوں اکابرین نے رپورٹ مانگی، میراجواب اتناکہ ’’ جماعت اسلامی کو دھوکے میں رکھنے اور آپ لوگوں کی چالاکیوںکاشکار بننے کا قائل نہیں۔جماعت اسلامی کا نہیں تو میرا ہی خیال رکھ لیں،مجھے احمق سمجھیں نہ بنائیں‘‘۔

سید صاحب سے آخری ملاقات شاید سال بھر پہلے شامی صاحب کے عشائیے میں ہوئی۔ باوجودیکہ طبیعت مضمحل، متانت میں ملفوف حسِ مزاح ہمیشہ کی طرح موجود تھی۔علامہ انیق احمد نے کئی ہفتوں پہلے کراچی سے پیغام بھیجا کہ حالت تشویشناک ہے،دعاؤں کی ضرورت ہے۔بالآخر داغِ مفارقت دے گئے۔ مرجع تحریک اسلامی سب کو سوگوار چھوڑ گئے۔مگر اقامتِ دین کا حق ادا کر کے۔ جو جانتا ہوں، حسن ظن اور دعا یہی کہ

’’ اے نفسِ مطمئن،چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو اپنے نیک انجام سے خوش اور رب کے نزدیک پسندیدہ ٹھہرا۔شامل ہوجا میرے نیک بندوں میں اور داخل ہوجا میری جنت میں(الفجر 27تا30)‘‘۔ آمین