کالم

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے……!

Share

افراد کے اس معاشرے میں چند انسان ایسے ہوتے ہیں جو اپنی ذات میں انجمن کی حیثیت رکھتے ہیں، اور یہی لوگ اپنی خداداد صلاحیتوں سے تاریخ کا رخ موڑنے فن جانتے ہیں۔ ان کی قابلیت، ذہانت اور محنت سے دنیا میں ناصرف خوشحالی، ترقی اور امن کو فروغ حاصل ہوتا ہے بلکہ یہ لوگ تمام دنیا کے انسانوں کا مسیحا سمجھے جاتے ہیں۔ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کا شمار ایسی ہی عظیم اور عہدساز شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی لازوال شاعری اور دانشمندانہ اقوال کے ذریعے ناصرف انسانیت کو اس کی حقیقت اور اہمیت سے آگاہ کیا بلکہ خصوصی طور پر عالم اسلام کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگا کر بیدار کیا اور دنیا میں عزت و وقار سے جینے کا حوصلہ عطاء کیا۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ اپنے عہد کی سیاسی تحریکوں کو انکے صحیح پس منظر میں سمجھتے تھے۔ سیاست درحقیقت انکی زندگی کا ایک اہم اور روشن باب ہے، جسکی بدولت انہوں نے قیام پاکستان سے سترہ برس پیشتر ہی اپنی بصیرت سے مستقبل کے دھندلے نقوش میں ایک آزاد اسلامی مملکت کا نقشہ ابھرتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ کی شخصیت کے وہ تخلیقی عناصر جنہوں نے اقبال میں ایک مخصوص قسم کی گو نا گو نی رنگا رنگی پیدا کی اوراقبال کو اس کے ہم عصروں سے زیادہ دل آویز، باعث کشش اور جاذب نظر بنا دیا،اس کاباعث اقبال کی علمی و ادبی اور تعلیمی کوششوں سے زیادہ مذہبی رجحان بنا۔اور یہی ان کی طاقت و قوت اور حکمت و فراست کا منبع اور سرچشمہ ہے، لیکن اقبال کا وہ یقین و ایمان اس خشک جامد ایمان کی طرح نہیں، جو بے جان تصدیق یا محض جامد عقیدہ ہے، بلکہ اقبال کا”یقین“ عقیدہ و محبت کا ایک ایسا حسین امتزاج ہے جو اس کے قلب و وجدان، اس کی عقل وفکر، اس کے ارادہ و تصرف اس کی دوستی و دشمنی غرضیکہ ساری زندگی پرچھایا ہوا تھا۔ آپ نے مسلمانوں کو پیغام دیا کہ تم دنیا کی امامت کے لئے پیدا کئے گئے ہو، اٹھو اور اپنا فرض ادا کرو۔

سبق پڑھ صداقت کا شجاعت کا عدالت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

دور مادیت اور مغربی تہذیب و تمدن کی ظاہری چمک و دمک سے اقبال کی آنکھیں خیرہ نہ ہو سکیں، حالانکہ اقبال نے جلوہ دانش فرنگ میں زندگی کے طویل ایام گزارے اس کی وجہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ اقبال کی والہانہ محبت، جذبہ عشق اور روحانی وابستگی تھی۔ جب سارا عالم خواب غفلت میں پڑا سوتا رہتا اس اخیر شب میں اقبال کا اٹھنا اور اپنے ربّ کے سامنے سجدہ ریز ہو جانا، پھر گڑگڑانا اور رونا، یہی وہ چیز تھی جواس کی روح کو ایک نئی نشاط اس کے قلب کو ایک نئی روشنی اور ایک نئی فکرکی غذا عطا کرتی پھر وہ ہر دن اپنے دوستوں اور پڑھنے والوں کے سامنے ایک نیا شعر پیش کرتے، جو انسانوں کو ایک نئی قوت، ایک نئی روشنی اور ایک نئی زندگی کی راہ دکھاتا، اور مسلمانوں کو ایک اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور ان سے محبت کرنے، اور قرآن پاک کو مضبوطی سے پکڑ کر زندگی کو اس کے مطابق اپنانے کی ضرورت پر زور دیتا۔ آپ نے فرمایا۔

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

غرضیکہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ نے اپنی پوری زندگی قرآن مجید میں غور و فکر اور تدبر و تفکر کرتے گزاری، قرآن مجید پڑھتے، قرآن مجید سوچتے، قرآن مجید ان کی وہ محبوب کتاب تھی جس سے انہیں نئے نئے علوم کا انکشاف ہوتا، اس سے انہیں ایک نیا یقین اور ایک نئی قوت و توانائی حاصل ہوتی۔ جوں جوں ان کا مطالعہ قرآن بڑھتا گیا، ان کے فکر میں بلندی اور ایمان میں پختگی ہوتی گئی، اس لیے کہ قرآن ہی ایک ایسی زندہ جاوید کتاب ہے جو انسان کو لدنی علم اور ابدی سعادت سے بہرہ ور کرتی ہے۔ یہ زندگی کا ایک واضح دستور اور ظلمتوں میں روشنی کا مینار ہے۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ اقبال کی محبت، شغف اور ان کا اخلاص انتہا ء درجے کا تھا، ان کے نزدیک اسلام ہی ایک ایسا دین ہے کہ اس کے بغیر انسانیت فلاح و سعادت کے بامِ عروج تک پہنچ ہی نہیں سکتی، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم رشد و ہدایت کے آخری مینارہیں۔ آپ فرقہ واریت، ظلم و جبر، استحصال، بے انصافی، اقرباپروری، ذات پات اور جھوٹ و منافقت کے سخت خلاف تھے جبکہ آپ ہر انسان کو آزاد، خوشحال اور تحفظ میں دیکھنا چاہتے تھے۔ آپ نے مسلمانوں کو بیدار کر کے انہیں بھولا ہوا سبق یاد دلایا، اور رسالت مآب کی تعلیمات کو اپنانے پر زور دیا اور خود اس کی عملی تصویر بنے۔ اقبالؒ کا تصور شاہین محض ایک شاعرانہ تخیل نہیں بلکہ اس میں اسلامی فقر کی تمام صفات بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ طالب علم کو شاہین کا نام دے کر اقبالؒ جہاں اس میں رفعت خیال، جذبہ عمل، وسعت نظری اور جرات رندانہ پیداکرنا چاہتے تھے وہیں جہان فکر وعمل میں اپنی دنیا پیدا کر نے کی تلقین کرتے بھی نظر آتے ہیں۔

جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے ایک بہانہ