کھیل

وقار حسن ، کرکٹ کی باوقار شخصیت

Share

پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر وقارحسن پیر کے روز کراچی میں انتقال کرگئے ۔ ان کی عمر 87 برس تھی۔ وہ کافی عرصے سے علیل تھے۔

وہ پاکستان کی اُس ٹیم میں شامل تھے جس نے پاکستان کا اولین ٹیسٹ میچ اکتوبر 1952 میں بھارت کے خلاف دلی میں کھیلا تھا۔

وقارحسن کے انتقال کے بعد پاکستان کی اولین ٹیسٹ ٹیم کا کوئی بھی کھلاڑی اب اس دنیا میں نہیں رہا۔

وقارحسن نے 21 ٹیسٹ کی 35 اننگز میں ایک سنچری اور چھ نصف سنچریوں کی مدد سے 1071 رنز بنائے تھے۔

انہوں نے 99 میچوں پر مشتمل اپنے فرسٹ کلاس کیرئر میں چار ہزار سے زائد رنز بنائے تھے جن میں آٹھ سنچریاں شامل تھیں۔

پاکستان کی اولین ٹیسٹ سیریز کے ممبئی ٹیسٹ میں وقارحسن نے دونوں اننگز میں 81 اور65 رنز بنائے تھے۔ کولکتہ ٹیسٹ میں انھوں نے پانچ گھنٹے کی ذمہ دارانہ اننگز کھیلتے ہوئے97 رنز بنائے تھے اور پاکستانی ٹیم کو ممکنہ شکست سے بچالیا تھا۔

وقار حسن

وقارحسن نے اپنے ٹیسٹ کیریئر کی سب سے یادگار اننگز 1955 میں نیوزی لینڈ کے خلاف لاہور میں کھیلی تھی جس میں انھوں نے 189 رنز بنائے تھے۔ وکٹ کیپر امتیاز احمد نے اس اننگز میں 209 رنز اسکور کیے تھے اور ان دونوں نے ساتویں وکٹ کی شراکت میں 308 رنز کا اضافہ کیا تھا جو ٹیسٹ کرکٹ میں سترہ سال تک پاکستان کی کسی بھی وکٹ کی سب سے بڑی شراکت رہی۔ یہ اب بھی ساتویں وکٹ کے لیے پاکستان کی سب سےبڑی پارٹنرشپ کا ریکارڈ ہے۔

وقارحسن کے اعداد و شمار ان کی صلاحیتوں کی مکمل عکاسی نہیں کرتے لیکن وہ اپنے کیریئر میں ایک قابل اعتماد اور اسٹائلش بیٹسمین کے طور پر مشہور تھے۔ انہیں مشکلات حالات میں بیٹنگ کرنا بہت پسند تھا۔ وہ خود کہتے تھے کہ اگر سکور بورڈ پر دو سو پچاس رنز دو کھلاڑی آؤٹ ہو تو وہ انہماک سے بیٹنگ نہیں کرسکتے تھے لیکن تیس رنز تین کھلاڑی آؤٹ پر وہ ایک مختلف بیٹسمین ہوتے تھے۔

وقارحسن نے اپنی تعلیم اور کرکٹ لاہور میں شروع کی تھی ۔ وہ بڑے فخر سے بتایا کرتے تھے کہ ان کے سکول نے انٹرسکول ٹورنامنٹ کے فائنل میں ایچی سن کالج کو ہرایا تھا اور ان کی تصویر اخبار میں شائع ہوئی تھی ۔ جب وہ سکول چھوڑ رہے تھے تو سرٹیفکیٹ پر ہیڈ ماسٹر نے لکھا تھا کہ اس بچے میں مستقبل کا پاکستانی کرکٹر دیکھ رہے ہیں۔

وقارحسن کے ساتھ سکول اور کالج کے دنوں میں کھیلنے والوں میں خان محمد، فضل محمود، محمود حسین اور خالد حسن شامل تھے۔ یہ سب ٹیسٹ کرکٹر بنے تھے۔

وقارحسن ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد چیف سلیکٹر بھی رہے۔ ان کی منتخب کردہ پاکستانی ٹیم نے 1982 میں بھارت کے خلاف ہوم سیریز تین صفر سے جیتی تھی۔

وقارحسن نے اپنے چند ساتھی کرکٹرز کو کیریئر کے بعد مالی مشکلات میں دیکھا تھا لہٰذا انھوں نے مستقبل کو ذہن میں رکھتے ہوئے صرف ستائیس برس کی عمر میں ٹیسٹ کرکٹ سے کنارہ کشی اختیار کرکے کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے ابتدا ٹیکسٹائل مشینری سے کی لیکن پھر مصالحہ جات کی کمپنی کی بنیاد رکھی جو آج بھی قائم ہے۔

ٹیسٹ کریئر میں کبھی صفر پر آؤٹ نہیں ہوئے

وقارحسن دنیا کے اُن چھ ایسے کرکٹروں میں شامل ہیں جنھوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں ایک ہزار سے زائد رنز بنائے لیکن اپنے ٹیسٹ کیرئیر میں کبھی صفر پر آؤٹ نہیں ہوئے۔ ان کے علاوہ آسٹریلیا کے جم برک، ریگی ڈف، ہربی کالنز، ویسٹ انڈیز کے برینڈن ناش اور زمبابوے کے ڈیو ہوٹن اپنے ٹیسٹ کریئر میں ہزار رنز بنانے کے باوجود کبھی صفر پر آؤٹ نہیں ہوئے۔

سنیما انسپکٹر کی ملازمت

وقارحسن کے لاہور چھوڑ کر کراچی سکونت اختیار کرنے کی وجہ یہ تھی کہ پی ڈبلیو ڈی کے چیف انجینئر کفیل الدین نے انہیں ملازمت کی پیشکش کی تھی۔ کراچی میں وقارحسن نے ایک سو پچہتر روپے ماہانہ پر سنیما انسپکٹر کی ملازمت کی تاہم ان کے ادارے نے انہیں یہ کہہ رکھا تھا کہ وہ کرکٹ کھیلیں۔

اداکارہ سے شادی

وقارحسن اپنے دور کے خوبصورت کرکٹر کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ انہیں فلم میں کام کرنے کی پیشکش بھی ہوئی جسے انھوں نے قبول نہیں کیا تاہم ان کی شادی اس دور کی ایک اداکارہ جمیلہ رزاق سے ہوئی تھی جنہوں نے پچاس کی دہائی میں متعدد پاکستانی فلموں میں کام کیا تھا۔

ایک بھائی ٹیسٹ کرکٹر دوسرے فلمساز

وقارحسن

وقارحسن کے چھوٹے بھائی پرویز سجاد نے بھی 19 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی اور لیفٹ آرم سپنر کی حیثیت سے 59 وکٹیں حاصل کیں تاہم وقارحسن نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ چونکہ وہ لاہور سے کراچی منتقل ہوگئے تھے لہٰذا پرویز سجاد کے کریئر میں وہ اہم کردار ادا نہیں کر پائے تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ وقار حسن نے جب اپنا آخری فرسٹ کلاس میچ کراچی بلوز کی طرف سے لاہور گرینز کے خلاف کھیلا تو پرویز سجاد ان کے خلاف کھیلے تھے۔ کراچی بلوز نے اگرچہ وقارحسن کی قیادت میں قائداعظم ٹرافی کا یہ فائنل جیتا لیکن وہ اپنی آخری اننگز میں چھوٹے بھائی کی گیند پر صفر پر آؤٹ ہوئے تھے۔

وقارحسن کے ایک اور بھائی اقبال شہزاد اپنے دور کے ذہین فلمساز اور ہدایت کار تھے جن کے کریڈٹ پر ’بدنام‘ اور ’بازی‘ جیسی کامیاب فلمیں ہیں۔